اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام علامہ اقبال سیمینار و مشاعرہ

280

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر عبدالقادر سومرو علم دوست شخصیت ہیں‘ وہ شاعر بھی ہیں‘ انہوں نے اپنے زمانے میں اپنے دفتر میں مشاعروں اور ادبی پروگرام شروع کیے تھے جو کہ بڑی عمدگی سے جاری تھے لیکن نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر یہ سلسلہ رک گیا تھا۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے مفکر پاکستان علامہ اقبال کے تصوراتِ زندگی پر سیمینار و مشاعرہ کا اہتمام کیا جس میں پروفیسر سحر انصاری‘ صدر تھے جنہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ علامہ اقبال فقط ایک شاعر ہی نہ تھے بلکہ انہوں نے زندگی کے مسائل پر بھی اشعار کہے ہیں‘ ان کا تصوراتِ زندگی کا نظر ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ کیمبرج کی مجموعی علمی فضا پروفیسر آرنلڈ کی صحبت اور سید علی بلگرامی کی مجالس نے بھی آپ کے ذوق کو جلا بخشی علمی تحقیق و جستجو یہ ذوق ان کی فطرتِ ثانیہ اور تصوراتِ زندگی کا حصہ بن گیا۔ ترکِ موالات کا مسئلہ ہو دارالحرب کی بحث ہو‘ زمان و مکان یا مہدی موعود کا موضوع ہو یا اجتہاد اور اس سے متعلق فقہی مباحث آپ کے تصورات میں شامل تھے یہی وجہ ہے آپ سے علمی یا ادبی مسئلے سے متعلق کوئی سوال کرتا تو آپ فی الفور جواب دینا شروع کر دیتے اور یوں محسوس ہوتا کہ آپ کو پہلے سے ہی سوال کا علم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید منظر نے کہا کہ اقبال سراپا عاشق رسول تھے‘ یہی وجہ ہے کہ اقبال شاعر بھی تھے‘ مفکر بھی اور کلیم بھی۔ وہ ملت اسلامیہ کے ساتھ ساتھ انسانیت کے شاعر بھی تھے۔ اقبال جیسے اہل فکر ہی جانتے ہیں کہ عشق رسولؐ سے تصور زندگی سے اسلام کا شعور اجاگر کرتی ہے اور آپ کی شخصیت ملت کو سنہری مقام کے لیے کوشاں رہی آپ کا تصورِ زندگی نوجوانوں میں بیداری پیدا کرنا اوّلین ترجیح تھی اور برصغیر میں امن کی خاطر آپ نے مسلمانوں کے لیے الگ وطن حاصل کرنے کا تصورِ زندگی اہم نقطہ تھا۔ معروف صحافی کرن صدیقی نے کہا کہ اقبال کے مخصوص تصور عشق فلسفہ خودی اور بے خودی کی بنیاد بن گئے اور پھر اس سے احیائے ملت کے جذبے کو تقویت حاصل ہوئی‘ آپ کے تصورات کو ملک و ملت کو ایک نئی دنیا بلکہ ایک نئے نظامِ حیات سے آشنا کرنے کا عزم نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس دور میں شاعر اقبال فقط شاعر نہیں رہتا بلکہ پیغام بر بن جاتا ہے۔ روزنامہ اوصاف کے ایڈیٹر ابرار بختیار نے کہا کہ اقبال کے تصورات زندگی بڑھاپے تک ختم نہ ہوئے آخر تک ان کو فقط ایک حساس انسان کی فکر مندی اور مضطرب ذہن کا احساس جس میں وہ ایک عرصے سے مبتلا چلے آرہے تھے ملتِ اسلامیہ کے زوال و انحطاط پر وہ رنجیدہ و افسردہ رہتے تھے‘ آپ چاہتے تھے کہ نوجوان کو کسی مرکزی مقام پر جمع کرکے ان سے حفاظت کا کام لیا جائے‘ اس موقع پر قادر بخش سومرو نے کہا کہ اقبال کے تصور زندگی میں شاعرانہ اور فکری لحاظ سے اقبال کے اندر سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی کہ وطنیت کے سیاسی نصب العین کا تاریک پہلو ان پر واضح ہوگیا۔ پتا چلا کہ لادین سیاست کا نتیجہ قوموں کے درمیان باہمی نفرت و عداوت‘ زرپرستی اور خود غرضی کے سوا کچھ نہیں چنانچہ وہ وطنیت اور قوم پرستی کے نظریہ سے دست کش ہو کر ہمہ گیر آفاقی نظریہ کے قائل ہوگئے یہی ان کی تصور زندگی تھی۔ تقریب میں بڑی تعداد میں شعرا‘ ادبا نے شرکت کی اور آخر میں مشاعرہ ہوا جس میں پروفیسر سحرانصاری‘ ڈاکٹر جاوید منظر‘ اقبال سہوانی‘ کرن صدیقی‘ عرفان علی عابدی‘ محمد رفیق مغل‘ ہدایت سائر‘ سید مشرف علی‘ وحید محسن‘ عبدالستار رستمانی‘ جمیل سید‘ عامر‘ نرکھ نرگل اور افضال ہزاروی نے اپنا کلام سنایا۔

حصہ