یہ نظمیںفروری 2000ء میںکشمیر ڈے پر کہی تھیں،جو19فروری کو NEDیونیورسٹی کے آڈیٹوریم میںمنعقدہ کشمیر ڈے پر بطور مہمان مقرر اپنی تقریر کے بعد پڑھی بھی تھیں۔ یہ نظمیں میرے کاغذات میں کہیں گم ہوچکی تھیں لیکن آج خوش قسمتی سے مل گئی ہیں ۔
سنو اے جھیل ڈل کی جل پریو !
کشمیر کی وادی کی مہکتی کلیو !
چنار کے باغوں میں کوکتی بلبلو !
اے قربانی دینے والی کشمیر کی بیٹیو !
تم نے خوابوں کو بُنا تھا بڑی محبت سے
تم نے بیٹوں کو جنا تھا بڑی چاہت سے
تمہارے بیٹے یہ جانثار ملت کے
تمہارے بیٹے یہ شہسوار وادی کے
مجاہدین ِ کشمیر چنار وادی کے
جرأتوں کے تمغے سجائے سینوں پہ
سوار ہو کے چلے عزم کے سفینوں پر
ہے جن کے دل میں بسا لا الٰہ الااللہ
زباں پہ جاری ہے محمد رسول اللہ
علَم اٹھائے ہوئے حق گوئی و بے باکی کا
انتظار ہے ان کو شہادت کے ساقی کا
دل میں جوش ہے جذبہ ہے ولولہ بھی ہے
ہاتھ خالی سہی خود مگر وہ شعلہ ہیں
ہوئے ہیں محوِ سفر آج سوئے آزادی
پہننے والی ہے آزادی کا تاج یہ وادی
اَرضِ کشمیر کا خطاب مجاہدین سے
مرے مجاہدو !
مرے جانثارو !
مرے شہسوارو !
یہ ساری وادی
تم پہ ہے صدقے
تم پہ ہے واری
رستے میں رب کے
ہے جنگ تمہاری
یہ جنگ تمہاری
میرے سپوتو !
مرے پاسبانو !
ہے سب پہ بھاری
مرے دشمنوں پر
یہ ضرب کاری
اب بچ نہ پائیں گے
عدوِ الٰہی
عدوِ مسلماں
مجھے روندنے والے
تمہیں مارنے والے
اگر بچ بھی جائیں گے
توبچ نہ پائیں گے
قہر ِخدا سے
عذابِ خدا سے
جہنم بنے گی
یہ دنیا ان کی
وہ دنیا ان کی
پامال کرکے
جنت یہاں کی
جنت جہاں کی
سلام اے مجاہدو !
سلام ان کو جو میدانِ جنگ میںجاتے ہیں
سلام ان کو جو حق کا علَم اٹھاتے ہیں
سلام ان کو جو اپنا لہو بہاتے ہیں
سلام ان کو جو جنت میں گھر بناتے ہیں
سلام ان کو اللہ کے نام کی خاطر
اپنے کاندھوں پہ ہتھیاروں کو اٹھاتے ہیں
سلام ان کو بھی پہنچے کہ جو نہتے ہیں
جو اپنے پیاروں کی بے گور و کفن لاشوں کو
خود اپنے ہاتھوں سے اَرضِ وطن میں دباتے ہیں
سلام ان کو بھی کرتی ہوں آج اے لوگو !
جو مجاہدین کی فتح ونصرت کے لیے
ہاتھ اٹھا کے رب سے دعائیں کرتے ہیں
سلام ان بیٹیوں ، ماؤںاور بہنوں کو
جو مجاہدین پر آنچل کی چھاؤں کرتی ہیں
دعائیں دے کر ڈبڈبائی آنکھوں سے
میدانِ جہاد کی جانب روانہ کرتی ہیں