برسر روزگار مائیںاور سماجی و ذہنی آسودگی

990

روایتی طور پر دنیا کے ہر معاشرے میں خاندانی ذمہ داریوں کی تقسیم میں معاشی کفالت کی ذمہ داری مرد کے کندھوں پر اور بچوں کی پرورش اور اندروں خانہ کاموں کی ذمہ داری عورتوں پر رہی ہے۔ مرد جو کام کرتا ہے اسے اس کا معاوضہ ملتا ہے اور عورت کا کام بغیر کسی معاوضے کے تصور کیا جاتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے عورت خود کو کمزور اور مظلوم محسوس کرتی یا پھر سرمایہ دارانہ نظام میں مزید افرادی قوت کے حصول کے لیے اس کو ایسا محسوس کروایا جاتا جو بھی وجہ ہو پچھلی چند دہائیوں میں معاشی سرگرمیوں میں عورتوں کا حصہ تیزی سے بڑھا ہے۔ ایک طرف معیار زندگی کو بلند کرنے اور خاندان کو زیادہ سے زیادہ آسائش مہیا کرنے کے لیے خواتین نے معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کندھے پر لیا تو دوسری طرف معاشی خود کفالت، اختیار اور طاقت کے حصول کی خواہش نے عورت کو معاشی سرگرمیوں کا حصہ بنادیا۔ تاہم خواتین کے ملازمت و روزگار میں شامل ہونے کی وجوہات میں بے شمار دوسرے عوامل بھی ہیں۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں ملازمت پیشہ یا یا برسر روزگار مائوں کی تعداد میں انتہائی تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ مائوں کی معاشی سرگرمیوں میں شمولیت لازماً خاندان کے ادارے پر اثر انداز ہوتی ہے اور خاندان کا روایتی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے۔ زیر نظر مضمون میں ہم نے صرف ان خاندانوں کا جائزہ لیا ہے جس میں شادی شدہ جوڑے میں دونوں برسرروزگار ہیں۔ایسے جوڑے جن میں شوہر اور بیوی دونوں برسرروزگار ہیں پر دنیا بھر میں تحسین کی جارہی ہے اور مختلف سروے اور تحقیق سے اس بات کی تصدیق ہورہی ہے کہ ایسے خاندانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
معاشی کفالت کے حوالے سے خاندانوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
-1 وہ خاندان جہاں جس کا کفیل مرد ہے۔
-2 وہ خاندان جہاں عورت کفیل ہے۔
-3 وہ خاندان جہاں معاشی ذمہ داری میں مرد و عورت کا حصہ برابر ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں شادی شدہ عورتوں کی ایک تہائی تعداد اپنے خاندان کی کفیل ہیں۔ جب کہ 1960ء میں یہ تعداد محض6 فی صد تھی۔ اسی طرح آسٹریلیا کے حوالے سے ایک رپورٹ کے مطابق 1960ء کی دہائی میں شادی شدہ عورتوں میں ملازمت کے رجحان کی شرح 30 فی صد سے بھی کم تھی جو کہ 2017ء میں 62 فی صد سے تجاوز کرچکی ہے۔ اسی طرح کی ایک تحقیق برطانوی خاندان کے حوالے سے کی گئی تو اس سے بھی یہ اندازہ ہوا ہے کہ ملازمت پیشہ یا برسرروزگار شادی شدہ خواتین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس حوالے سے کی گئی مزید تحقیق سے یہ بھی حقیقت سامنے آئی ہے کہ نہ صرف معاشی کفالت میں حصہ دار مائوں کی تعداد میں بھی اسی تیز رفتاری سے اضافہ ہورہا ہے جو کہ شوہر کی موجودگی میں خاندان کی کفالت کررہی ہیں یا اپنے شوہر سے مالی طور پر مستحکم ہیں۔ ٹرائل لندن کی تحقیق کے مطابق اپنے شوہر سے زیادہ آمدنی رکھنے والی خواتین کی شرح 2004ء میں 19.8 فی صد سے بڑھ کر 23.3 فی صد ہوگئی ہے جب کہ بیویوں سے زیادہ آمدنی رکھنے والے مردوں کی تعداد 2004ء میں 77.7 فی صد سے کم ہو کر 72.4 فی صد ہوگئی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف فیملی اسٹڈیز کے مطابق بھی شوہر سے زیادہ آمدنی رکھنے والی خواتین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ نظر آرہا ہے۔
اگرچہ کہ پاکستان یا اسلامی معاشروں کے حوالے سے ہمارے پاس واضح اعداد و شمار اور تحقیق موجود نہیں ہیں لیکن معاشرے کے بدلتے ہوئے انداز اور اداروں پر ایک سرسری سی نظر سے یہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آئی ہے کہ صورتِ حال یہاں بھی مختلف نہیں ہے۔ یہاں پر بھی بہ حیثیت مجموعی خواتین کی ملازمت اور روزگار کے رجحان میں اضافہ نظر آیا ہے۔ بالخصوص گزشتہ چند برسوں میں شادی شدہ خواتین یا مائوں کے مختلف روزگار اختیار کرنے کے رجحان میں واضح اضافہ نظر آیا ہے۔
حقوق نسواں، تحفظ نسواں اور لیبر مارکیٹ کے حوالے سے دیکھا جائے تو حقیقت اس طرح نظر آئی ہے کہ خواتین نے تعلیم کے بعد معاشی میدان بھی مار لیا ہے اور تنخواہوں اور معاشی استحکام کے حوالے سے خواتین نے مردوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ لیکن کیا حقیقت میں یہ اعداد و شمار ایک خوش حال آسودہ اور مطمئن معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ یوں بھی سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا اپنے شریک زندگی سے زیادہ آمدنی رکھنے والی عورت کیا خوش و خرم، آسودہ اور مطمئن عورت بھی ہوتی ہے؟


