اسلامی نظام اور اس کا نفاذ

707

قسط نمبر 3

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسلامی نظام یعنی اسلامی شریعت خلافتِ راشدہ تک نافذ رہی، لیکن جب خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوئی تو اسلامی نظام کا خاتمہ ہوگیا اور اس کی ایک مسخ شدہ شکل پیدا ہوگئی جو طرح طرح کے غیر اسلامی عناصر کا مجموعہ تھی، اس لیے یہ لوگ خلافتِ راشدہ کے بعد کی تاریخ کو اسلامی تاریخ کے بجائے مسلمانوں کی تاریخ سمجھتے ہیں جس کا اسلام سے برائے نام ہی تعلق رہ گیا تھا۔ ہمارے نزدیک یہ تصورّ کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔ خلافتِ راشدہ کے بعد حقیقی اسلام ہرگز ختم نہیں ہوا اور نہ اللہ کے فضل سے آج تک ختم ہوا ہے۔ دراصل خلافتِ راشدہ کے بعد جو کچھ ہوا وہ زندگی کے ایک شعبے کی خرابی تھی اور وہ خرابی یہ تھی کہ زمامِ حکومت ملّت کے صالح ترین افراد کے بجائے ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آگئی جو ملّت کے معیارِ تقویٰ پر پورے اُترتے تھے نہ معیارِ انتخاب پر، یہ خرابی بالکل ایسی تھی جیسے کسی مکان کی چھت خراب ہوجائے۔ چھت خراب ہوگئی تھی، لیکن پورا مکان اپنی بنیادوں پر قائم تھا یا دوسرے لفظوں میں سر پر چوٹ لگی تھی مگر پورا جسدِ ملّت صحیح و سالم تھا۔ اسی لیے صلحائے اُمّت ایک طرف یہ کوشش کرتے رہے کہ ملوکیت کو دوبارہ خلافت کی طرف لایا جائے اور دوسری طرف زندگی کے دوسرے شعبوں کو خرابی سے محفوظ رکھنے کی تدابیر کی جاتی ہیں۔ اس کام میں محدّثین، مفسّرین، متکّلین، فقہاء، علماء اور صوفیا سب نے اپنے اپنے طور پر اپنی اپنی حدود میں حصہ لیا۔ اور یہ اُن ہی کی مساعیِ جمیلہ کا نتیجہ تھا کہ چودہ سو برس گزرنے کے باوجود اسلام نہ صرف باقی رہا بلکہ دیگر مذاہب کے مقابلے میں اب بھی سب سے زیادہ فعال ہے۔ چنانچہ ہم حکومت کے شعبے کو چھوڑ کر پوری ملّتِ اسلامیہ کے بارے میں حکم نہیں لگا سکتے کہ اس کی فکر یا عمل اسلام کے منافی تھا۔ ہمارا پکا عقیدہ ہے کہ اسلام ہر دور میں اپنی اصلی شکل میں موجود رہا ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ ہماری پوری روایات اب بھی جوں کی توں محفوظ ہے۔ اصل میں ترقی یا انحطاط کا یہ تصور کہ وہ زندگی کے ہر شعبے میں بیک وقت رونما ہوتی ہے دُرست نہیں ہے۔ تاریخ کے عمل میں یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچی ہوئی ہے کہ ایک شعبے میں انحطاط ہو تو دوسرے شعبے میں ترقی کے آثار پیدا ہوجاتے ہیں اور اس طرح کسی پورے دور میں لازمی نہیں ہے کہ ایک شعبے کا انحطاط پوری زندگی کا انحطاط بن جائے یا ایک شعبے کی ترقی پوری زندگی کی ترقی ثابت ہو۔ اسلامی تاریخ بھی خلافتِ راشدہ کے بعد اسی قسم کی جزوی ترقی اور جزوی انحطاط کی کئی منزلوں سے گزری ہے۔ اس مقالے میں ہمارے لیے ممکن نہیں ہے کہ ہم اس کی تفصیلات میں جاسکیں، لیکن کیا یہ ظاہر نہیں ہے کہ خلافت کے ملوکیت میں تبدیل ہوجانے کے باوجود تابعین اور تبع تابعین کا دور کُل کا کُل انحطاط پذیر نہیں تھا اور خلافتِ عباسیہ کے دور میں انحطاط کی رفتار اور رقبے میں توسیع کے باوجود کئی شعبوں میں انتہائی ترقی کا دور تھا جیسا کہ حضرت ابوحنیفہ اور اُن کے رفقاء کے کارناموں سے ظاہر ہے۔ برصغیر میں اورنگ زیب کی وفات کے بعد مسلم اقتدار کا زوال شروع ہوگیا مگر کیا اسی دور میں شاہ ولی اللہ نے اسلام کی نشاۃ الثانیہ کی بنیاد نہیں رکھ دی۔ بہرحال اس مختصر سی گفتگو سے ہمارا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا تھا کہ عہدِ جدید سے پہلے مسلمان جن مسائل سے دوچار تھے وہ حکومت کی اصلاح اور عوام میں بعض غلط رجحانات کی پیدائش کی روک تھام تھی ورنہ معاشرے کا عام مزاج مذہب کے عین مطابق تھا۔ لوگوں کا اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان تھا۔ عقائد درست تھے، اخلاقیات میں اتنا انحطاط رونما نہیں ہوا تھا۔ سب سے زیادہ یہ کہ ہم اس وقت کسی ایسی چیز سے متصادم نہیں تھے جو اپنی اصل اور بنیاد میں مذہب کے بالکل برعکس ہو۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ خلافتِ راشدہ سے انیسویں صدی عیسوی تک اپنی بعض خرابیوں کے باوجود اسلامی معاشرہ جُوں کا تُوں تھا۔ صرف حکومت اسلامی نہیں رہی تھی۔ عہد حاضر میں یہ صورتِ حال بدل گئی ہے۔ عہد جدید میں ہم جس چیز سے دوچار ہیں وہ تاریخ انسانی میں ایک بالکل نئی چیز ہے اور ماضی کے سارے تجربات سے بالکل مختلف ہے۔ دراصل عہد جدید میں اسلامی نظام کو جو چیلنج درپیش ہے وہ اسی چیز سے تصادم کا ہے اور ہم جب تک اس تصادم کی نوعیت نہیں سمجھ لیں گے ہم سے اپنے کسی مسئلے کی تفہیم نہیں ہوسکے گی۔ ہمارا اشارہ مغربی تہذیب کی طرف ہے یہ تہذیب ہمیں اندر سے اور باہر سے اس طرح بدل رہی ہے کہ اس سے بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ بہت دنوں تک مسلمان اس تہذیب کے چیلنج کو نہیں سمجھ سکے۔ ان کے نزدیک مغربی اقوام کا عالم اسلام پر غلبہ عیسائیوں کی فتح تھی۔ وہ اس بات سے ناواقف تھے کہ جس چیز کو وہ عیسائیوں کی فتح سمجھ رہے ہیں وہ دوسرے مذاہب کی طرح خود مسیحت کی بھی بدترین دشمن ہے۔ مسلمانوں کو طاقت کے آگے شکست کھانے کا تجربہ تاتاریوں سے بھی ہوا تھا، لیکن تاتاریوں کا مسئلہ کوئی تہذیبی مسئلہ نہیں تھا، اُن کی فتح صرف اُن کی تعداد اور جنگی قوت کا نتیجہ تھی وہ ذہنی طور پر مسلمان سے پست تھے اور اسی لیے بہت جلد دوسرے تہذیبی عناصر سے مغلوب ہوگئے۔ خود مسلمانوں نے اُن کی ایک شاخ کو جذب کرلیا اور ’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘ لیکن مغربی تہذیب کی غلامی کی زنجیریں سخت سے سخت تر ہوتی جارہی ہیں، ایسا کیوں ہے؟ دراصل یہی وہ بات ہے جسے ہمیں سمجھنا ہے۔
