قسط نمبر 6
-1 سلبی پہلو
اسلامی نظم معیشت اور اس کے ارکان کا جو مختصر خاکہ پچھلے باب میں پیش کیا گیا ہے اس میں چار چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں:
-1 آزاد معیشت چند حدود و قیود کے اندر۔
-2 زکوٰۃ کی فرضیت۔
-3 قانون میراث۔
-4 سود کی حرمت۔
ان میں پہلی چیز کو کم از کم اصولی طور پر وہ سب لوگ اب درست تسلیم کرنے لگے ہیں جن کے سامنے بے قید سرمایہ داری کی قباحتیں اور اشتراکیت و فاشیت کی شناعتیں بے نقاب ہو چکی ہیں۔ اس کی تفصیلات کے بارے میں کچھ الجھنیں ذہنوں میں ضرور پائی جاتی ہیں مگر ہمیں امید ہے کہ ہماری کتاب ’’اسلام اور جدید معاسی نظریات‘‘ اور ’‘مسئلہ ملکیت زمین‘‘ کا مطالعہ انہیں دور کرنے میں کافی مدد گار ثابت ہوگا۔
فرضیت زکوٰۃ کی اہمیت اب بڑی حد تک دنیا کے سامنے واضح ہوچکی ہے۔ کسی صاحبِ نظر سے یہ بات مخفی نہیں رہی ہے کہ اشتراکیت‘ فاشزم اور سرمایہ دارانہ جمہوریت تینوں نے اب تک سوشل انشورنس کا جو وسیع نظام سوچا ہے زکوٰۃ اس سے بہت زیادہ وسیع پیمانے پر اجتماعی انشورنس کا انتظام کرتی ہے۔ لیکن یہاں بھی کچھ الجھنیں زکوٰۃ کے تفصیلی احکام معلوم نہ ہونے کی وجہ سے پیش آتی ہیں اور لوگوں کے لیے یہ بات سمجھنی بھی مشکل ہو رہی ہے کہ ایک جدید ریاست کے مالیات میں زکوٰۃ و خمس کو کس طرح نصب کیا جاسکتا ہے۔ ان الجھنوں کو دور کرنے کے لیے ان شاء اللہ ایک مختصر رسالہ احکام زکوٰۃ پر مرتب کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
قانونِ میراث کے بارے میں اسلام نے تمام دنیا کے قوانینِ وراثت سے ہٹ کر جو مسلک اختیار کیا ہے‘ پہلے اس کی حکمتوں سے بہ کثرت لوگ ناواقف تھے اور طرح طرح کے اعتراضات اس پر کرتے تھے‘ لیکن اب بتدریج ساری دنیا اس کی طرف رجوع کرتی جارہی ہے حتیٰ کہ روسی اشتراکیت کو بھی اس کی خوشہ چینی کرنی پڑی ہے۔ مگر اس نقشے کے چوتھے جز کو سمجھنے میں موجودہ زمانے کے لوگوں کو سخت مشکل پیش آرہی ہے۔ سرمایہ دارانہ علم معیشت نے پچھلی صدیوں میں یہ تخیل بڑی گہری جڑوں کے ساتھ جما دیا ہے کہ سود کی حرمت محض ایک جذباتی چیز ہے اور یہ کہ بلا سود کسی شخص کو قرض دینا محض ایک اخلاقی رعایت ہے جس کا مطالبہ مذہب نے خوامخواہ اس قدر مبالغہ کے ساتھ کر دیا ہے ورنہ منطقی حیثیت سے وہ صرف ناقابل اعتراض ہی نہیں بلکہ عملاً مفید اور ضروری بھی ہے۔ اس غلط نظریہ اور اس کی اس پر زور تبلیغ کا اثر یہ ہے کہ جدید نظام سرمایہ داری کے تمام عیوب پر تو دنیا بھر کے ناقدین کی نگاہ پڑتی ہے مگر اس سب سے بڑے بنیادی عیب پر کسی کی نگاہ نہیں پڑتی حتیٰ کہ روس کی اشتراکی بھی اپنی مملکت میں سرمایہ داری نظام کی اس ام الخبائث کو برطانیہ اور امریکا ہی کی طرح پرورش کر رہے ہیں اور حد یہ ہے کہ خود مسلمان بھی‘ جن کو دنیا میں سود کا سب سے بڑا دشمن ہونا چاہیے‘ مغرب کے اس گمراہ کن پروپیگنڈا سے بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ ہمارے شکست خوردہ اہل