پاکستان کا جان لیوا ٹریفک

815

ٹریفک کو ”قاتل‘‘ کون کہے گا لیکن ایک عالمی رپورٹ کے مطابق ”پوری دنیا میں سالانہ کم و بیش 1.35ملین لوگوں کی اموات ٹریفک حادثات کی وجہ سے رونما ہوتی ہیں۔ 20 سے 50 ملین کے قریب لوگ زخمی ہوتے ہیں‘‘۔ سچ تو یہ ہے کہ ٹریفک حادثات کسی بھی طرح دوسرے المناک سانحات سے کم نہیں۔ ایک شخص کی صرف لمحوں کی عجلت، غفلت یا غیر ذمہ دارانہ، بے حس رویہ کتنے بڑے المیے کو جنم دے سکتا ہے یہ ہم آئے روز پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر پڑھتے، دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ اس کے متعلق ہم اس تشویش یا بے چینی کا اظہار نہیں کرتے جو ہم دہشت گردی کے کسی واقعے پر کرتے ہیں۔ حالاںکہ ہم روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کی نسبت کسی ٹریفک حادثے کے بہت زیادہ قریب ہوتے ہیں۔
پاکستان میں ٹریفک حادثات بہت کثرت سے ہوتے ہیں- ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 11121کے قریب ٹریفک حادثات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
حکومتی رپورٹ کےمطابق ”ہر پانچ منٹ کے دوران پاکستان کی سڑکوں پر ٹریفک حادثے کا شکار ہوکر ایک شخص یا تو زندگی کی بازی ہار جاتا ہے، یا پھر شدید زخمی ہوجاتا ہے‘‘-
”روڈ سیفٹی پروجیکٹ“ کی رپورٹ کے مطابق”2016ء میں پاکستان بھر میں 6548 افراد کی اموات ٹریفک حادثات کے باعث ہوئیں‘‘۔
عالمی ادارہ صحت(WHO) کے مطابق پاکستان میں ٹریفک حادثات کی صورت حال کچھ یوں ہے:پاکستان میں ہر 10لاکھ افراد میں سے 14 افراد ٹریفک حادثات کے باعث جاں بحق ہوجاتے ہیں۔
ادارئہ شماریات پاکستان (بیورو آف اسٹیٹسٹکس) کے مطابق پاکستان میں 2015-16ء تک ٹریفک حادثات کی تعداد 9100 تھی جس میں 4448 افراد جاں بحق اور11544 افراد زخمی ہوئے۔ سالانہ ٹریفک حادثات کی شرح میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا، جس کا اندازہ مذکورہ ادارے کی رپورٹ 2017-18ء سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ سندھ کے سب سے بڑے شہر اور معاشی حب کراچی کے مسائل اور ترقیاتی رفتار کا اثر براہِ راست ملک کے تمام معاشی اور سیاسی حالات پر پڑتا ہے۔ شہر کی آبادی اور رقبہ دیکھ کر یہاں انفرااسٹرکچر کو بہتر کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ترقیاتی کاموں (جن میں سرفہرست ٹریفک کے مسائل ہیں) کی ضرورت ہے۔
کراچی ٹریفک پولیس کی جانب سے جاری دستاویزات کے مطابق کراچی میں جون، جولائی اور اگست میں سڑکوں پر ٹریفک حادثات میں 60 افراد جاں بحق ہوئے۔ چھوٹے بڑے ٹریفک حادثات میں 870 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ کراچی ٹریفک پولیس کی جانب سے جاری دستاویزات کے مطابق رواں سال مجموعی طور پر ٹریفک حادثات میں 128 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ کراچی ضلع غربی کی سڑکوں پر سب سے زیادہ 54 افراد کی جان گئی۔ سب سے زیادہ موٹرسائیکل سوار 85 افراد ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوئے۔
