حنیف عابد کی کہانیاں بچوں میں تخلیقی صلاحیتیں ابھارتی ہیں۔ حنیف عابد ہمہ جہت قلم کار ہیں‘ وہ شاعر‘ ادیب‘ نقاد‘ افسانہ نگار‘ صحافی اور بچوں کے ادب کے تخلیق کار بھی ہیں۔ انہوں نے صحافت کے میدان میں نام کمانے کے ساتھ ساتھ شعر و سخن میں بھی اپنی شناخت بنائی اس کے علاوہ ان کے افسانے بھی ہم پڑھتے ہیں وہ نظامت کاری میں بھی اپنے جوہر دکھا رہے ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لیے جو کہانیاں تخلیق کی ہیں وہ بھی قابل ستائش ہیں کیوں کہ بچوں کا ادب لکھنا ایک مشکل کام ہے لیکن حنیف عابد محنت اور لگن سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سحر انصاری نے کراچی پریس کلب کے زیر اہتمام نیشنل بک فائونڈیشن کے تحت شائع ہونے والی کتاب ’’جگمگ تارے‘‘ کی تقریب رونمائی کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حنیف عابد نے بچوں کی کہانیاں احمد عقیل روبی کی فرمائش پر لکھنا شروع کیں چوں کہ ان کے اندر ایک نثر نگار بھی موجود تھا لہٰذا نثر پر بھی ان کی گرفت بہت مضبوط ہے جس کی وجہ سے وہ خوب صورت کہانیاں تخلیق کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کی تحریروں میں سادگی اور سلاست کے ساتھ دل چسپی کا عنصر بھی نمایاں ہوتا ہے بچوں کے لیے ان کا ناول بھی بہت پسند کیا گیا تھا۔ جگمگ تارے بھی خوب صورت تحریر ہے جو کہ بچوںکے لیے گراں قدر تحفہ ہے۔ حنیف عابد کو لفظوں کی نشست و برخواست کا علم ہے مجھے امید ہے کہ حنیف عابد مزید ترقی کریں گے۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی حمیدہ اطہر مہمان اعزازی طارق جمیل تھے کتاب اور صاحبِ کتاب کے فن و شخصیت پر صاحبِ صدر کے علاوہ حمیدہ اطہر‘ طارق جمیل‘ معراج جامی‘ علی حسن ساجدی‘ اے ایچ خانزادہ‘ ڈاکٹرنزہت عباسی اور صالحہ صدیقی نے گفتگو کی۔ اختر سعیدی اور عظیم فاطمی نے منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ ان تمام مقررین کی تقاریر کا خلاصہ یہ ہے کہ حنیف عابد بچوں کی نفسیات جانتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی کہانیاں بچوں کی دلچسپی کا سامان ہیں اور بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافے کا باعث بھی۔ ان کی کہانیوں میں موجودہ عہد کی عکاسی ہے‘ تخلیقی اور تمثیلی رنگ بھی نمایاں ہے انہوں نے بچوں کی تربیت کو مدنظر رکھ کر کہانیاں لکھی ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے اخلاقی‘ تہذیبی‘ معاشرتی اور معاشی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا ہے ان کی یہ کتاب اردو ادب کی بہترین کتابوں میں شامل ہونے کا حق ادا کر رہی ہے ان کی کہانیوں کے کرداروں کی زبان بہت آسان اور جملے بڑے دل چسپ ہیں۔ صاحبِ اعزاز حنیف عابد نے کہا کہ قلم کے ساتھ ان کا رشتہ چالیس برسوں پر محیط ہے لیکن جب میں نے بچوں کے لیے لکھنا شروع کیا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ کام معمول سے ہٹ کر ہے۔ بچوں کے لیے لکھتے وقت بچوں کی ذہنی سطح کا خیال رکھنا پڑتا ہے سان لفظوں میں اپنا نظریہ بیان کرنے کے سبب بچے میری کہانیاں پسند کرتے ہیں۔ اس موقع پر سعد الدین سعد نے نعت رسولؐ پیش کی۔ رونق حیات نے کلماتِ تشکر پیش کیے۔ طاہرہ سلیم سوز نے حنیف عابد کو اجرک پہنائی۔ م۔ص۔ ایمن‘ وحید محسن اور صالحی عزیز صدیقی نے حنیف عابد کو کتابوں کا تحفہ دیا۔ حامد الاسلام نے حنیف عابد کو گل دستہ پیش کیا۔ تقریب میں مظہرہانی‘ جنید علی فریدی‘ نعیم قریشی‘ عادل ظفر‘ خالد دانش‘ اصغر خان‘ رحمان نشاط‘ زاہد حسین جوہری‘ ڈاکٹر اقبال ہاشمانی‘ ارشاد آفاقی‘ عبدالستار رستمانی‘ شائق شہاب‘ فاروق عرشی‘ فہیم برنی‘ الطاف احمد‘ ضیاء حیدر زیدی‘ احمد سعید خان‘ ابرار بختیار‘ ممتاز احمد‘ مجید رحمانی‘ فرحت اللہ قریشی‘ شاہین مصور‘ سہیل ملک‘ غلام مرتضیٰ سولنگی‘ رضوان احمد‘ علی خان‘ صائمہ نفیس‘ ثمر کوثر گل‘ شبانہ سحر‘ قاضی اعجاز‘ جاوید مہر اور محسن نقوی کے علاوہ دیگر افراد شریک تھے۔