سلیم احمد کا انٹرویو

937

قسط نمبر 2

طاہر مسعود: لیکن قرآن کی اس سورۃ میں شاعروں میں تفریق بھی کی گئی ہے۔ یعنی گم راہ اور بد عقیدہ شاعروں کی مذمت کے ساتھ ساتھ ایسے شاعروں کی تعریف بھی کی گئی ہے جنہوں نے دین اسلام کو قبول کیا اور عمل صالح کیے۔ کیا اس سے یہ ثابت ہوا کہ اسلامی ریاست میں، شاعروں کے صرف اس گروہ کی تائید کی گئی ہے جو اسلامی نظریے سے ہم آہنگ ہوں؟
سلیم احمد: یہ بہت اچھا سوال ہے۔ یہ درست ہے کہ کچھ صحیح شاعر ہیں اور کچھ غلط۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ غلط شاعر، غیر شاعر نہیں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے امراء القیس کو رد کیا ہے۔ اس کے کردار اور اس کی شاعری کے موضوعات کی بنا پر، لیکن اسے شاعروں کا سردار تسلیم کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن حکیم میں جو تفریق بیان کی گئی ہے۔ وہ شاعر اور غیر شاعر کا فیصلہ نہیں کرتی۔ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ایک صالح شاعر اور ایک غیر صالح شاعر میں کیا فرق ہے؟آپ نے جو سوال کیا تھا کہ اسلامی ریاست غیر صاح شعرا کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرے گی؟ کیا ریاست ان کی تخلیق پر پابندی لگا دے گی؟ اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے تو آپ کو ثابت کرنا پڑے گا کہ اسلامی تاریخ کے کسی بھی دور میں زمانہ جاہلیت کے شعرای سنسر عاید کیا گیا۔ حضرت عمر ؓایک روز رات کو گشت پر نکلے۔ انہوں نے ایک عورت کے گانے کی آواز سنی جو یہ اشعار گا رہی تھی جن کا مفہوم یہ تھا کہ اگر مجھے اپنے شوہر کی نیک نانی کا خیال نہ ہوتا تو میری چار پائی کی چولیں بھی ہوتیں۔ یہ اشعار سن کر حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا کہ اس عورت کا شوہر جہاد پر گیا ہوا ہے اور وہ اس کی یاد میں اپنے جنسی جذبات کا اظہار کر رہی ہے تو حضرت عمرؓ نے اپنی بیٹی حضرت حفصہؓ سے دریافت کیا کہ ایک عورت اپنے مرد کے بغیر کتنے دن رہ سکتی ہے ( بہت سے لوگوں کو یہ سن کر شاک لگے گا کہ اپنی بیٹی سے سوال کرنے گئے تھے) اور ان کے جواب پر حضرت عمرؓ نے سپاہیوں کی چھٹی کا قانون بنایا۔ میں تو کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اس ذہنیت کے لوگ قرآن میں نطفہ اور شرم گاہوں کے الفاظ پڑھ کر کیسا محسوس کرتے ہوں گے۔ قرآن میں کہا گیا کہ میں نے پیدا کیا ہے انسان کو اچھل کر نکلتے ہوئے پانی سے!‘‘ اگر میری بچی مجھ سے اس کی تشریح دریافت کرے تو میں اس کا کیا جواب دوں گا؟
طاہر مسعود: آپ نے دوران گفتگو یہ بتایا کہ ادب کے فحش ہونے کا تصور عہد جدید کی پیداوار ہے، گویا عہد جدید سے قبل ادب صرف ادب ہوتا تھا۔ کیا وضاحت فرمائیں گے کہ ادب کے غیر اخلاقی ہونے کا تصور ہمارے مشرقی ادب میں میں کیسے در آیا؟
