سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ
معقولیت کے ساتھ جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص اپنا پس انداز کیا ہوا روپیہ کسی نفع آور کام میں لانا چاہتا ہو اسے محنت کرنے والوں کے ساتھ شرکت کا معاملہ کرنا چاہیے اور نفع نقصان میں ایک طے شدہ تناسب کے مطابق حصہ دار بن جانا چاہیے۔ نفع کمانے کا یہ آخر کون سا معقول طریقہ ہے کہ ایک شخص کا شریک بننے کے بجائے اسے سو روپے قرض دوں اور اس سے کہوں کہ چونکہ تو اس رقم سے فائدہ اٹھائے گا اس لیے تجھ پر میرا یہ حق ہے کہ مجھے مثلاً ایک روپیہ ماہوار اس وقت تک دیتا رہ جب تک میرے یہ روپے تیرے کاروبار میں استعمال ہو رہے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ جب تک اس سرمایہ کو استعمال کرکے اس کی محنت نے نفع پیدا کرنا نہ شروع کیا ہو‘ اُس وقت تک آخر وہ کون سا منافع موجود ہے جس میں سے حصہ مانگنے کا مجھے حق پہنچتا ہو؟ اگر وہ شخص کاروبار میں فائدے کے بجائے نقصان اٹھائے تو میں کس عقل و انصاف کی رو سے یہ ماہوار ’’منافع‘‘ اس سے وصول کرنے کا حق رکھتا ہوں؟ اور اگر اس کا منافع ایک روپیہ ماہوار سے کم رہے تو مجھے ایک روپیہ ماہوار لینے کا کیا حق ہے؟ اور اگر اس کا کل منافع ایک ہی روپیہ ہو تو کون سا انصاف یہ جائز رکھتا ہے کہ جس شخص نے مہینہ بھر تک اپنا وقت‘ محنت‘ قابلیت اور ذاتی سرمایہ سب کچھ صرف کیا وہ تو کچھ نہ پائے اور میں جو صرف سو روپے اس کو دے کر الگ ہو گیا تھا‘ اس کا سارا منافع لے اڑوں؟ ایک بیل بھی اگر تیلی کے لیے دن بھر کولہو چلاتا ہے تو کم از کم اس سے چارہ مانگنے کا حق تو ضرور رکھتا ہے۔ مگر یہ سودی قرض ایک کاروباری آدمی کو وہ بیل بنا دیتا ہے جسے کولہو تو دن بھر میرے لیے چلانا چاہیے اور چارہ کہیں اور سے کھانا چاہیے۔
پھر اگر بالفرض ایک کاروباری آدمی کا منافع اس متعین رقم سے زائد بھی رہے جو قرض دینے والے نے سود کے طور پر اس کے ذمہ لگائی ہو‘ تب بھی عقل‘ انصاف‘ اصولِ تجارت اور قانونِ معیشت کسی چیز کی رو سے اس بات کو معقول ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ تاجر‘ صناع‘ کاشت کار اور دوسرے تمام وہ لوگ جو اصل عالمینِ پیدائش ہیں جو سوسائٹی کی ضروریات تیار اور فراہم کرنے میں اپنے اوقات صرف کرتے ہیں‘ محنتیں برداشت کرتے ہیں‘ دماغ لڑاتے ہیں اور اپنے جسم و زہن کی ساری قوتیں کھپا دیتے ہیں‘ ان سب کا فائدہ تو مشتبہ اور غیر معین ہو مگر صرف اس ایک آدمی کا فائدہ یقینی اور معین ہو جس نے اپنی پس انداز کی ہوئی رقم قرض دے دی ہے۔ اُن سب کے لیے نقصان کا خطرہ بھی ہو مگر اس کے لیے خالص نفع کی گارنٹی ہو۔ اُن سب کے نفع کی شرح بازار کی قیمتوں کے ساتھ گرتی اور چڑھتی رہے‘ مگر یہ ایک اللہ کا بندہ جو نفع اپنے لیے طے کر چکا ہے وہ اسے جوں کا توں ماہ بہ ماہ اور سال بہ سال ملتا رہے۔