مذہب میں یہ عام غلط فہمی پھیل گئی ہے کہ سود کوئی قابل اعتراض چیز اگر ہے بھی تو صرف اس صورت میں جب کہ وہ ان لوگوں سے وصول کیا جائے جو اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے کے لیے قرض لیتے ہیں‘ رہے وہ قرضے جو کاروبار میں لگانے کے لیے حاصل کیے گئے ہوں‘ تو ان پر سود کا لین دین سراسر جائز و معقول اور حلال و طیب ہے اور اس میں دین‘ اخلاق‘ عقل اور اصول علم معیشت کسی چیز کے اعتبار سے بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس پر مزید وہ خوش فہمیاں ہیں جن کی بنا پر قدیم طرز کے بنیوں اور ساہوکاروں کی سود خواری سے موجودہ زمانہ کے بینکنگ کو ایک مختلف چیز سمجھا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان بینکوں کا ’’ستھرا‘‘ کاروبار تو بالکل ایک پاکیزہ چیز ہے جس سے ہر قسم کا تعلق رکھا جا سکتا ہے۔ اسی بنا پر اب سود کی شرعی تعریف بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ قرآن میں جس سود کو حرام کیا گیا ہے اس کی تعریف میں یہ سود سرے سے آتا ہی نہیں۔ ان تمام مغالطوں کے چکر سے جو لوگ نکل گئے ہیں وہ بھی یہ سمجھنے میں مشکل محسوس کر رہے ہیں کہ سود کو قانوناً بند کر دینے کے بعد موجودہ زمانہ میں مالیات کا نظم کس طرح قائم ہو سکتا ہے۔ آئندہ صفحات میں انہی مسائل کو صاف کرنے کی کوشش کریں گے۔
سود کی عقلی توجیہات
سب سے پہلے جس بات کو طے ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ کیا فی الواقع سود ایک معول چیز ہے؟ کیا درحقیقت عقل کی رُو سے ایک شخص اپنے دیے ہوئے قرض پر سود کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے؟ اور کیا انصاف یہی چاہتا ہے کہ جو شخص کسی سے قرض لے وہ اس کو اصل کے علاوہ کچھ نہ کچھ سود بھی دے؟ یہ اس بحث کا اوّلین سوال ہے اور اس کے طے ہونے سے آدھی سے زیادہ بحث آپ سے آپ طے ہو جاتی ہے کیوں کہ اگر سود ایک معقول چیز ہے تو پھر تحریم سود کے مقدمے میں کوئی جان باقی نہیں رہتی اور اگر سود کو عقل و انصاف کی رو سے درست ثابت نہیں کیا جاسکتا تو پھر یہ امر غور طلب ہو جاتا ہے کہ انسانی معاشرے میں اس نامعقول چیز کو باقی رکھنے پر آخر کیوں اصرار کیا جائے؟
توجیہ اوّل
اس سوال کے جواب میں سب سے پہلے جس دلیل سے ہم کو سابقہ پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص کسی دوسرے شخص کو اپنا پس انداز کیا ہوا مال قرض دیتا ہے وہ خطرہ مول لیتا ہے‘ ایثار کرتا ہے‘ اپنی ضرورت روک رک دوسرے کی ضرورت پوری کرتا ہے‘ جس مال سے وہ خود فائدہ اٹھا سکتا تھا‘ اسے دوسرے کے حوالے کرتا ہے۔ قرض لینے والے نے اگر قرض اس لیے لیا ہے کہ اپنی کوئی ذاتی ضرورت اس سے پوری کرے تو اسے اس مال کا کرایہ ادا کرنا چاہیے جس طرح وہ مکان یا فرنیچر یا سواری کا کرایہ ادا کرتا ہے۔ یہ کرایہ اُس خطرے کا معاوضہ بھی ہوگا کہ دائن نے اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت خود استعمال کرنے کے بجائے اس کو استعمال کرنے کے لیے دے دی اور اگر مدیون نے یہ قرض کسی نفع آور کام میں لگانے کے لیے لیا ہے تو پھر دائن اس پر سود مانگنے کا بدرجہ اولیٰ مستحق ہے۔ جب مدیون اس کی دی ہوئی دولت سے فائدہ اٹھا رہا ہے تو آخر دائن اس فائدے میں سے کیوں نہ حصہ پائے؟
