(دوسرا اور آخری حصہ)
’’میرے میزبان دوستو! ایک آخری بات غور سے سنیے!‘‘
وہ ایک لمحے کے لیے ڈرامائی انداز میں رک کر تمام ہال پر نظر ڈالنے لگے۔
’’میں چیلنج کرتا ہوں کہ ایسی کوئی کتاب ہو جو سامنے لائی جائے نہیں… یقینا کوئی نہیں…‘‘
سب نے تائید میں تالیاں بجانا شروع کردیں‘ ڈاکٹر اسحاق بھی سر ہلا کر اپنے دوست کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے کہ اچانک انہوں نے دیکھا ’’اے یہ حاشر اسٹیج پر کیوں چڑھ رہا ہے‘ ٹخنوں سے اونچی شلوار‘ سر پر ٹوپی‘ وہ پر اعتماد قدم بڑھاتا پروفیسر مائیکل تک پہنچ گیا اور ان سے مائیک لے کر کہا:
’’سوری سر! میں آپ کو چیلنج کر سکتا ہوں یقینا میرے پاس ایسی کتاب ہے جو تمام انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے‘ انسانی صحت کے ایک ایک اصولوں کو اجاگر کرتی ہے۔‘‘
حاشر نے بڑے سکون سے اپنی بات جاری رکھی جب کہ اسٹیج کے سامنے بیٹھے ڈاکٹر اسحاق کا چہرہ غصے سے تمتما رہا تگھا اور یاسر‘ ناصر بھائی کی آنکھوں میں شرمندگی نمایاں تھی۔
’’معزز سامعین! میرا نام محمد حاشر اسحاق ہے‘ میرے والد محمد اسحاق آرمی اسپتال کے مشہور سرجن ہیں‘ پروفیسر مائیکل میرے نزدیک بہت محترم ہیں کیوں کہ یہ میرے والد کے جگری دوست ہیں لہٰذا معذرت کے ساتھ انہوں خظد آفر کی تو میں یہاں پہنچ گیا کیوں کہ میں سمجھتا ہوں اگر سچائی کو اس کی اصل ضرورت کے وقت پیش نہ کیا جائے تو اس کے وجود کا اعتراف بے کار ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے جگمگاتذے چہرے کے ساتھ اپنے اپنے کاندھے پر رکھے چھوٹے بیگ سے پاکٹ سائز قرآن پاک کا نسخہ نکالا اور سب کے سامنے کر دیا۔
ہال میں موجود تمام افراد حیرت سے دنگ رہ گئے حاشر نے اپنی بات جاری رکھی۔
’’ہم اس کتاب کو مکمل نسخہ حیات مانتے ہیں اور جس طرح سے پروفیسر صاحب نے گائیڈ بک بھی ہمیں دی ہے تو جان لیجیے… قرآن کے ساتھ ہماری گائیڈ بک‘ سنت و حدیث کی کتابیں ہیں۔‘‘
حاشر کی آواز بہترین مقرر کی طرح ہال میں گونج رہی تھی اور سب کو گویا سانپ سونگھ گیا تھا وہ ایک ٹک اس چھوٹے حق گو کو دیکھ رہے تھے۔
’’سامعین! قرآن تو انسان کو بار بار کائنات پر توجہ دینے‘ اس میں غور و فکر کی ہدایات کرتا ہے‘ اس کے سامنے کتنی ہی اعلیٰ و ارفع جدید سائنسی مواد پر مبنی کتابیں آجائیں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں کیوں کہ یہ کتاب ہمارے لیے سرچشمہ شفا ہے اور آخر میں یہی کہوں گا مغرب کی چکاچوند سے ہم اس طور چندیائے ہوئے ہیں کہ ہماری نظروں کے ساتھ صرف عمارت ہے بنیادیں نہیں۔ جزاک اللہ… آپ نے مجھے اتنی دیر برداشت کیا۔‘‘
حاشر اسٹیج سے اترنے ہی والا تھا کہ پروفیسر مائیکل نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھام لیا۔ حاشر نے دیکھا ان کے چہرے پر دوستانہ مسکراہٹ تھی اور اب مائیک پر پروفیسر مائیکل کی آواز ابھری۔
’’صد شکر کے میرا چیلنج قبول کر لیا ایک چھوٹے بہادر‘ صاف گو بچے نے۔ میں اس سے پہلے چار ملکوں میں گیا لیکن کوئی میرے چیلنج کو جیت نہ سکا اور اس بچے نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں بتائوں‘ آج سے بیس سال پہلے میرے دوست ڈاکٹر اسحاق نے جب مجھ سے پہلے اسپتال چھوڑا تو اس کی الماری میں ایک قرآن پاک کا نسخہ رہ گیا تھا‘ وہ میں نے رکھ لیا‘ مطالعہ کا بے پناہ شوق رکھنے کے باعث میں نے اس کا مطالعہ شروع کردیا‘ جیسے جیسے مطالعہ کرتا گیا بہت سے راز کھلتے چلے گئے۔ میں اسلام سے متاثر ہوتا چلا گیا اور مجھے کسی بہترین وقت کا انتظار تھا‘ وہ وقت آگیا۔ حق کی تلاش میں سرگرداں میرا دل ایک ننھے بے باک لڑکے نے نور سے بھر دیا اور میں آپ کے سامنے اس کتاب کو اپنا سب کچھ ماننے کو تیار ہوں۔ میں چیلنج ہر گیا لیکن محمد حاشر نے آج مجھے ایسی جیت سے ہمکنار کردیا ہے جو یقینا نصیب والوں کو ہی ملتی ہے۔‘‘
پروفیسر مائیکل جوزف نے جذباتی انداز میں حاشری کو گلے لگا لیا۔
مبارک سلامت کے الفاظ سے ہال کا کونہ کونہ گونجاٹھا سب کے چہرے اسلام کے ایک فرد میں اضافے کی وجہ سے دمک رہے تھے اور ڈاکٹر محمد اسحاق محبت پاش نظروں سے اپنے بیٹے کو دیکھ رہے تھے جس کی صاف گوئی اور بے باکی نے ان کے جگری دوست کو ایمان کی راہ پر چلا دیا۔