توجیہ دوم:
اس تنقید سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بادی النظر میں سود کو ایک معقول چیز قرار دینے کے لیے جو دلائل کافی سمجھ لیے جاتے ہیں‘ ذرا گہرائی میں جاتے ہی ان کی کمزوری کھلنی شروع ہو جاتی ہے۔ جہاں تک اس قرض کا تعلق ہے جو شخصی حاجات کے لیے لیا جاتا ہے‘ اس پر سود عائد ہونے کے لیے تو سرے سے کوئی عقلی دلیل موجود ہی نہیں ہے‘ حتیٰ کہ حامیان سود نے خود ہی اس کمزور مقدمے سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ رہا وہ قرض جو کاروباری اغراض کے لیے جاتا ہے‘ تو اس کے بارے میں بھی حامیان سود کو اس پیچیدہ سوال سے سابقہ پیش آتا ہے کہ سود آخر کس چیز کی قیمت ہے؟ ایک دائن اپنے سرمایہ کے ساتھ مدیون کو وہ کون سی جوہری چیز دیتا ہے جس کی ایک مالی قیمت اور وہ بھی ماہ بہ ماہ و سال بہ سال ادا شد فی قیمت مانگنے کا اسے حق پہنچتا ہو؟ اس چیز کے مختص کرنے میں حامیانِ سود کو خاصی پریشانی پیش آئی۔
ایک گروہ نے کہا کہ وہ ’’فائدہ اٹھانے کا موقع‘‘ ہے لیکن جیسا کہ اوپر کی تنقید سے آپ کو معلوم ہو چکا ہے‘ یہ ’’موقع‘‘ کسی متعین اور یقینی اور روز افزوں قیمت کا استحقاق پیدا نہیں کرتا‘ بلکہ صرف اس صورت میں ایک متناسب نفع کا استحقاق پیدا کرتا ہے جب کہ فی الواقع روپیہ لینے والے کو نفع ہو۔
دوسرا گروہ تھوڑی سی پوزیشن تبدیل کرکے کہتا ہے کہ وہ چیز ’’مہلت‘‘ ہے جو دائن اپنے سرمایہ کے ساتھ اس کے استعمال کے لیے مدیون کو دیتا ہے۔ یہ مہلت بجائے خود اپنی ایک قیمت رکھتی ہے اور جس قدر یہ دراز ہوتی جائے‘ اس کی قیمت بڑھتی چلی جاتی ہے جس روز آدمی روپیہ لے کر کام میں لگاتا ہے اس روز لے اس دن تک جب کہ اس سرمایہ کے ذریعے سے تیار کیا ہوا مال بازار میں پہنچے اور قیمت لائے ایک ایک لمحہ کاروباری آدمی کے لیے قیمتی ہے۔ یہ مہلت اگر اسے نہ ملے اور بیچ ہی میں سرمایہ اس سے واپس لے لیا جائے تو سرے سے اس کا کاروبار چل ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا یہ وقت روپیہ لگا کر لگانے کے لیے یقینا ایک قیمت رکھتا ہے جس سے وہ فائدہ اٹھا رہا ہے‘ پھر کیوں نہ روپیہ دینے والا اس فائدہ میں سے حصہ لے؟ اور اس وقت کی کمی و بیشی کے ساتھ مدیون کے لیے نفع کے امکانات بھی لامحالہ کم و بیش ہوتے ہیں‘ پھر کیوں نہ دائن وقت ہی کی درازی و کوتاہی کے لحاظ سے اس کی قیمت مختص کرے؟