سلیم احمد : یہ تصور عیسائیوں کے یہاں سے آیا ہے۔ وہاں جنس فی نفسہ بری چیز ہے۔ اگر کوئی ادب یہ کہنے لگے کہ زنا اچھی چیز ہے تو بے شک آپ اس پر پابندی لگائیں۔ ’’مادام بواری‘‘ اور ’’اینا کرینینا‘‘ میں زنا بیان کیا گیا ہے لیکن بطور تعریف کے نہیں، ادب کے فحش ہونے کا تصور حالی سے پہلے مشرقی ادب میں کہیں موجود نہیں تھا۔
طاہر مسعود : ادب کے اسلامی اور غیر اسلامی ہونے کی بحث تو ایک طرف، فی الحال تو ادب کا مستقبل ہی مشکوک ہو گیا ہے بلکہ شاید ادب کی موت واقع ہو چکی ہے اور اگر واقعی یہ سانحہ پیش آچکا ہے تو پھر ادب پر گفتگو سے کیا حاصل؟
سلیم احمد: ادب پر گفتگو بے حد ضروری ہے کیوں کہ ادب کی موت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا معاشرے پر کوئی اثر نہ پڑے۔ اس کی موت ایک ایسی چیز ہے جیسے کسی معاشرے سے ہوا یا پانی غائب ہو جائے۔ ادب کی موت کے بعد یہ کہنا مشکل ہے کہ آپ کی ریاست کا کیا حشر ہوگا۔ اس لیے اس کی موت کو سمجھنا، اس کے اسباب کا تجزیہ کرنا اور ادب کو پھر سے زندہ کرنا، وہ اہم ترین فریضہ ہے جو اس دور میں ہماری تہذیب کو انجام دینا ہے۔
طاہر مسعود: ہماری نئی تہذیب ادب کو اپنی ضروریات میں شمار نہیں کرتی۔ وہ ادب سے منہ موڑ چکی ہے اور دوسرے ذرائع ابلاغ مثلاً ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات ، فلم ، موسیقی اور دوسری تفریحات انسان کی ذہنی و روحانی تھکن کو دور کرنے کے لیے بہت کافی ہیں۔ پھر ایسے میں ادب کی کیا ضرورت ہے؟
سلیم احمد: وہ ادب کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کر رہے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ سطح پر زندہ رہنے سے کام چل جائے گا۔ ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اخبارات کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ آپ کو اچھے خواب دکھاتے ہیں اور یہ نہیں بتاتے کہ خود آپ کے نفس میں اور آپ کے معاشرے کی تہوں میں تخریب کے کتنے ہولناک عناصر کام کر رہے ہیں اور آپ اس میں خوش رہنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ریڈیو اور ٹیلی ویژن اور اخبار ایک افیون کا کام کرتے ہیں اور آپ اس کے سرور میں خود آگہی اور اپنی صورت حال کی صحیح شناخت اور علم سے محفوظرہنے میں اپنی عافیت دیکھتے ہیں۔ آپ کے ضمیر پر اس بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا کہ جس اخبار کے اداریے میں آپ کو اخلاقیات کا بہترین درس دیا گیا ہے اور جس میں آپ کو بتایا گیا ہے کہ ہم اسلام کی طرف کس تیزی سے بڑھ رہے ہیں، ان ہی صفحات پرقتل، اغوا، ڈکیتی، مجرمانہ حملوں کی خبریں چھپی ہوتی ہیں۔ آپ ان دونوں کو اپنے ذہن کے خانوں میں الگ الگ رکھتے ہیں اور اطمینان سے بیٹھے ہوئے ہیں، ایک ادیب ہی نہیں کر سکتا۔ ایک ادیب آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کے معاشرے میں ظاہری سطح کے نیچے کیا ہورہا ہے اور خود آپ کے وجود کی تہوں میں کیا ہلچل مچی ہوئی ہے۔ وہ ریا کاری کا پردہ چاک کرتا ہے، وہ منافقت کو بے نقاب کرتا ہے اور یقین کیجیے کہ ساری منافقت سے زیادہ ہمیں کسی اور چیز سے خطرہ نہیں ہے۔