اس توجیہ کا یہ حصہ بالکل درست ہے کہ قرض دینے والا اپنا مال دوسرے کے حوالے کرنے میں خطرہ بھی مول لیتا ہے اور ایثار بھی کرتا ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ کیسے نکل آیا کہ وہ اس خطرے اور ایثار کی قیمت پانچ یا دس فی صدی سالانہ یا ششماہی یا ماہوار کے حساب سے وصول کرنے کا حق رکھتا ہے؟ خطرے کی بنیاد پر جو حقوق معقول طریقے سے اس کو پہنچتے ہیں وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہیں کہ وہ مدیون کی کوئی چیز رہن رکھ لے یا اس کسی کسی چیز کی کفالت دے یا اس سے کوئی ضامن طلب کرے یا پھر سرے سے خطرہ ہی مول نہ لے اور قرض دینے سے انکار کر دے۔ مگر خطرہ نہ تو کوئی مال تجارت ہے جس کی کوئی قیمت ہو اور نہ کوئی مکان یا فرنیچر یا سواری ہے کہ اس کا کوئی کرایہ ہو سکے۔ رہا ایثار تو وہ اسی وقت تک ایثار ہے جب تک کہ وہ کاروبار نہ ہو۔ آدمی کو ایثار کرنا ہو تو پھر ایثار ہی کرے اور اس اخلاقی فعل کے اخلاقی فوائد پر راضی رہے اور اگر وہ معاوضے کی بات کرتا ہے تو پھر ایثار کا ذکر نہ کرے بلکہ سیدھی طرح سودا گری کرے اور یہ بتائے کہ وہ قرض کے مقابلہ میں اصل رقم کے علاوہ مزید رقم ماہوار یا سالانہ کے حساب سے جو وصول کرتا ہے اس کا آخر وہ کس بنیاد پر مستحق ہے؟
کیا یہ ہرجانہ ہے؟ مگر جو رقم اس نے قرض دی ہے وہ اس کی ضرورت سے زائد تھی اور اسے وہ خود استعمال بھی نہیں کر رہا تھا اس لیے یہاں فی الواقع کوئی ’’ہرج‘‘ واقع ہی نہیں ہوا کہ اپنے دیے ہوئے اس قرض پر وہ کوئی ’’ہرجانہ‘‘ لینے کا مستحق ہو۔
کیا یہ کرایہ ہے؟ مگر کرایہ تو اُن چیزوں کا ہوا کرتا ہے جنہیں کرایہ دار کے لیے مہیا کرنے اور درست رکھنے پر آدمی اپنا وقت‘ محنت اور مال صرف کرتا ہے اورجو کرایہ دار کے استعمال سے خراب ہوتی ہیں‘ ٹوٹتی پھوٹتی ہیں اور اپنی قیمت کھوتی رہتی ہیں۔ یہ تعریف اشیائے استعمال مثلاً مکان‘ فرنیچر اور سواری وغیرہ پر تو صادق آتی ہے اور انہی کا کرایہ ایک معقول چیز ہے‘ لیکن اس تعریف کا اطلاق کسی طرح بھی نہ تو اشیائے صرف مثلاً گیہوں اور پھل وغیرہ پر ہوتا ہے اور نہ رویے پر ہوتا ہے جو محض اشیا اور خدمات خریدنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس لیے ان چیزوں کا کرایہ ایک بے معنی چیز ہے۔
