’’افواہ! ایسی بھی کیا خبر ہے جس نے آپ کی چائے ٹھنڈی کروا دی۔‘‘
ثمینہ بیگم اپنا خالی کپ میز پر رکھتے ہوئے ڈاکٹر اسحاق سے مخاطب ہوئیں۔
’’ہوں…‘‘ کہتے ہوئے ڈاکٹر اسحاق نے ایک نگاہ ٹھنڈی چائے پر ڈالی اور پھر اخبار پر جھک گئے اب تو یاسر اور ناصر بھی حیران ہو رہے تھے کہ ڈیڈی تو اخبار کی صرف ہیڈنگ پڑھتے ہیں لیکن آج… اور توس پر مکھن لگاتے ہوئے 15 سالہ حاشر کے ذہن میں بھی یہی بات آرہی تھی کہ کوئی بہت زیادہ اہم خبر ہے جس کی وجہ سے ڈیڈی نے اپنی گرم چائے کو بھی اہمیت نہیں دی۔
’’ہاں تو ثمینہ بیگم آپ کیا کہہ رہی تھیں۔‘‘
کچھ لمحوں بعد انہوں نے اخبار لپیٹ کر ایک طرف رکھتے ہوئے کہا اور ٹھنڈی چائے کا کپ منہ سے لگا لیا۔
’’حیرت ہے آپ ٹھنڈی چائے پینا سخت ناپسند کرتے ہیں اور…‘‘
ثمینہ بیگم ابھی کچھ کہہ ہی رہی تھیں کہ ڈاکٹر اسحاق نے بات کاٹتے ہوئے اتنا ہی کہا کہ ’’اس خبر نے میرے اندر ایک ہلچل مچا دی ہے۔‘‘
’’پلیز دیڈی بتائیں نا کون سی خبر…؟‘‘ یاسر نے جھپٹ کر اخبار اٹھا لیا۔
’’پہلے تو تم بتائو پروفیسر مائیکل جوزف کو جانتے ہو؟‘‘
ڈیڈی کی بات نے ناصر کو چوناکا دیا۔
’’ارے ان کا تو کل ٹی وی پر انٹرویو آیا تھا‘ وہ تو جرمنی کے بہت بڑے سائنس دان ہیں اور وہ آج کل ہمارے ملک آئے ہوئے ہیں‘ اپنی کتاب کی رونمائی کے سلسلے میں انہوں نے سائنسی ایجادات کو انسانی صحت کے اصولوں پر پرکھ کر ایک جامع کتاب لکھی ہے۔‘‘
’’انہی کے بارے میں پوری تفصیل مع ان کی تصویر کے آئی ہے۔‘‘
ڈاکٹر اسحاق کے چہرے پر پراسرار مسکراہٹ تھی۔
’’ناصر بھائی! کیا وہ کتاب ہمیں مل سکتی ہے۔‘‘ حاشر کی آنکھوں میں چمک تھی۔
’’او بھائی ان کی تقریب کوئی عام لوگوں کے لیے نہیں‘ بڑے بڑے حکومتی عہدیدار اور سائنس دان بھی وہاں موجود ہوں گے‘ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔‘‘ یہ کہتے ہوئے یاسر بھائی نے قہقہہ لگایا۔
’اور اگر ہم اس تقریب کے مہمان خصوصی ہوئے تو…‘‘
ڈاکٹر اسحاق کی اس بات سے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے تمام افراد چونک گئے ’’ڈیڈی آپ مذاق تو نہیں کر رہے؟‘‘ ناصر نے جھجکتے ہوئے پوچھا کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ ڈیڈی فضول مذاق جس میں جھوٹ شامل ہو‘ کبھی نہیں کرتے تھے۔
’’اس میں مذآق کی کوئی بات نہیں۔ سنو! میں اخبار میں مائیکل جوزف کے بارے میں چھپی تفصیل پڑھ رہا تھا وہ لندن کے مشہور اسپتال 7 اسٹاف کے کمرہ نمبر 43 میں میرا روم میٹ رہ چکا ہے۔ طالب علمی کے 6 سال ہم نے بحیثیت جگری دوست ایک ساتھ گزارے۔‘‘
ڈیڈی کے انکشاف نے ان کو حیرت زدہ کر دیا۔ چہروں پر یقین و بے یقینی کی کیفیت نمایاں تھی۔
’’ڈیڈی کیا وہ آپ کو پہچان لیں گے؟‘‘
’’یقینا‘ ہماری دوستی مثالی تھی‘ اپنے اپنے ملک واپس ہونے کے بعد مصروفیت میں ہمارا رابطہ نہ ہونے کے برابر ہو گیا پھر گھر بدلنے کے بعد تو گویا ایک دوسرے کے لیے خواب بن گئے۔ ایک مرتبہ اس نے مجھے بھڑکتی ہوئی آگ سے بچایا تھا جو سائنس لیب میں لگ گئی تھی اور بچاتے ہوئے اس کے ہاتھ پر نمایاں داغ پڑ گیا تھا۔‘‘
ڈیڈی کی آنکھوں میں پانی بھر آیا اور وہ سب ان کی کہانی سن رہے تھے۔ ’’بیٹے ہمیں مون ہوٹل‘ جہاں وہ ٹھہرا ہے‘ فون کرکے کانٹیکٹ نمبر لینا چاہیے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ فون کی طرف بڑھ گئے۔
…٭…
آج ’’اسحاق کاٹیج‘‘ کے در و دیوار میں خوشیاں پھوٹ رہی تھیں‘ ڈاکٹر اسحاق اپنے دوست مائیکل سے مل کر ماضی کو یاد کرکے خوب خوش ہو رہے تھے‘ واپس جاتے ہوئے مائیکل جوزف نے انہیں اپنی تقریب کا کارڈ تھما دیا۔
’’اُف اب ہم بھی اس تقریب میں شریک ہو سکتے ہیں۔‘‘
حاشر تو خوشی سے جھوم ہی اٹھا‘ حاشر نویں جماعت میں زیر تعلیم ایک ذہین اور پوزیشن ہولڈر طالب علم تھا‘ بہترین کتابوں کا مطالعہ اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا‘ اس سے بڑے ناصر بھائی انٹر اور یاسر بھائی انجینئرنگ کے پہلے سال میں تھے۔ وہ تینوں بھی تقریب میں شریک ہونے کے لیے بے چین تھے۔
…٭…
وسیع و عریض ہال میں تقاریر کا سلسلہ جاری تھا۔ سب ہی پروفیسر جوزف کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ پھر آخر میں تالیوں کی گونج میں اونچے لمبے مائیکل جوزف مسکراتے ہوئے اسٹیج پر آئے۔ سامنے ہی وی آئی پی کرسیوں پر ڈاکٹر اسحاق اپنے بیٹوں کے ساتھ بیٹھے غور سے مائیکل جوزف کی تقریر سن رہے تھے۔
’’سائنس کی ترقی نے انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے‘ ہم سائنسی ایجادات کی افادیت سے انکار نہیں کر سکتے۔ یقینا ہال میں آنے سے پہلے آپ لوگوں کو میری کتاب ’’سائنس اور صحت‘‘ دے دی گئی ہے اور اس کے ساتھ چھوٹی سی گائیڈ بک بھی ہے آپ بغور اس کا مطالعہ کریں‘ آپ کا یہ وطن ترقی مانگتا ہے‘ میری یہ کتاب ایک رہنما کتاب ہے۔‘‘
مائیکل جوزف سائنس لینے کے لیے رکے تو ایک بار پھر لوگوںنے پرجوش تالیاں بجائیں۔
(جاری ہے)