طاہر مسعود: سماجی منافقت پر پڑے ہوئے پردوں کو پاک کرنے والا ادیب خود ر یا کار اور منافق ہو گیا ہے شاید اسی لیے اچھا ادب تخلیق نہیں ہورہا ہے؟
سلیم احمد: ادیب اس بات کا ٹھیکے دار نہیں ہوتا ہے کہ وہ منافق اور ریا کار نہ ہو۔ ادیب کی صرف ایک ذمہ داری ہے وہ یہ کہ اگر وہ منافق اور ریا کار ہے تو وہ اس کا اعتراف کرے اور کہے کہ ہاں وہ منافق ہے۔
طاہر مسعود : یعنی سچائی۔ ادیب کا سپا ہونا ضروری ہے؟
سلیم احمد: جی ہاں! وہ اپنے اور انسانوں کے بارے میں سچ بولے۔ اس کے بغیر وہ ادیب تو ہیں ، معلم معلم،حکم راں، پارٹی لیڈر ضرور ہو جائے گا۔
طاہر مسعود: آج کل جس قسم کا ادب لکھا جارہا ہے، کیا آپ اس سے مطمئن ہیں اور کیا واقعی ادب لکھا بھی جارہا ہے یا نہیں؟
سلیم احمد : میں یہ تو نہیں کہتا کہ ادب نہیں لکھا جارہا ہے لیکن میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ ہمارے زمانے میں جس قسم کا ادب پیدا ہوسکتا ہے وہ پیدا نہیں ہو رہا۔ ہم ایک ایسی قوم ہیں جو ہرطرح کے سیاسی،سماجی، معاشرتی، اخلاقی ، جنسی مسائل سے دوچار ہیں۔ ہمارے سینوں میں ہر وقت یہ سوال دہکتا رہتا ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہے؟ ہم بہ حیثیت قوم زندہ رہیں گے یانہیں؟ ہمارے اندر نفرتیں، تشدد، جھوٹ، ریا کاری، منافقت بد عنوانی اور ان جیسے ہزاروں مہیب سوالات موجود ہیں۔ ہمارا ادیب ان سے آنکھیں چارنہیں کر رہا ہے۔ کیوں کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا نہیں چاہتا۔ انقلاب فرانس کے وقت ، فرانس کی کیا حالت تھی ؟ انقلاب روس سے پہلے روس کی کیا حالت تھی؟ ہماری حالت اس سے مختلف نہیں ہے۔ ہم ویسا ادب تخلیق نہیں کر سکتے جیسا ادب اس زمانے میں ان قوموں نے تخلیق کیا۔ ہمارے پاس تو اب ویسا ادب بھی موجود نہیں جیسا کہ ہم نے سرسید کی تحریک پر یا 1936ء کی تحریک کے دوران پیدا کیا تھا۔ ادیب اپنے ادیبانہ فرائض سے زیادہ پیسہ کمانے، سستی شہرتیں حاصل کرنے پبلک ریلشنگ کرنے اور سوشل اسٹیٹس بنانے کی دوڑ میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اب ویسا ادب ہمارا ایک ثانوی مشغلہ ہے۔ اس حالت میں جیسا ادب پیدا ہوسکتا ہے، وہ ظاہر ہے۔
طاہر مسعود: اس مرض کا کیا علاج ہے؟
سلیم احمد : اس کا صرف ایک علاج ہے اور وہ یہ کہ آپ اپنے نفس میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر یا اپنے ضمیر کو گواہ بنا کر یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ ادیب رہنا چاہتے ہیں یا نہیں اور اگر ادیب رہنا چاہتے ہیں تو پھر سچ مچ ادب پیدا کریں۔ یعنی اپنے زمانے کی سچائیوں کو بے نقاب کریں اور اپنے نفس اور معاشرے کے بارے میں سچائی سے کام لیں، خواہ اس کی کوئی قیمت ہی دینی پڑے۔ ادب کی تخلیق لفظوں کی تجارت نہیں ہوتی۔ ادب کی تخلیق ایک طرز زندگی ہے۔ یہ ادیبوں ، درویشوں، صوفیوں، انقلابیوں اور پاگلوں کا کام ہے۔ اس میں زر پرست، سماجی ریا کاری منافق، ہاتھی کے دانت رکھنے والے معلم شریک نہیں ہو سکتے۔ جس وقت یہ کام شروع ہو جائے گا، ادب میں نئی زندگی پیدا ہو جائے گی۔