ریسکیو 1122 کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق یکم مارچ 2019ء سے فروری 2020ء کے درمیانی عرصے میں 84 ہزار سے زائد ہونے والے ٹریفک حادثات کے باعث ہزاروں شہری متاثر ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ٹریفک حادثات کے نتیجے میں تقریباً 50 ہزار موٹرسائیکل سوار متاثر ہوئے جن میں سے 210 جانبرنہ ہوسکے اور ملکِ عدم کو روانہ ہوگئے۔ ”ہم“ نیوز کے مطابق ٹریفک حادثات سے 66625 مرد اور 17718 خواتین متاثر ہوئیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ ٹریفک حادثات موٹر سائیکل سواروں کے ہوئے جن کی تعداد 50 ہزار سے زائد ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دس سے بارہ ہزار حادثات صرف غلط یوٹرن کی وجہ سے پیش آئے۔
کراچی میں امراض قلب کے قومی ادارے کے ایک ڈاکٹر افتخار احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سب سے بڑی ذمہ داری ٹریفک انتظامیہ کی ہے۔ ان کے مطابق کئی بار انتہائی ایمرجنسی کی صورت میں ایمبولینس کو راستہ نہیں ملتا اور ٹریفک والے اس کا نوٹس نہیں لیتے، جس کی وجہ سے بعض اوقات مریض اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔
ڈی آئی جی ٹریفک کراچی کے بقول سڑکوں پر روزانہ دو سو گاڑیوں کا اضافہ ہورہا ہے جس سے یقیناً سڑکوں پر گنجائش سے زیادہ ٹریفک چل رہا ہے۔ لیکن ایسے میں جہاں پولیس کی ذمہ داری ہے اس سے کہیں زیادہ عام لوگوں کو بھی احساسِ ذمہ داری کرنا ہوگا، ورنہ کسی بھی طرح مسائل میں کمی ممکن نہیں ہوسکے گی۔
ڈی آئی جی ٹریفک کے بقول کراچی میں 5ہزار گیلن سے زائد کے ٹینکرز کو شہر میں داخلے سے روکا جائے
سندھ ٹریفک پولیس کے سربراہ محمد یامین خان کا کہنا ہے کہ کراچی میں گزرتے ہوئے ہر گھنٹے کے ساتھ سڑک پر آٹھ نئی گاڑیوں کا اضافہ ہورہا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ٹریفک مسائل میں اضافے کی رفتار کیا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ہر قسم کی موٹر گاڑیوں کی تعداد پینتالیس لاکھ کے قریب ہے جبکہ اس تعداد کا تقریباً ایک تہائی یعنی چودہ لاکھ گاڑیاں صرف کراچی میں چلتی ہیں۔ ان کے مطابق ایک جانب تجاوزات بڑھ رہی ہیں اور دوسری جانب پارکنگ کا انتظام نہیں ہے، جس سے سڑکیں تنگ اور ٹریفک ہمیشہ جام رہتا ہے۔
کراچی کی بیشتر سڑکیں چاہے وہ شارع فیصل ہو یا ایم اے جناح روڈ، آئی آئی چندریگر روڈ ہو یا پھر شاہراہ لیاقت… ٹریفک پولیس کے نامکمل انتظامات، سگنل سسٹم اور گاڑیوں کی تعداد میں اضافے کے باعث مختصر فاصلہ طے کرنے میں بھی طویل وقت لگ جاتا ہے۔
پاکستان میں ٹریفک حادثات کی وجوہات پر غور و فکر کریں تو ہمارے سامنے چند حقائق عیاں ہوتے ہیں:
پاکستان میںلائسنس کی فراہمی کے لیے قواعدو ضوابط پر عمل درآمد کروانے میں مشکلات پیش آتی ہیں، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں لائسنس حاصل کرنے کے لیے بہت سے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے- ایک اندازے کے مطابق کراچی میں 60 فیصد لوگ گاڑی بغیر لائسنس کے چلاتے ہیں۔
ٹریفک حادثات کے تناظر میں پاکستان کا موازنہ دیگر ممالک سے کیا جائے تو پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کے بجائے لوگ اپنی سواری کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں پبلک ٹرانسپورٹ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ٹریفک حادثات کی شرح میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے- ٹریفک حادثات کے وقوع پذیر ہونے کا ایک اہم سبب مؤثر انفرااسٹرکچر کا نہ ہونا بھی ہے- گاڑی چلاتے وقت غیر سنجیدہ رویّے بھی ٹریفک حادثات کی شرح میں اضافے کا باعث بنتے ہیں جیسے کہ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال، فلم یا گانوں کی ویڈیوز دیکھنا اور غیر ضروری طور پر اونچی آواز میں میوزک سننا- بدقسمتی سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اور ٹریفک اہلکار سے بدتمیزی کرنے کے واقعات بھی پیش آتے ہیں۔