مگر یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر روپیہ دینے والے کو کسی ذریعۂ علم سے یہ معلوم ہو گیا کہ جو شخص کام لگانے کے لیے اس سے روپیہ لے رہا ہے‘ وہ ضرور نفع ہی حاصل کرے گا‘ نقصان سے دوچار نہ ہوگا؟ اور پھر یہ اس نے کیسے جانا کہ اس کا نفع بھی لازماً اس قدر فی صدی رہے گا لہٰذا ضرور اتنے فی صدی اس کو روپیہ دینے والے کا حصہ ادا کرنا چاہیے؟ اور پھر اس کے پاس یہ حساب لگانے کا آخر کیا ذریعہ ہے کہ وہ وقت جس کے دوران میں وہ مدیون کو اپنے روپے کے استعمال کی مہلت دے رہا ہے لازماً ہر مہینے اور ہر سال اتنا نفع لاتارہے گا لہٰذا ضرور اُس کی ماہوار یا سالانہ قیمت یہ قرار پانی چاہیے؟ ان سوالات کا کوئی معقول جواب حامیانِ سود کے پاس نہیں ہے اس لیے بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ کاروباری معاملات میں اگر کوئی چیز معقول ہے تو وہ صرف نفع و نقصان کی شرکت اور متناسب حصہ داری ہے نہ کہ سود جو ایک متعین شرح کے ساتھ عائد کر دیا جائے۔
توجیہ سوم:
ایک اور اگر وہ کہتا ہے کہ نفع آوری سرمایہ کی ذاتی صفت ہے‘ لہٰذا ایک شخص کا دوسرے کے فراہم کردہ سرمایہ کو استعمال کرنا بجائے خود اس امر کا استحقاق پیدا کرتا ہے کہ دائن سود مانگے اور مدیون اد کرے۔ سرمایہ یہ قوت رکھتا ہے کہ اشیاء ضرورت کی تیاری و فراہمی میں مددگار ہو۔ سرمایہ کی مدد سے اتنا سامان تیار ہوتا ہے جتنا اس کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ سرمایہ کی مدد شامل حال ہونے سے زیادہ مقدار میں زیادہ اچھا مال تیار ہوتا ہے اور اچھی قیمت دینے والی منڈیوں تک پہنچ سکتا ہے ورنہ کم اور گھٹیا تیار ہوتا ہے اور ایسے مواقع پر نہیں پہنچ سکتا جہاں زیادہ قیمت مل سکے‘ یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ نفع آوری ایک ایسی صفت ہے جو سرمایہ کی ذات میں ودیعت کر دی گئی ہے‘ لہٰذا مجرد اس کا استعمال ہی سود کا استحقاق پیدا کر دیتا ہے۔
لیکن اوّل تو یہ دعویٰ ہی بداہتاً غلط ہے کہ سرمایہ میں ’‘نفع آوری‘‘ نام کی کوئی ذاتی صفت پائی جاتی ہے۔ یہ صفت تو اس میں صرف اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ آدمی اسے لے کر کسی مُثمرِ کام میں لگائے۔ صرف اسی صورت میں تم یہ کہہ سکتے ہو کہ روپیہ لینے والا چونکہ اس سے ایک نافع کام لے رہا ہے اس لیے اسے نفع میں سے حصہ دینا چاہیے۔ مگرجو شخص بیماری میں علاج پر صرف کرنے کے لیے یا کسی میت کی تجہیز و تکفین کے لیے روپیہ قرض لے رہا ہے‘ اس کے پاس یہ آخر کون سی معاشی قدر پیدا کرتا ہے جس میں حصہ بٹانے کا حق دائن کو پہنچتا ہو؟