طاہر مسعود: کیا ڈاکٹر ابواللّیت صدیقی اور عبادت بریلوی جیسے ادیبوں کا طرز زندگی ادب کے عین مطابق نہیں ہے؟
سلیم احمد : پہلا مفروضہ یہ ہے کہ یہ ادیب ہیں۔ اس لیے آپ نے ان کا نام لیا۔ میرے علم کے مطابق یہ استاد ہیں۔ اگر انہوں نے کچھ لکھا ہے تو اس کی حیثیت موّرخ، محرّر محّقق وغیرہ کی ہوگی لیکن تخلیقی ادیب نہیں ہیں اور ہمارے دائرے سے بالکل خارج ہیں۔ لیکن طرز زندگی اگر سچا اور تخلیقی ہو تو وہ ادیب کو کچھ نہ کچھ ادا کرتا ہے۔
طاہر مسعود: کیا آپ ان ادیبوں کی نشان دہی کریں گے جو اگر ادب کو اپنا طرز زندگی (Way of LIfe) بنا لیتے تو ان میں بڑا ادیب بننے کے امکانات موجود تھے؟
سلیم احمد: اس سے پہلے آپ یہ سوال کریں کہ وہ کون سے لوگ ہیں جنہوں نے ادب کو طرز زندگی کی حیثیت سے قبول کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان میں سرفہرست محمد حسن عسکری ہیں جن کے نزدیک ادب ایک way of life تھا۔ علاوہ ازیں جوش، فیض یہاں تک کہ حبیب جالب کے لیے بھی ادب ایک طرز زندگی ہے۔ آپ ان سے اختلاف کرسکتے ہیں اور آپ چاہیں تو اپنی غیر ادبی مصلحتوں کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی بھی رویہ اختیار کرسکتے ہیں مگر ادب ان کے لیے way of life ہے۔ اس کے برعکس جمیل الدین عالی میں بڑا ٹیلنٹ تھا مگر انہوں نے ادب کو طرز زندگی کی حیثیت سے قبول نہیں کیا۔ میں اپنے دوستوں ہی کے نام لے سکتا ہوں۔ مجتبیٰ حسین، عزیز حامد مدنی اور ان جیسے کتنے ہی لوگ ہیں جن کو خدا نے بڑی صلاحیتیں دی تھیں مگر انہوں نے اپنی ادبی طرز زندگی کو مختلف مصلحتوں اور مجبوریوں کا غلام بنا لیا۔ اس سے آپ کو بہ خوبی اندازہ ہوجائے گا کہ میں کس قسم کے لوگوں کو اہمیت دیتا ہوں اور جب میں دیکھتا ہوں کہ وہ ادب میں کچھ نہیں کرسکے جن کی ان سے توقع تھی تو مجھے کتنا دکھ ہوتا ہے۔
طاہر مسعود: ایسے لوگوں کے بارے میں آپ کا کیا تجربہ ہے۔ آخر انہوں نے ادب کو طرز زندگی کی حیثیت سے قبول کرکے بڑا ادیب بننے کے بجائے ایک عام لیکن خوش حال آدمی بننا کیوں گوارا کیا؟
سلیم احمد: ادیب کے لیے ایک مخصوص معنوں میں تاریک الدنیا ہونا ضروری ہے۔ آپ ادیب بننے کی تمنا اور افسر بننے کی تمنا اور کوٹھی اور کار کی تمنا اور بینک بیلنس کی تمنا اور سب سے خوش گوار تعلقات رکھنے کی تمنا کو ایک سینے میں جمع نہیں کرسکتے۔ ان رویوں سے آپ سماجی آدمی بھلے بن جائیں اور سماج اس کے صلے میں آپ کو چاہے کچھ ہی کیوں نہ دے دے مگر آپ ویسے ادیب نہیں رہ سکتے۔ جیسے آپ ان چیزوں کے بغیر ہوسکتے تھے۔
طاہر مسعود: لیکن ہمارے سامنے بہت سے ایسے ادیبوں کی مثالیں موجود ہیں جو بڑے ادیب بھی تھے اور معاشی لحاظ سے بے حد مستحکم اور بلند سماجی مرتبہ پر فائز بھی۔ مثلاً ن م راشد، فیض، قرۃ العین حیدر وغیرہ۔
