اسلامی نظام اور اس کا نفاذ

689

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ انتخاب محدود ہو یا عام۔ تو عہد حاضر کا غالب رجحان عام انتخاب کی طرف ہے۔ ہم اس سلسلے میں اپنی ذاتی رائے دینے سے گریز اس لیے کررہے ہیں کہ اس بحث میں پڑ کر ہم اپنے موضوع سے بہت دور چلے جائیں گے۔ اس وقت ہمارے پیش نظر صرف ایک ہی مقصد ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس سوال پر غور کریں کہ اگر ایک اسلامی ریاست موجود ہو اور اس کی حکومت کو مسلمان عام طور پر جائز حکومت سمجھتے ہوں تو وہ اسلامی نظام کے نفاذ کے سلسلے میں جو کچھ کرسکتی ہے اسے کیسے کرے؟ یہ سوال عمل سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے ہم سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ عمل کس طرح وقوع پذیر ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے ایک سیدھی سی مثال فرد کے عمل کی ہے۔ فرد جب کوئی عمل کرتا ہے اور وہ شعوری عمل ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے عمل کی نیت یا ارادہ کرتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جس عمل کی وہ نیت کرے اُس کا مقصد اُس کے ذہن میں واضح ہو۔ تیسری بات یہ ہے کہ اُسے معلوم ہو کہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے اُسے کون سا کام پہلے کرنا ہے اور کون سا بعد میں۔ چوتھی بات یہ ہے کہ اس کے اعضا اور جوارح اس کے قابو میں ہوں اور وہ اُنہیں پوری طرح کام میں لاسکے۔ پانچویں بات یہ ہے کہ ماحول اگر اُس کے موافق ہو تو وہ اس سے پورا فائدہ اُٹھائے اور مخالف ہو تو اُسے تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔ دوسرے لفظوں میں کسی عمل کے لیے نیتِ مقصد، منصوبہ، کنٹرول اور ماحول پر دسترس وہ ضروری اجزاء ہیں جن کے بغیر کوئی عمل وجود میں نہیں آسکتا۔ حکومت کے لیے بھی کوئی عمل کرنے کے لیے یہ پانچوں اجزاء ضروری ہیں۔ اب ہم انہیں الگ الگ کرکے اشارتاً بیان کرتے ہیں۔
-1 اصولِ نیت:۔
حکومت جو کچھ کرنا چاہتی ہے پورے اخلاص سے اُس کی نیت رکھتی ہو۔
-2 یقینِ مقصد:۔
حکومت کو معلوم ہو کہ جس کام کی نیت وہ رکھتی ہے اُس کا مقصد کیا ہے۔
وہ یہ کام کیوں کرنا چاہتی ہے۔ اس سے کیا فوائد متوقع ہیں اور اس کے نہ ہونے سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے یا پہنچ رہا ہے۔
-3 منصوبہ:۔
حکومت کو معلوم ہو کہ اس کے مقصد کے حصول کا احسن طریقہ کیا ہے۔ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اُسے کون کون سے کام کرنے ہیں اور ان میں کس کام کو مقدّم رکھنا ہے اور کس کام کو مؤخر
-4 کنٹرول:۔
جس طرح فرد کے اعضا ہوتے ہیں مثلاً ہاتھ، پائوں، آنکھ، ناک وغیرہ۔ اسی طرح حکومت کے بھی اعضا ہوتے ہیں۔ مثلاً فوج، پولیس، انتظامیہ وغیرہ۔ حکومت جس عمل کو انجام دینا چاہتی ہے اُس کے لیے ضروری ہے کہ اُس کے اعضا درست اور اُس کے عمل میں اُس کے معاون ہوں۔
-5 ماحول:۔
ماحول میں مبادّی اور انسانی ماحول دونوں شامل ہیں اور حکومت کے لیے ضروری ہے کہ یا تو موافق ماحول سے فائدہ اُٹھائے یا مخالف ماحول کو تبدیل کرے۔
اب نیت ایک داخلی چیز ہے جس پر خدا کے علاوہ اور کوئی حکم نہیں لگا سکتا، اس لیے عامتہ الناس کے لیے نیت کی کسوٹی عمل پر ظاہر ہے۔ ہم کسی انسان کی نیت کا اندازہ اُس کے عمل سے کرتے ہیں اور اگر ہمیں اس کے عمل میں جوش اور جذبہ استقلال و استحکام، مقاومت و صدامت اور عملِ متضاد سے گریز کے عناصر نظر آتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ وہ انسان اپنی نیت میں صادق ہے۔ اسی لیے حکمرانوں کی نیت کا اندازہ بھی اُن کے عملِ ظاہر سے ہوتا ہے۔ اسلامی ریاست کے حکمرانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود اسلام پر عمل پیرا ہوں۔ اُن کے عمل میں استقامت ہو اور تضادات کا شکار نہ ہوں۔ دوسرے لفظوں میں تقویٰ کی شرائط پر پورے اُترتے ہوں اور عامتہ الناس کو اُن کے تقویٰ پر اعتبار ہو۔ یاد رکھیے کہ عمل ظاہر کی ہر کمزوری حکمرانوں کے اعتبار کو زائل کرتی ہے اور ان کی نیت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے جو انجامِ کار حصولِ مقصد کے سارے عمل کو مشکوک اور بے اثر بنادیتے ہیں۔ تعینِ مقصد کا اندازہ بھی عمل ظاہری سے ہوتا ہے۔ زکوٰۃ کی وصولی ایک عمل ہے۔ اگر یہ اسلامی مقصد کے تابع ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ شریعت کے مطابق زکوٰۃ کی شرطوں کو پورا کرتے ہوئے انجام دیا جائے، لیکن اگر حکومت اس طریقہ کار کو اختیار کرے جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ وہ زکوٰۃ کی شرائط کو چنداں اہمیت نہیں دیتی تو عامتہ الناس پر یہ اثر ہوگا کہ حکومت کا مقصد زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں ہے بلکہ وہ صرف عوام کے مال سے اپنے خزانے پُر کرنے کا مقصد رکھتی ہے۔ ایسے عمل سے مقاصد کے بارے میں شک و شبہ پیدا ہوتا ہے اور اس سے عامتہ الناس میں منفی اثرات پیدا ہوتے ہیں۔
نیت اور تعینِ مقصد کی طرح منصوبے کی دُرستی بھی حکومت کے لیے ضروری ہے اگر حکومت کے منصوبوں سے یہ اندازہ ہوتا ہو کہ وہ ہر اُس کام کو مؤخر کررہی ہے جس سے اس کا اپنا کوئی مفاد ٹکراتا ہو اور ہر اس کام کو مقدّم کررہی ہے جس سے اُسے کوئی فائدہ پہنچ رہا ہو یا صرف ان اقدامات پر اکتفا کررہی ہے جو اس کے لیے نہ فائدہ رساں نہ نقصان رساں، تو اس سے منصوبے کے اعتبار پر اثر پڑتا ہے۔ سُود کو برقرار رکھنا اور نظام زکوٰۃ کو قائم کرنا یعنی اپنی سہولت کے لیے سُود کے خاتمے کو مؤخر کردینا اور قانونِ تعزیرات کے نفاذ کو مقدم کردینا غلط منصوبہ بندی کی ایک مثال ہے، کیوں کہ اس سے عامتہ الناس کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ حکومت عوام کو تو اسلامی احکام کا پابند کرنا چاہتی ہے مگر خود ایسے احکام کو جو حکومت کی ذمہ داری ہے موخر کرنا چاہتی ہے یا اُن کی بجا آوری سے بچنا چاہتی ہے۔ ہم نے اسلامی نظام کے نفاذ کی چوتھی شق کنٹرول بتائی ہے۔ کنٹرول سے ہماری مراد جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں حکومت کے اعضا پر حکومت کا کنٹرول ہے۔ حکومت اپنی نیت، اپنا مقصد، اپنے منصوبے پر اس وقت تک عمل نہیں کرسکتی جب تک اس کے اعضا اُس سے تعاون نہ کریں۔ اگر وہ حکومت کے مجوزہ عمل سے ہمدردی نہ رکھتے ہوں یا اس سے تعاون کرنے پر آمادہ نہ ہوں یا کسی وجہ سے اس سے مخاصمت کا شکار ہوں تو حکومت کبھی اپنی نیت، مقصد اور منصوبے کی تکمیل میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کے اعضا کی دُرستی کا معیار یہ ہے کہ حکومت کے مقاصد کو بروئے کار لانے کے اہل ہوں۔ اگر حکومت کے اعضا کی مشینری حکومت کے مقصد کے تابع نہ ہو اور اسے حکومت کے مقاصد کے مطابق مناسب تربیت نہ دی گئی ہو اور اُن کا تقررّ ان بنیادی شرائط کے بغیر کیا گیا ہو جو حکومت کے مقاصد کے حصول کے لیے لازمی ہوں تو ایسی مشینری کبھی حکومت کے مقاصد کو پورا نہیں کرسکتی۔ اگر کسی اسلامی حکومت کی تمام مشینری غیر السامی نظام کی پیدا کردہ ہے تو اسلامی حکومت کا اس سے کام لینا اُسی طرح ناممکن ہے جس طرح کسی ایسے آدمی کا کام کرنا ناممکن ہے جس کے تمام اعضا اُس کے کنٹرول سے باہر ہوں۔ آخری اصول ماحول کی درستی ہے، اگر کوئی معاشرہ خود اسلامی نظام کے نفاذ کا خواہش مند ہے تو اسلامی حکومت کے لیے وہ معاون معاشرہ اسلامی معاشرہ ہے۔ اور اسلامی حکومت اپنے اخلاص کے اعتبار کے ذریعے اس کے تعاون کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرسکتی ہے اور اگر اس میں کچھ خرابیاں اور کمزوریاں موجود ہیں تو خود اس معاشرے کے تعاون سے انہیں دور کرنے کی تدابیر اختیار کرسکتی ہے۔ اور صلحائے قوم کے ذریعے اپنی تدابیر کو زیادہ سے زیادہ موثر بناسکتی ہے۔ بصورتِ دیگر اس کے پاس اتنی قوت ہونی چاہیے کہ وہ سرکش معاشرے کو مطیع اور فرماں بردار بناسکے۔ ہم نے کہا تھا کہ ماحول میں مادّی ماحول بھی شامل ہے۔ اس کی بحث ہم ابھی دوسرے عنوان کے تحت کریں گے۔