زیادہ سے زیادہ ایک دائن جو کچھ کہہ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ میں دوسرے شخص کو اپنے مال سے فائدہ اٹھانے کا موقع دے رہا ہوں‘ لہٰذا مجھے اس فائدے میں سے حصہ ملنا چاہیے۔ یہ البتہ ایک معقول بات ہے مگر سوالیہ ہے کہ جس فاقہ کش آدمی نے اپنے بھوکے بال بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے تم سے 50 روپے عاریتاً حاصل کیے ہیں‘ کیا واقعی وہ تمہارے دیے ہوئے غلّے یا روپے سے ایسا ہی ’’فائدہ‘‘ اٹھا رہا ہے جس میں سے تم ایک چھٹانک فی سیریا 2 روپے فی صد ماہوار کے حساب سے اپنا حصہ پانے کے مستحق ہو؟ فائدہ تو بے شک اٹھا رہا ہے۔ اس استفادے کا موقع بلاشبہ تم نے ہی اسے دیا ہے‘ لیکن عقل‘ انصاف‘ معاشی علم‘ کاروباری اصول آخر کس چیز کی رُو سے اس فائدے اور اس موقع استفادہ کی یہ نوعیت قرار پاتی ہے کہ تم اس کی ایک مالی قیمت مختص کرو اور قرض مانگنے والے کی مصیبت جتنی زیادہ سخت ہو‘اتنی ہی قیمت بھی زیادہ ہو جائے اور اس کی مصیبت زدگی کا زمانہ جتنا دراز ہوتا جائے تمہارے دیے ہوئے اس ’’موقع استفادہ‘‘ کی قیمت بھی مہینوں اور برسوں کے حساب سے اس پر بڑھتی اور چڑھتی چلی جائے؟ تم اگر اتنا بڑا دل نہیں رکھتے کہ حاجت مند اور آفت رسیدہ انسان کو اپنی ضرورت سے زائد بچا ہو امال عطا کر دو‘ تو حد سے حد جو بات تمہارے لیے معقول ہوو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اپنی رقم کی واپسی کا اطمینان کرکے اسے قرض دے دو اور اگر تمہارے دل میں قرض دینے کی بھی گنجائش نہیں ہے تو بدرجہ آخر یہ بھی ایک معقول بات ہو سکتی ہے کہ تم سرے سے اس کو کچھ نہ دو مگرکاروبار اور تجارت کی یہ کون سی معقول صورت ہے کہ ایک شخص کی مصیبت اور تکلیف تمہارے لیے نفع اندوزی کا موقع ٹھہرے‘ بھوکے پیٹ اور جاں بہ لب مریض تمہارے لیے روپیہ لگانے (Investment) کی جگہ قرار پائیں اور انسانی مصائب جتنے بڑھیں اتنے ہی تمہارے نفع کے امکانات بھی بڑھتے چلے جائیں؟
’’فائدہ اٹھانے کا موقع دینا‘‘ اگر کسی صورت میں کوئی مالی قیمت رکھتا ہے تو وہ صرف وہ صورت ہے جب کہ روپیہ لینے والا اسے کسی کاروبار میں لا رہا ہو۔ اس صورت میں روپیہ دینے والا یہ کہنے کا حق رکھتا ہے کہ مجھے اُس فائدے میںسے حصہ ملنا چاہیے جو میرے روپے سے دوسرا شخص اٹھا رہا ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ سرمایہ بجائے خود کوئی منافع پیدا کرنے کی قابلیت نہیں رکھتا بلکہ منافع صرف اس صورت میں پیدا کرتا ہے جب انسانی محنت و ذہانت اس پر کام کرے‘ پھر انسانی محنت و ذہانت اس کے ساتھ لگتے ہی منافع پیدا کرنا نہیں شروع کردیتی بلکہ اس کے نفع آور ہونے میں ایک مدت درکار ہوتی ہے۔ مزید برآں اس کا نفع آور ہونا یقینی نہیں ہے‘ اس میں نقصان اور دیوالیہ کا بھی امکان ہے اور نفع آور ہونے کی صورت میں بھی یہ پیشگی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کس وقت کتنا نفع پیدا کرے گی۔ اب یہ بات کس طرح معقول ہو سکتی ہے کہ روپیہ دینے والے کا منافع اسی وقت سے شروع ہو جائے جب کہ انسانی محنت و ذہانت نے اس روپے کو ابھی ہاتھ ہی لگایا ہو؟ اور اس کے منافع کی شرح اور مقدار بھی متعین ہو‘ جب کہ سرمایہ کے ساتھ انسانی محنت کے ملنے سے نفع پیدا ہونا نہ تو یقینی ہے اور نہ یہ معلوم ہے کہ اس سے فی الواقع کتنا نفوس پیدا ہوگا؟
(جاری ہے)