سلیم احمد: (کچھ دیر رک کر) ادیب میں اور سماجی حیثیت میں اور عہدے اور بینک بیلنس میں کوئی باپ مارے کا بیر نہیں ہے۔ گوئٹے کتنا بڑا شاعر ہے لیکن وہ سماجی حیثیت میں جو کچھ بھی تھا، وہ سب کو معلوم ہے۔ خود اقبال جو سیاسی اور معاشرتی حیثیت رکھتے تھے، وہ بھی پتا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ادیب پیدا چپڑ قناتیہ ہوتا ہے یا اس کو ہونا چاہیے۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اسے ان چیزوں کی خواہش کا غلام نہیں ہونا چاہیے۔ فیض اور راشد۔ مسئلہ یہ ہے کہ ادب اور ادبی زندگی۔ آپ کی پہلی ترجیح ہے یا نہیں اور اگر آپ کو اپنے ادب کے لیے ان چیزوں کی قربانی دینے کی ضرورت پیش آجائے تو آپ یہ قربانی دے سکتے ہیں یا نہیں؟ سوال داخلی روپے کا ہے، پرس کی رقم گننے کا نہیں ہے، میری جیب میں دس ہزار روپے ہوسکتے ہیں اور ممکن ہے میرا داخلی رویہ انہیں دس پیسوں کے برابر سمجھے۔ جن ادیبوں کے آپ نے نام لیے ہیں ممکن ہے میں غلطی پر ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ادب ان کا اولین مسئلہ تھا۔ ان کے علاوہ وہ جو کچھ تھے، وہ سب ثانوی درجے پر تھے۔
طاہر مسعود: بہرکیف چند بڑے ادیبوں سے قطع نظر ادیب کے لیے معاش کا مسئلہ خاصا پرانا اور نہایت سنگین رہا ہے۔ کیا آپ حکومت سے کسی ایسے مطالبے یا اپیل کے حق میں ہیں کہ حکومت ادیبوں کے لیے وظیفے مقرر کرے تا کہ ادیب فکر معاش سے بے نیاز ہو کر ادب تخلیق کرسکیں؟
سلیم احمد: مجھے یہ ڈر لگتا ہے کہ جو حکومتیں وظیفے دیے بغیر ایسے مطالبات کرتی ہیں، وہ وظیفے کے بعد ادیبوں کا کیا حشر کریں گی۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ آڈن کے الفاظ میں ادیب کو کوئی ایسا چھوٹا موٹا پیشہ اختیار کرنا چاہیے جو اس کا زیادہ وقت نہ لے اور جس کے ذریعے وہ معاشرے میں عزت کی ایک متوسط زندگی گزار سکے، اسے نہ اتنا آرام ہو کہ سوجائے اور نہ اتنی تکلیف ہو کہ سوچنا بھی مشکل ہوجائے۔

طاہر مسعود: کسی ادیب کی کسی مخصوص سیاسی پارٹی میں شمولیت کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
سلیم احمد: ادیبوں کا سیاست سے کمٹ منٹ اور چیز ہے اور کسی سیاسی پارٹی سے کمٹ منٹ بالکل اور چیز۔ میں چاہتا ہوں کہ ادیب سیاست میں حصہ لیں مگر پارٹی پالیٹکس میں نہیں۔ پارٹی کمیٹڈ ہو کر آدمی پارٹی باز ہوجاتا ہے۔ اب آپ دیکھیے کہ ادیب کا فرض ہے کہ دنیا میں کہیں بھی ظلم و استحصال ہو، اس کی مذمت کرے۔ چاہے وہ ویت نام میں ہو، چاہے کیوبا میں، پولینڈ میں یا افغانستان میں ہو۔ مگر پارٹی بازی کا شکار ہو کر ادیب ویت نام پر تو چلاتے ہیں اور افغانستان کا نام لیتے ہوئے بھی شرماتے ہیں اور بڑے پیمانے پر یہ امریکا اور روس پرستی کیا ہوتی ہے؟ امریکا اگر ظالم ہے تو اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہی حال روس کا ہے مگر آپ کو معلوم ہے پارٹی پالیٹکس کا شکار ہو کر امریکا نواز امریکیوں کے خلاف اور روس نواز روسیوں کے خلاف نہیں بول سکتا۔ وہ اپنے ضمیر کی آزادی اور اپنی بینائی کا سودا کرلیتے ہیں اور انہیں مصلحتوں اور مفادات کی روشنی میں دیکھتے رہتے ہیں۔ ہمارا ادیب جن اسباب سے خراب ہوا، ان میں ادیبوں کی یہ کم زوری بھی شامل ہے۔