ہم کہہ چکے ہیں کہ عہد جدید میں حکومت تین کام کرسکتی ہے۔
(1) اسلامی قوانین کا نفاذ
(2) موجودہ ضروریات کے مطابق اسلامی اداروں کا قیام
(3) اسلامی فلاحی ریاست کی طرف پیش قدمی
ہم نے اب تک جو گفتگو کی ہے اس کا بنیادی مواد اسلامی قوانین کے نفاذ سے متعلق تھا۔ اب ہم اسلامی اداروں کے قیام پر بات کریں گے۔
ہمیں بنیادی طور پر تین طرح کے اداروں کی ضرورت ہے۔
(1) حکومتی ادارے
(2) معاشرتی ادارے
(3) تہذیبی ادارے۔
حکومتی اداروں سے ہماری مراد وہ تمام ادارے ہیں جو اسلامی حکومت کے مقاصد کے مطابق اُس کی قوتِ نافذہ کو بروئے کار لانے کے لیے ضروری ہیں۔ موجودہ دُنیا میں تین طرح کے ادارے موجود ہیں۔ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کے ادارے۔ ایک حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان تینوں اداروں کو اسلامی روح کے مطابق بنائے اور اگر چاہے تو اُن کی ساخت اور طریقہ کار میں ترمیم و اضافہ کرے۔ ضرورت پڑنے پر نئے اداروں کی تشکیل بھی کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر مجلس شوریٰ کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے اور قوم کے اہل اُلرائے افراد کے تعین اور اُن کے انتخاب کے لیے ذیلی ادارے بنائے جاسکتے ہیں۔ ہمیں معاشرتی اداروں کی ازحد ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر تبلیغی ادارے موجود ہیں، اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ ان کو اسلامی روح کے مطابق بنائے اور اسلام کے اصولِ تعلیم و تربیت کے مطابق اُن کی ازسرِنو تشکیل کرے۔ تبلیغی ادارے، اصلاحی ادارے، فلاحی ادارے جس حد تک موجود ہیں اسلامی حکومت کا کام ہے کہ اُن سے تعاون کرے۔ اُن کو اپنی سرپرستی میں لے اور انہیں زیادہ سے زیادہ فعال بنانے کی کوشش کرے۔ تہذیبی ادارے بھی اسلامی نظام کے قیام کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ مثلاً ایک ایسے ادارے کی ضرورت ہے جو اس بات کا تعین کرے کہ ایک اسلامی معاشرے میں کس قسم کے فنونِ لطیفہ کی ضرورت ہے اور پھر اس تعین کے بعد وہ ان کے فروغ کے لیے کام کرے۔ ہمارے زمانے میں ایک ایسے ادارے کی بھی ضرورت ہے جو اس امر کی دیکھ بھال کرے کہ ہمارے شعر و ادب بحیثیت مجموعی اسلامی روح کے مطابق ہیں یا نہیں۔ لیکن اس ادارے کو ملک کے مہذب ترین افراد پر مشتمل ہونا چاہیے جو اسلامی جمالیات کی روح سے بھی واقف ہوں اور شعر و ادب کے طریقہ کار کو بھی جانتے ہیں۔ آخر میں آئیے اسلامی فلاحی ریاست کی پیش قدمی کی طرف۔ ظاہر ہے کہ اسلامی فلاحی ریاست کا قیام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ریاست مجموعی طور پر خوش حال نہ ہو۔ خوش حالی کے لیے ضروری ہے کہ قوم کی انسانی محنت کو بروئے کار لا کر مادی ماحول میں تبدیلی پیدا کی جائے۔ مادّی وسائل کو انسانی محنت کے ذریعے پیداوار میں بدلنا اور اس پیداوار کی تقسیم اسلامی عدل و احسان کے مطابق کرنا اسلامی حکومت کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ پیداوار، ذرائع پیداوار اور تقسیم پیداوار کے نظام کو درست کرکے ہی ہم اسلامی ریاست کے مقاصد کو پورا کرسکتے ہیں۔

حصہ