اکثر مرکزی شاہراہوں کے اردگرد بڑی آبادیاں اور مارکیٹیں بنی ہوئی ہیں جہاں پر مقامی لوگوں کے سڑک عبور کرنے کے لیے پیدل کراسنگ پُل نہیں بنائے گئے، وہاں بھی جلد بازی اور تیز رفتاری کے باعث اکثر واقعات پیش آتے ہیں- مرکزی و صوبائی حکومتوں کی اہلیت پر ان پیدل کراسنگ پلوں کا نہ ہونا ایک سوالیہ نشان ہے۔
مزید برآں ٹریفک حادثات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ دھند بھی ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ریسیکو 1122 کے مطابق صرف 5 جنوری 2019ء کو پنجاب بھر میں دھند کے باعث 805 ٹریفک حادثات رونما ہوئے- جیسے ضرب المثل ہے کہ ’’ایک تو سانپ، اوپر سے اُڑنے والا‘‘- ایک طرف دھند ہوتی ہے، اوپر سے شوگر ملوں کا سیزن شروع ہوتا ہے تو گنّے سے بے ہنگم انداز میں لدی ٹرالیاں سیکڑوں معصوم اور قیمتی جانوں کے ضیاع کا باعث بنتی ہیں- یہاں ایک قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ ہماری حکومتیں بعض بیماریوں… جن میں پولیو، ڈینگی اور کورونا وائرس قابلِ ذکر ہیں… کے متعلق آگاہی مہمات میں اربوں روپے خرچ کرتی ہیں- مثلاً گزشتہ دنوں حکومتِ جاپان نے پاکستان میں انسدادِ پولیو کے لیے5.4 ملین امریکی ڈالر امداد فراہم کیے
بلاشبہ پولیو کے خلاف مہم چلنی چاہیے،۔ لیکن ٹریفک کے حادثات کی روک تھام کے لئے بھی مہم چلانے کی ضرورت ہےاس سلسلے میں مندرجہ ذیل باتیں اہم ہیں۔
1۔عوام میں ٹریفک قوانین اور روڈ سیفٹی کے شعور کو اجاگر کرنے کے لیے آگاہی مہم کو مزید بہتر کیا جائے تاکہ ٹریفک قوانین کی پاسداری کی جاسکے، جس کے باعث ٹریفک حادثات میں کمی آئے-
2۔ ملک بھر میں ضلع اور تحصیل سطح پر ڈرائیونگ اسکول بنائے جائیں جو حکومت سے منظور شدہ ہوں، جن میں ڈرائیونگ سکھائی جائے اور دورانِ ڈرائیونگ امیدواروں کو مختلف مراحل سے گزارا جائے- جس شخص کے پاس منظور شدہ ڈرائیونگ اسکول کا باقاعدہ سرٹیفکیٹ موجود ہو بس اُسے ہی لائسنس مہیا کیا جائے-
3۔ پیدل سڑک عبور کرنے والوں کے لیے بنائے گئے قوانین سے عوام کو آگاہی دی جائے، اور انہیں مؤثر و مخصوص ٹریک مہیا کیے جائیں تاکہ حادثات پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ شہری سفر سے لطف اندوز ہوسکیں-
4۔ دھند کی صورت میں فوگ لائٹ کے استعمال کو یقینی بنایا جائے- رفتار سے تجاوز کرنے والوں اور بغیر لائٹ گاڑی چلانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے-
5۔ ٹرالی مافیا کی روک تھام کے لیے مؤثر قانون سازی کی جائے اور سخت ترین عمل درآمد کروایا جائے-
6۔ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کروانے میں ٹریفک پولیس کو سنجیدہ کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ٹریفک حادثات کی شرح میں کمی لاتے ہوئے انسانی جان و املاک کا تحفظ ممکن بنایا جاسکے-
7۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہے، تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو۔ اس سے نہ صرف ٹریفک حادثات میں کمی ہوگی بلکہ ماحولیاتی آلودگی پر بھی قابو پایا جاسکے گا۔
8۔ ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے انفرااسڑکچر مزید بہتر بنایا جائے، تاکہ پاکستان میں ٹریفک کا نظام مؤثر ہو، اور بہت سی انسانی زندگیاں ضائع ہونے سے بچ جائیں۔

حصہ