طاہر مسعود: کیا آپ کی اس بات کو ایک اصول بنایا جاسکتا ہے جب کہ بہت سے ممالک میں بہت سے بڑے ادیب سیاسی پارٹیوں کے رکن رہے، لیکن پارٹی کے مفادات ان کے ادبی مفادات پر کبھی غالب نہیں آسکے۔ مثلاً روس میں میکسم گورکی۔
سلیم احمد: گورکی ایک کمیٹڈ ادیب تھا۔ اس نے انقلاب میں ایک پارٹی کا ساتھ بھی دیا لیکن پارٹی کے بانی رہ نما سے اس کی روز چلتی رہتی تھی اور وہ اس سے شدید اختلاف کرتا تھا۔ ایک بار لینن نے گورکی کے بارے میں لکھا کہ وہ ہمارے دشمنوں کی زبان بول رہا ہے اور معلوم نہیں کہ انقلاب کے بعد انسانیت اپنا جشن منائے گی تو گورکی کو کس نام سے یاد کیا جائے گا۔ گورکی نے جواب دیا کہ اگر انسانیت کی فتح کا جشن انسان منائیں گے تو مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے عزت سے یاد کریں گے لیکن اگر وہ انسان ہی نہی ہوں گے تو مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ وہ مجھے کس طرح یاد کریں گے۔ اگر کوئی سیاسی پارٹی ادیب کے مقاصد اور اس کے ضمیر کے مطابق عمل پیرا ہے تو ادیب اس کا ساتھ کیوں نہ دے مگر اس رفاقت کا معاوضہ ادیب کی سچائی نہیں ہونا چاہیے۔
(15مئی 1981ء)
(2)
طاہر مسعود: آپ نے کسی موقع پر کہا تھا کہ شاعری آپ کا کم زور بچہ ہے، اس لیے آپ کو عزیز ہے۔ میں گفتگو کے آغاز پر یہ پوچھنا چاہوں گا کہ آپ کا یہ کم زور بچہ توانا ہوا؟ یا اب اس کی صحت کیسی ہے؟
سلیم احمد: جب میں نے یہ بات کہی تھی تو میرے مخالفین کا گروہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ لیجیے صاحب انہوں نے تسلیم کرلیا کہ ان کی شاعری کمزور ہے جس پر میں نے کہا کہ بھئی میری شاعری میرا کمزور بچہ ضرور ہے لیکن یہ ہاتھی کا بچہ ہے اور اس پر چوہوں کے خوش ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ جب میں نے اپنی شاعری کو کمزور کہا تو میرے سامنے شاعری کے بڑے بڑے معیارات تھے۔ کوئی چھوٹا نمونہ نہیں تھا۔ طاہر! بات یہ ہے کہ میں نے اب تک اپنی شاعری پر اتنی توجہ نہیں دی، جتنی تنقید یا ڈرامے کی طرف دی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ چوالیس سال میں ’’اکائی‘‘ میرا دوسرا مجموعہ ہے جب کہ دوسرے شعرا کے پانچ پانچ مجموعے آچکے ہیں۔
طاہر مسعود: آپ نے اپنی شاعری پر سنجیدگی سے توجہ کیوں نہیں دی۔ کیا اس کا سبب یہ تھا کہ آپ اپنی شاعری سے مطمئن نہ تھے؟
سلیم احمد: اس کی وجہ یہ ہے کہ اور سب چیزوں کی تحریک میں میرا ماحول بھی شامل تھا۔ مثلاً میں نے تنقید کی طرف توجہ ترقی پسندوں اور پاکستان کے دشمنوں سے لڑائی لڑنے کی وجہ سے کی یا جیسے ڈراما ہے جو میرا پیشہ ہے۔ شاعری صرف میرا شوق تھا۔ اس میں مجھ پر کوئی خارجی دبائو نہیں تھا۔