پھر جو سرمایہ نفع آور کاموں میں لگایا جاتا ہے‘ وہ بھی لازماً زیادہ قیمت ہی پیدا نہیں کرتا کہ یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ نفع بخشی اس کی ذاتی صفت ہے۔ بسا اوقات کسی کام میں زیادہ سرمایہ لگا دینے سے نفع بڑھنے کے بجائے گھٹ جاتا ہے یہاں تک کہ الٹے نقصان کی نوبت آجاتی ہے۔ آج کل تجارتی دنیا پر تھوڑی تھوڑی مدت بعد جو بحرانی دورے (Crisis) پڑتے رہتے ہیں‘ ان کی وجہ یہی تو ہے کہ جب سرمایہ دار کاروبار میں بے تحاشا سرمایہ لگاتے چلے جاتے ہیں اور پیداوار بڑھنی شروع ہوتی ہے تو قیمتیں گرنے لگتی ہیں اور افزونی مال کے ساتھ ارزانی قدر رفتہ رفتہ اس حد تک کو پہنچ جاتی ہے کہ سرمایہ لگانے سے کسی نفع کی توقع باقی نہیں رہتی۔
مزید برآں سرمایہ میں جو نفع آوری کی اگر کوئی صفت ہے بھی تو اس کا قوت سے فعل میں آنا بہت سی دوسری چیزوں پر منحصر ہے۔ مثلاً اس کے استعمال کرنے والوں کی محنت‘ قابلیت‘ ذہانت اور تجربہ کاری۔ دوران استعمال میں معاشی‘ تمدنی اور سیاسی حالات کی سازگاری۔ آفاتِ زمانہ سے محفوظیت۔ یہ اور ایسے ہی دوسرے امور نفع بخشی کے لازمی شرائط ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو بسا اوقات سرمایہ کی ساری نفع بخشی ختم ہو جاتی ہے‘ بلکہ الٹی نقصان میں ہو جاتی ہے۔ مگر سودی کاروبار میں سرمایہ دینے والا نہ تو خود ان شرطوں کو پورا کرنے کی ذمہ داری لیتا ہے اور نہ یہی مانتاہے کہ اگر ان میں کسی شرط کے مفقود ہو جانے سے اس کا سرمایہ نفع آور نہ ہو سکا تو وہ کوئی سود لینے کا حق دار نہ ہوگا۔ وہ تو اس بات کا مدعی ہے کہ اس کے سرمایہ کا استعمال بجائے خود ایک متعین شرح کے ساتھ سود کا استحقاق پیدا کرتا ہے خواہ فی الواقع کوئی ’’نفع آوری‘‘ اس سے ظہور میں آئی ہو یا نہ آئی ہو۔
بدرجۂ آخر اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ سرمایہ کی ذات ہی میں نفع بخشی موجود ہے جس کی بنا پر سرمایہ دینے والا نفع میں سے حصہ پانے کا مستحق ہے‘ تب بھی آخر وہ کون سا حساب ہے جس سے تعین کے ساتھ یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ آج کل سرمایہ کی نفع بخشی لازماً اس قدر ہے لہٰذا جو لوگ سرمایہ لے کر استعمال کریں ان کو لازماً اس شرح کا تعین کسی حساب سے ممکن ہے تو ہم یہ سمجھنے سے تو بالکل ہی قاص ہیں کہ جس سرمایہ دار نے 1949ء میں کسی کاروباری ادارے کو دس سال کے لیے رائج الوقت شرح سود پر قرض دیا تھا اس کے پاس یہ معلوم کرنے کا آخر کیا ذریعہ تھا کہ آئندہ دس‘ بیس سال کے دوران میں سرمایہ کی نفع بخشی ضرور آج ہی کے معیار پر قائم رہے گی؟ خصوصاً جب کہ 59ء میں بازار کی شرح سود 49ء سے بالکل مختلف اور 69ء میں اس سے بھی زیادہ مختلف ہو جائے۔ تب کس دلیل سے اس شخص کو حق بجانب ٹھہرایا جائے گا جس نے ایک ادارے سے دس سال کے لیے دوسرے ادارے سے بیس سال کے لیے 49ء کی شرح کے مطابق سرمایہ کے متوقع منافع میں سے اپنا حصہ قطعی طور پر متعین کرا لیا تھا؟