مغربی تہذیب کا چیلنج کیا ہے؟ اس کا اندازہ ایک سوال سے کیجیے۔ اگر اورنگ زیب کی وفات کے بعد برصغیر پر سکھوں یا مرہٹوں کا غلبہ ہوجاتا اور مسلمان اُن کے غلام ہوجاتے تو کیا ہم انہی مسائل سے دوچار ہوجاتے جن سے انگریزوں کی فتح کے بعد ہوئے۔ یقینا اس کا جواب نفی میں ہے، کیونکہ سکھوں اور مرہٹوں کی فتح اُن کی جنگی قوت ہوتی، تہذیبی قوت کا نتیجہ نہ ہوتی۔ انگریزوں کی فتح کے بعد ہم جن مسائل سے دوچار ہوئے ہیں وہ اُن کی تہذیبی قوت کا بھی نتیجہ ہے۔ یہ تہذیب اپنی رُوح میں ایک ایسی چیز ہے جو صرف اپنے لمسِ گریزاں ہی سے ہر اُس چیز کو فنا کر ڈالتی ہے جو اس سے مختلف ہے۔ برصغیر میں بہت سی قومیں عرصہ دراز سے مل جل کر رہ رہی تھیں اور اُن میں آپس میں تہذیبی لین دین بھی تھا، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ ایک تہذیب اپنے اثر سے دوسری کو مٹانے یا یکسر تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجائے، لیکن مغربی تہذیب جہاں جاتی ہے اس کا عمل مقامی تہذیبوں پر تباہ کن ہوتا ہے۔ مغربی تہذیب سے ہماری تہذیب میں جو تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ مذہب ہمارا سب سے مضبوط قلعہ تھا۔ اس کی فصیلوں میں جو شگاف پڑے ہیں اس کا مختصر سا بیان پہلے کیا جاچکا ہے۔ مذہب کی وہ ساری تفسیریں جن میں ہمارے نزدیک مذہب کی حقیقی رُوح کو مسخ کرنے کا عمل کیا گیا ہے اسی مغربی تہذیب کے اثر سے وجود میں آئی ہیں۔ مذہب کے بعد ہمارا دوسرا مضبوط حصار خاندانی زندگی تھی، مغربی تہذیب کے اثر سے وہ بھی درہم برہم ہوچکی ہے اور جوں جوں مغربی تہذیب کے اثرات پھیلتے جارہے ہیں اس کی بنیاد اور زیادہ کمزور ہوتی جارہی ہے۔ لباس، زبان، معاشرتی اوضاع، رہن سہن کے طریقے، کھانے پینے کے آداب سب مغربی تہذیب کے اثرات سے بدل رہے ہیں اور ’’معاشرے اندر معاشرے‘‘ کی کیفیت پیدا ہورہی ہے۔ اب جب اسلامی نظام کے قیام پر سنجیدگی سے بات ہوتی ہے تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آغاز کہاں سے کیا جائے اور کیسے کیا جائے۔ سُود کو ختم کرنا ہو تو سوال پیدا ہوتا ہے بینکنگ کا کیا ہوگا۔ اسلامی شورائی نظام قائم کرنے کا مسئلہ ہو تو فکر ہوتی ہے جمہوریت کہاں جائے گی۔ اسلامی نظام تعلیم کا مسئلہ ہو تو پوچھا جاتا ہے کہ سائنسی علوم کا کیا بنے گا؟ معاشرت کو درست کرنے کا خیال آئے تو مسئلہ پیدا ہوتا ہے عورتوں اور نوجوان نسل کی آزادی کیسے ختم کی جاسکتی ہے۔ یہاں تک کہ معمولی درجے کی تفریحات اور اس کلچر کے اثرات کو دور کرنے کی بات چھیڑی جائے تو غلغلہ اُٹھتا ہے، ریڈیو، ٹی وی، فلم اور فوٹو گرافی کو کیسے بند کیا جائے۔ ہمارے معاشرے میں مغرب جس حد تک آگیا ہے وہ سب کا سب اسلامی نظام سے متصادم ہے اور کسی نہ کسی طرح اس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ہر مسلمان اپنے دل میں اسے اچھی طرح جانتا ہے اور دل میں یہ چور رکھتا ہے کہ اسے ختم کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ میں اسلامی نظام کے داعیوں کو جو صورتیں بھی پیش آئی ہوں یہ صورت حال ان سب سے مختلف ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز، حضرت امام احمد بن حنبل، علامہ ابن تیمیہ، مجدّد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ، کسی کے سامنے یہ مسائل اس طرح موجود نہیں تھے یہ بالکل نئے مسائل ہیں اور ایک بالکل نئی صورت حال ہے جس کا مقابلہ اسلامی تاریخ کے کسی دور سے نہیں کیا جاسکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس صورت میں اسلامی حکومت کیا کرسکتی ہے اور اسے کیا کرنا چاہیے؟
کچھ لوگوں کے نزدیک اس سوال کا جواب صرف ایک ہے۔ اسلامی حکومت، اگر وہ مخلص ہے تو چند شرطوں کو پورا کرنے کے بعد ایک ایسے معاشرے میں اسلامی نظام نافذ کرسکتی ہے جو اسلام پر یقین رکھتا ہو، اُس کی شریعت پر عمل کرنے کے لیے تیار ہو اور اُس کے اندر کوئی ایسی قوت کام نہ کر رہی ہو جو اسلام سے متصادم ہو۔ ہمارے معاشرے میں چوں کہ مغربی تہذیب فعال حالت میں موجود ہے اور مذہب سے براہِ راست متصادم ہے، اس لیے اس تہذیب کے ہوتے ہوئے پورے معنوں میں اسلامی نظام نافذ کرنا ناممکن ہے۔ اس جواب کو پیش نظر رکھ کر کچھ لوگ تجویز پیش کرتے ہیں کہ ہمیں مغرب کی سائنس اور ٹیکنالوجی کو چھوڑ کر اس کے تمام اثڑات کو معاشرے سے نکال باہر کرنا چاہیے۔ اس رائے کی ایک ترمیم شدہ شکل یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے علاوہ بعض مسائل مثلاً بینکنگ اور انشورنس وغیرہ کے سلسلے میں اجتہاد سے کام لینا چاہیے۔ خلاصہ ان دونوں تجاویز کا یہ ہے کہ گھر میں دشمن کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہوئے گھر کے نظام کو زیادہ سے زیادہ اپنی مرضی کے مطابق بنایا جائے، لیکن ان تجویزوں پر بعض لوگوں کو بنیادی اعتراض ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی ہی تو ہے جو مذہب کی روح کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ دوسری چیزیں تو سب ثانوی درجے میں آتی ہیں پھر سانپ کو پالنے اور سنپولیوں کو مارنے سے کیا فائدہ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس اعتراض کا جواب کیا ہے، لیکن اعتراضات سے سوچنے کی تحریک بہرحال ہوتی ہے، اس لیے سوچنے والے اس پر سوچیں تو اس سے فائدہ ہی پہنچے گا، نقصان نہیں پہنچے گا۔
ہمارے نزدیک کوئی بھی اسلامی حکومت تین کام نہیں کرسکتی، اور تین کام ہیں جو وہ کرسکتی ہے۔ جو تین کام وہ نہیں کرسکتی وہ یہ ہیں:۔
(1) سائنس اور ٹیکنالوجی کا اخراج کرنا۔
(2) معاشیات کے جدید تقاضوں کو نظر انداز کردینا۔
(3) مغرب سے جو مختلف قسم کے ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی رجحانات پھیلتے ہیں اُن کی روک تھام کرنا۔