طاہر مسعود: آپ نے اکثر اپنی شاعری کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ دوسری طرف آپ کے مخالفین کا ایک گروہ آپ کو شاعر تسلیم کرنے سے منکر رہا ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ آپ کی شاعری عصر حاضر کی نمائندگی نہیں کرتی۔ آپ اس صورت حال کا معروضی تجزیہ کس طرح کرتے ہیں؟
سلیم احمد: میرے مخالفین بالکل صحیح کہتے ہیں کہ میری شاعری عصر حاضر کے مسائل کی نمائندگی نہیں کرتی لیکن قصہ یہ ہے کہ میں وہ کام کر ہی نہیں رہا تھا جو دوسرے شاعر کررہے تھے۔ میرا مقصد تو صرف اتنا سا تھا کہ اردو شاعری کے جتنے گم گشتہ لہجے اور اسالیب ہیں، انہیں دریافت کروں اور ان پر قابو پائوں تا کہ آئندہ چل کر مجھے اپنی شاعری سے جو کام لینا ہے، اس کے لیے میری تیاری مکمل ہو۔ اسی لیے میں نے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا اور کہتا رہا کہ ’’ہاں بھئی میں تو قافیہ بندی کرتا ہوں‘‘۔ لیکن ایک بات یہ ہے کہ میں جس میدان میں دوڑا ہوں، اس میں مجھے ہارنے کا اندیشہ کبھی نہیں رہا۔ میں اس میدان میں جاتا ہی نہیں جس میں ہارنے کا اندیشہ ہو۔ شاعری کو میں اپنی زندگی کی آخری سانس تک کی دوڑ سمجھتا ہوں جس کے آخر پر فیصلہ ہوگا کہ کون جیتا۔ مجھ سے ایک فلم لکھنے والے نے میری ایک فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سلیم صاحب! اگر آپ ایسی ہی فلم لکھتے رہے تو ناکام ہوجائیں گے۔ میں نے ان سے کہا میری آپ کی دوڑ تیس سال تک ہوگی۔ اگر فلم انڈسٹری رہ گئی تو پھر دیکھیں گے کہ جیت کس کے حصے میں آئی۔ لہٰذا شاعری میں بھی مجھے کوئی پریشانی یا جلدی نہیں رہی، بلکہ اپنی شاعری کے متعلق بہت سی غلط فہمیوں کو پھیلانے میں بھی میرا حصہ رہا۔ آپ دیکھیں گے کہ چھوٹے سے چھوٹا شاعر بھی اپنی شاعری کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کرتا۔
طاہر مسعود: تو اب آپ کا اپنی شاعری کے ضمن میں کیا رویہ ہے؟ کیا آپ سنجیدگی سے دوبارہ…
سلیم احمد: (بات کاٹ کر) سنجیدہ تو میں ہمیشہ سے تھا۔ اگر سنجیدہ نہ ہوتا تو جو کام میں کرنا چاہتا تھا اسے دل جمعی سے نہ کرتا۔ میں نے پچیس سال شاعری اور فکشن نہیں پڑھا۔ صرف فلسفہ، تنقید، مذہب، تاریخ، تصوف، نفسیات، عمرانیات اور دیگر علوم کا مطالعہ کرتا رہا جس کا مقصد یہ تھا کہ میں اپنی شخصیت کے ان اجزا کو ترقی دینا چاہتا تھا جو عہد جدید کے مسائل کو سمجھنے میں میری مدد کریں۔ دوسری طرف میں اظہار کے تمام سانچوں پر دسترس حاصل کرنے کی کوشش کررہا تھا یعنی میں یہ چاہتا تھا کہ میں تمام قسم کے جذبات یعنی محبت، غم، نفرت، حقارت، طنز کے اظہار پر قادر ہوجائوں۔ اس کے بعد فکری شاعری یا حسی شاعری تک محدود نہ رہوں بلکہ تمام قسم کے جذبات کے اظہار کے لیے سانچے بنائوں۔ اس کوشش میں مجھے تیس سال لگ گئے۔ اب شاعری میں سنجیدگی کے معنی یہ ہوں گے کہ میں نثر کے مضامین کم سے کم لکھوں گا اور موضوعات میں اب تک کے مطالعے کی تخفیف کرکے فکشن، ڈرامے اور شاعری کا مطالعہ زیادہ سے زیادہ کروں گا۔

حصہ