’’اشتیاق بھائی، ہمارے ملک کے حکمرانوں اور سیاسی رہنمائوں کو کیا ہوگیا ہے! جب بھی انتخابات آتے ہیں لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات میں کی جانے والی تقریروں کو ہی دیکھ لیں، وزیراعظم پاکستان عمران خان ہوں یا بلاول بھٹو زرداری… وہاں کے مکینوں کو صوبہ بنانے کی نوید سنا رہے ہیں۔ کیا صوبہ بنانا اتنا آسان ہے؟ کیا واقعی گلگت بلتستان جیسے حساس علاقے کو صوبہ بنایا جا سکتا ہے؟‘‘
’’طارق میاں یہ کوئی نئی بات نہیں، خان صاحب کے وعدے اور دعوے تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ گزشتہ عام انتخابات سے قبل بھی انہوں نے سرائیکی علاقوں میں بسنے والوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ ان کی حکومت بنتے ہی پہلے سو دن کے اندر اندر جنوبی پنجاب صوبہ بنادیا جائے گا، میں نے اْس وقت ہی کہا تھا کہ یہ انتخابی نعرہ ہے، اس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ خان صاحب گلگت بلتستان صوبے کا نعرہ لگانے سے پہلے سرائیکی عوام کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات کا جواب تو دے دیتے، یا کم از کم گلگت بلتستان کے عوام کو صوبے کی امید دلانے سے پہلے خود ہی سوچ لیا ہوتا کہ کیا جنوبی پنجاب صوبہ بن گیا؟ وہاں رہنے والوں کو حقوق مل گئے؟ ان کی محرومیاں دور ہوگئیں؟ انہیں شناخت مل گئی؟ اور تو اور تختِ لاہور سے جان چھوٹ گئی؟ اگر سوچ لیتے تو انہیں حقیقت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا کہ یہ کام اتنا آسان نہیں، کیونکہ عوام تو جانتے ہیں کہ جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے، ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ جب دو سال سے زائد عرصے میں بھی سرائیکی صوبہ نہ بن سکا تو اب جبکہ موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کی حکومت پر جو وقت گزر رہا ہے یعنی حکمران جس سیاسی دبائو کا شکار ہیں ایسے میں اس قسم کے اعلانات سبز باغ دکھانا نہیں تو اور کیا ہے! ہمارے حکمران جو کچھ بھی کہیں، لوگ اب سمجھنے لگے ہیں، وہ اتنے انجان اور ناسمجھ نہیں۔ عوام سارے سیاسی چکر کو اچھی طرح جان چکے ہیں، بلکہ وہ تو کل بھی جانتے تھے کہ سرداروں، مخدوموں اور مزاریوں کے ہوتے ہوئے صوبہ تو درکنار، ایک تحصیل بھی نہیں بن سکتی۔ عوام کو یاد ہے کہ اْس وقت خان صاحب کو اقتدار میں لانے کے لیے سرائیکی صوبے کا منجن بیچا گیا تھا جس کی بھرپور تائید خان صاحب نے بھی کی تھی، ورنہ سرائیکی علاقوں میں بسنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ الیکٹ ایبلز کو انتخابات جیتنے کے لیے کسی نعرے کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی سبز باغ دکھانے کی۔ وہ تو ہمیشہ حاکم ہوتے ہیں جو غریبوں اور مظلوموں پر حکومت کیا کرتے ہیں، بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ وہاں رہنے والوں کو صوبے کی کوئی تمنا نہیں، اور نہ ہی یہ ان کا نعرہ ہے۔ کیونکہ اگر یہ نعرہ واقعی سرائیکی عوام کا ہوتا، یا اتنا کارآمد ہوتا تو تاج محمد لنگاہ سرائیکی صوبے کے حصول کی جدوجہد کرنے کے باوجود کبھی بھی اتنی نشستیں نہ جیت سکے جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ یہی وہ نعرہ ہے جو جنوبی پنجاب کی محرومیوں کو ختم کرسکتا ہے۔ ماضی گواہ ہے کہ تاج محمد لنگاہ کے الگ صوبے کے حصول کا نعرہ لگانے کے باوجود اْن کے مقابلے میں ہمیشہ مخدوموں، مزاریوں، لغاریوں اور سرداروں نے ہی کامیابی حاصل کی۔ اگر صوبے کا نعرہ ہی وہاں کے مکینوں کے دل کی آواز ہوتا تو تاج محمد لنگاہ کی جانب سے کی جانے والی سیاست کے مقابلے میں آج وڈیروں،سرداروں، مزاریوں اور لغاریوں کی سیاست زمین ہوچکی ہوتی۔ یہی سچ ہے اور یہی حقائق بھی۔ اگر خان صاحب گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دلوانے کے لیے اتنے ہی مخلص ہیں تو پہلے سرائیکی صوبہ بنادیتے تاکہ اُن کے پاس گلگت بلتستان کے عوام کو دکھانے کے لیے کچھ تو ہوتا۔ مجھے امید ہے کہ ماضی کے حقائق سن کر خان صاحب کی جانب سے کیے جانے والے اعلانات کی حقیقت تم پر عیاں ہوگئی ہوگی۔ جہاں تک بلاول بھٹو زرداری کے بیان کا تعلق ہے، یا اُن کی جانب سے انتخابی جلسوں میں یہ جو اعلان کیا جارہا ہے کہ ہم برسرِاقتدار آکر نہ صرف گلگت بلتستان کو صوبہ بنائیں گے بلکہ یہاں کی محرومیاں بھی ختم کریں گے، اس کے لیے اتنا ہی کہہ سکتا ہوں ’’یک نہ شد دو شد‘‘۔ اب اْن سے بھلا کون پوچھے کہ وہ صوبہ بنانے کا اگر اتنا ہی درد رکھتے ہیں یا عوام کی محرومیوں کا انہیں اس قدر احساس ہے تو خدارا پہلے کراچی میں بسنے والوں کی فریاد سن لیں، وہ سن لیں کہ یہاں کے عوام تعلیم، صحت،ٹرانسپورٹ جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، وہ سن لیں کہ یہاں کا انفرااسٹرکچر تباہ و برباد ہوچکا ہے، یہاں کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی تو دور کی بات، روزمرہ کے عام استعمال کے لیے بھی پانی کی ایک بالٹی تک میسر نہیں، یہاں کے عوام کو گھنٹوں اعلانیہ و غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگتنا پڑتا ہے، یہاں کے رہنے والوں کو اپنی جائز ضروریاتِ زندگی کے حصول کے لیے ہر پل جینا اور مرنا پڑتا ہے۔ صوبہ سندھ میں تو اُن کی اپنی جماعت کی حکومت ہے، اور یہ کوئی نئی بات نہیں، گزشتہ بارہ سال سے اقتدار کے مزے لوٹنے والی بلاول بھٹو زرداری صاحب کی جماعت کی جانب سے شہری علاقوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ آج کراچی جیسے شہر سے بھی علیحدہ صوبہ بنانے کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ ظاہر ہے جب کسی علاقے کو اس کا جائز حق نہ دیا جائے تو وہاں بسنے والوں میں محرومیاں جنم لیتی ہیں اور آتش فشاں کا روپ دھار لیتی ہیں، پھر وہ ایسا پھٹتا ہے کہ ہر چیز جلا کر راکھ کردیتا ہے۔ تو بلاول بھٹو زرداری کے لیے یہ مفت مشورہ ہے کہ وہ گلگت بلتستان میں بڑھتی محرومیوں کے باعث اُسے صوبے کا درجہ دلانے کے لیے سنجیدہ ہیں تو کراچی سے اٹھنے والی آوازوں پر بھی دھیان دیں، کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک طرف آپ گلگت بلتستان صوبہ بنائیں تو دوسری جانب ’’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘ جیسا نعرہ لگائیں۔ اگر بلاول بھٹو زرداری واقعی گلگت بلتستان کو صوبہ بنوانے کا عزم رکھتے ہیں تو ایک صوبہ بنانے تک ہی محدود نہ رہیں بلکہ کراچی صوبے کے ساتھ ساتھ، کے پی کے میں ہزارہ وال اور بلوچستان کے پشتون علاقوں میں رہنے والے عوام کی دیرینہ خواہش کو بھی عملی جامہ پہنائیں۔
طارق میاں یہ سب ہوائی باتیں ہوتی ہیں، کسی کو بھی بائیس کروڑ انسانوں کی فکر نہیں ہے، سب اپنی عیاشیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں میٹھی گولیاں دی جاتی ہیں۔ ہمارے سیاست دان نہ صرف میٹھی گولیاں دینے کے ماہر ہیں بلکہ اب تو ’’شہد‘‘ کی بوتلیں بانٹنے کا فن بھی خوب جانتے ہیں۔
یہاں بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے حکمران اور سیاسی رہنما لفظی گولہ باری کے بجائے عوام کے مسائل حل کرنے میں تھوڑی سی بھی دلچسپی لیں تو یقیناً ملک کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔
اور جہاں تک پاکستان میں مزید صوبے بنانے کا تعلق ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں، یہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔ لیکن اصول یہ ہو کہ صوبوں کا قیام زبان کے بجائے ڈویژن کی سطح پر ہو۔ زبان کی بنیاد پر بنائے جانے والے صوبوں سے نہ صرف تیرے میرے کی جنگ چھڑ جاتی ہے بلکہ لسانی تفریق میں بھی اضافہ ہوتا ہے، جس کے اثرات نسل در نسل منتقل ہوکر قوموں کو تباہ و برباد کرڈالتے ہیں۔ جبکہ ڈویژن کی بنیادوں پر بنائے جانے والے صوبے مضبوط معاشی وانتظامی یونٹ تصور کیے جاتے ہیں۔ اگر ان بنیادوں پر صوبوں کے قیام کے لیے جدوجہد کی جائے تو یقینا کامیابی ہوگی۔ اور اگر نیت میں فتور ہوگا اور بات صرف انتخابی نعروں تک ہی محدود رہے گی تو ایسے نعرے نہ جانے کتنے برسوں سے لگائے جا رہے ہیں۔ لہٰذا وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان ہوں یا بلاول بھٹو زرداری… دونوں رہنمائوں کو انتخابی نعروں اور عوام کے جذبات سے کھیلنے کے بجائے عملی طور پر ڈویژن کی سطح پر سارے پاکستان میں صوبے بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہی مضبوط اور خوشحال پاکستان کی ضمانت ہے۔‘‘