توجیہ چہارم:
آخری توجیہ میں ذرا زیادہ ذہانت صرف کی گئی ہے‘ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
انسان فطرتاً حاضر کے فائدے‘ لطف‘ لذت اور آسودگی کو دور دراز مستقبل کے فوائد و لذائذ پر ترجیح دیتا ہے۔ مستقبل جتنا دور ہو اسی قدر اس کے فوائد و لذائذ مشتبہ ہوتے ہیں اور اسی مناسبت سے آدمی کی نگاہ میں ان کی قیمت کم ہو جاتی ہے۔ اس ترجیح عاجلہ اور مرجوحیتِ آجلہ کے متعدد وجوہ ہیں مثلاً
-1 مستقبل کا تاریکی میں ہونا اور زندگی کا غیر یقینی ہونا جس کی وجہ سے مستقبل کے فوائد مشتبہ بھی ہوتے ہیں اور ان کی کوئی تصویر بھی آدمی کی چسم تصور میں نہیں ہوتی۔ بخلاف اس کے آج جو نقد فائدہ حاصل ہورہا ہے وہ یقینی بھی ہے اور اس کو آدمی بچشم سر بھی دیکھ رہا ہے۔
-2 جو شخص اس وقت حاجت مند ہے اس کی حاجت کا اس سوقت پورا ہوجانا اس کے لیے اس سے بہت زیادہ قیمت رکھتا ہے کہ آئندہ کسی موقع پر اس کو وہ چیز ملے جس کا ممکن ہے کہ وہ اس وقت حاجت مند ہو اور ممکن ہے کہ نہ ہو۔
-3 جو مال اس وقت مل رہا ہے وہ بالفعل کارآمد اور قابل استعمال ہے‘ اس لحاظ سے وہ اس مال پر فوقیت رکھتا ہے جو آئندہ کسی وقت حاصل ہوگا۔
ان وجوہ سے حاضر کا نقد فائدہ مستقبل کے مشتبہ فائدے پر ترجیح رکھتاہے لہٰذا آج جو شخص ایک رقم قرض لے رہا ہے اس کی قیمت لازماً اس رقم سے زیادہ ہے جو وہ کل دائن کو ادا کرے گا اور سود وہ قدرِ زائد ہے جو ادائیگی کے وقت اصل کے ساتھ شامل ہو کر اس کی قیمت کو اس رقم کے برابر کرتی ہے جو قرض دیتے وقت دائن نے اس کو دی تھی مثال کے طور پر اس معاملے کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص ساہوکار کے پاس آتا ہے اور اس سے سو روپے قرض مانگتا ہے۔ ساہو کار اس سے یہ بات طے کرتا ہے کہ آج سو روپے وہ اس کو دے رہا ہے ان کے بدلے وہ ایک سال بعد اس سے 103 روپے لے گا۔ اس معاملے میں دراصل حاضر کے 100 روپوں کا تبادلہ مستقبل کے 103 روپوں سے ہو رہا ہے۔ تین روپے اس فرق کے برابر ہیں جو حاضر کے مال اور مستقبل کے مال کی نفسیاتی (نہ کہ معاشی) قیمت کے درمیان پایا جاتا ہے۔ جب تک یہ تین روپے ایک سال بعد کے 100 روپوں کے ساتھ شامل نہ ہوں گے ان کی قیمت ان سو روپوں کے برابر نہ ہوگی جو قرض دیتے وقت دائن نے مدیون کو دیے تھے۔
یہ توجیح جس ہوشیاری کے ساتھ کی گئی ہے اس کی داد نہ دینا ظلم ہے مگر درحقیقت اس میں حاضر اور مستقبل کی نفسیاتی قیمت کا جو فرق بیان کیا گیا ہے وہ ایک مغالطہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (جاری ہے)