جو تین کام وہ کرسکتی ہے وہ یہ ہیں:۔
(1) اسلامی قانون مثلاً قانونِ تعزیرات، قانونِ وراثت اور قانونِ زکوٰۃ کا نفاذ۔
(2) اسلامی روح کے مطابق نئے سیاسی، معاشی اور معاشرتی اداروں کا قیام۔
(3) اسلام کے تصورِ عدل و احسان کے مطابق ایک اسلامی فلاحی ریاست کی تشکیل کی طرف پیش قدمی۔
ان کے علاوہ زندگی کے دیگر شعبوں کی اصلاح و درستی، ریاست کے دائرہ اختیار اور دائرہ کار سے باہر ہے۔ ان میں ریاست صرف یہ کرسکتی ہے کہ قوم اگر خود ان میں اصلاح پر آمادہ ہو تو اس کی حوصلہ افزائی کرے۔ ہمارے نزدیک کوئی اسلامی ریاست، اگر موجودہ حالت میں یہ تین کام بھی کرسکے تو یہ اُس کی قابلِ تعریف کارکردگی ہوگی۔ دورِ فتن میں اس سے زیادہ کی توقع رکھنا ایک فعلِ عبث ہے۔
ہم نے اب تک اسلامی ریاست کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ ریاست کو اُس کے ایک جزو یعنی حکومت سے علیحدہ کریں۔ ریاست کے اجزائے ترکیبی یہ ہیں:۔
(1) ملک یا جغرافیائی رقبہ (2) آبادی (3) قانون (4) قوتِ نافذہ
ریاست کے لیے یہ چاروں اجزاء ضروری ہیں جب کہ حکومت صرف قوتِ نافذہ کو کہتے ہیں۔ یہ قوتِ نافذہ تین طرح بروئے کار آتی ہے۔ یا تو اس کا سرچشمہ تلوار کی قوت ہے یا وہ ورثتاً حاصل کی جاتی ہے یا رائے عامہ کے انتخاب سے وجود میں آتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں یہ قوت نافذہ تینوں طرح بروئے کار آئی ہے۔ اور ہر دور میں اس کے مختلف نمونے ملتے ہیں۔ لیکن اکثر لوگوں کے نزدیک یہ اسلامی حکومتوں کے نمونے نہیں ہیں صرف ملسمانوں کی حکومت کے نمونے ہیں۔ اسلامی حکومت کا نمونہ صرف خلافت راشدہ ہے۔ اب پہلے خلیفہ راشد کا اقتدار انتخاب کا نتیجہ تھا، دوسرے کا نامزدگی، تیسرے کا انتخاب ایک بورڈ نے کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس بورڈ نے اپنے طور پر مسلمانوں کی مرضی معلوم کرنے کی بھی کوشش کی۔ چوتھے کی خلافت پوری طرح نافذ ہی نہیں ہوئی اور ایسے حالات پیدا ہوئے کہ عام مسلمان تو درکنار بڑے بڑے اصحاب رسولؐ بھی آپس میں متفق اور متحد نہیں ہوسکے۔ بعد میں جس دور کو ہم ملوکیت کہتے ہیں اس کی ابتدا بھی نامزدگی سے ہوئی اور دلیل پہلے خلیفہ کے عمل سے لائی گئی اور بیعت لینے کا عمل بھی کم از کم ظاہری شکل میں قائم رہا۔ بہرحال اس سلسلے میں ہمیں جو کچھ کہنا ہے وہ ہم تفصیل سے کسی اور جگہ کہیں گے۔ یہاں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ عہد حاضر کے عام رجحان کے مطابق اسلامی حکومت انتخاب کے ذریعہ وجود میں آتی ہے اور ان معنوں میں ایک طرح کی جمہوری حکومت ہوتی ہے جس میں ملوکیت موروثیت اور فوجی آمریت کسی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس لیے اسلامی حکومت کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ انتخاب کے ذریعے وجود میں آئی ہو۔

حصہ