بظاہر یہ بات اچھی لگتی ہے کہ عورت معاشی طور پر اپنے شریک حیات سے زیادہ مستحکم ہے اور ایسی عورت کو حقیقت میں آسودہ عورت ہونا چاہیے لیکن سروے اور تحقیق اور معاشرے کا ایک جائزہ یہ بتاتا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ برسرروزگار جوڑوں کو خاندانی معاملات میں مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تحقیق کے مطابق اپنے شوہر سے زیادہ کمانے والی خواتین زیادہ ناآسودہ ہوتی ہیں بہ نسبت ان خواتین کے جو اپنے شوہر سے کم آمدنی کی حامل ہوتی ہیں۔دوسرے الفاظ میں زیادہ آمدنی کی سزا happinees penalty کی صورت میں ملتی ہے۔ اسی طرح سے خاندانی زندگی کی آسودگی بھی ان خواتین میں زیادہ ہوتی ہے جو اپنے شوہر سے کم آمدنی کی حامل ہیں جب کہ مردوں کی خوشی اور آسودگی کا تعلق ان کی آمدنی یا گھر کے کفیل ہونے سے نہیں ہے۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ فطری طور پر عورت معاشی طور پر مرد کو قوام تسلیم کرتی ہے اور اگر یہ فریضہ اس کے اوپر آجائے یا وہ اپنی خوشی اور رضا مندی سے یہ فریضہ انجام دے تب بھی اسے دلی اطمینان اور خوشی حاصل نہیں ہوتی ہے۔ عورت ملازمت کے مقام پر مرد سے برتری کو بہت خوشی سے قبول کرتی ہے لیکن خاندان کی سطح پر وہ فطری طور پر مرد کو حاکم اور برتر دیکھنا چاہتی ہے۔
اس کے علاوہ برسرروزگار میاں بیوی کے درمیان دوسرا اہم مسئلہ گھریلو کاموں اور ذمہ داریوں کی تقسیم کا ہے۔ اس حوالے سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اپنے شریک حیات سے زیادہ آمدنی رکھنے والی خواتین کے کندھوں پر گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ بھی زیادہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تاہم ایسے مردوں کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ نظر آرہا ہے جو گھر پر رہنا پسند کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 1989ء سے 2012ء تک Stay at home dads کی تعداد میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ اور اس میں حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس کا ذہنی دبائو مرد سے زیادہ عورت پر نظر آرہا ہے۔ اس حوالے سے کیے جانے والے سروے اور مشاہدات یہ بتاتے ہیں کہ مرد اور عورتیں کے روایتی کردار کو عورتیں زیادہ پسند کرتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں مذکورہ بالا صورت حال ابھی اس سطح پر تو نہیں ہے لیکن بالخصوص کورونا کے بعد مردوں کی ملازمتوں اور کاروبار کے متاثر ہونے کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ برسرروزگار مائوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا تا کہ کسی غیر یقینی صورت حال سے نبرد آزما ہوا جاسکے۔ اس صورت حال کے خاندان، خاندانی نظام اور بچوں پر کیا اثرات ہوسکتے ہیں۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ ہم چاہیں یا نہ چاہیں ہمارے معاشرے میں بھی خاندانی ذمہ داریوں کا روایتی ڈھانچہ تبدیل ہورہا ہے جو کہ لازماً معاشرتی و سماجی ڈھانچے پر اثر انداز ہوگا اور ایک بار پھر معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگا۔ معاشرتی ٹوٹ پھوٹ بے شمار جذباتی و نفسیاتی مسائل پیدا کرتی ہے۔ آنے والے چیلنجز کا اگر پہلے سے ادراک کرلیا جائے اور کوئی منصوبہ بندی کرلی جائے تو متوقع نقصان میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ دوسری صورت میں وہی ہوگا جو ہمارے معاشرے میں ہوتا آیا ہے کہ ہم وقت گزرنے کے بعد شام غم اور نوحے پڑھیں گے۔

حصہ