سوشل میڈیا پر امریکی الیکشن :دھاندلی کا شور

453

عالمی سطح پرسوشل میڈیا اشتہار ات کا بڑھتا ہوا ریلیز آرڑر بتا رہا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے مقابلے میں اس کا حجم و افادیت زیادہ ہو چکا ہے۔اس بڑھتی ضرورت و اہمیت نے نئے صارفین اور ان کی تربیت کی نئی ٹریننگ مارکیٹ کو بھی جنم دیا ہے ۔ فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب اور انسٹاگرام کا ماہر بننے اور اِنہیں استعمال کرتے ہوئے اپنا ذاتی برانڈ تیار کرنے کے لیے2020 کی ایک بہترین حکمت عملی کا سلوگن لیے ، اسٹیون کوپر کی کتاب ’سوشل میڈیا مارکیٹنگ‘ کے عنوان سے مقبول ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو سوشل میڈیا استعمال کے دوران کئی ایسے اشتہارات سے ضرور سامنا ہوتا ہوگا جس میں وہ آپ کو سوشل میڈیا سکھانے ، اس طرح سکھانے کے دعوے کرتے ہیں کہ آپ اُس سے راتوں رات امیر بن جائیں گے۔مجھے نہیں معلوم کہ کتنے لوگ اِ ن کورسز یا طریقوں کا ویڈیوز پر عمل کر کے امیر بنے یا اپنا بزنس مضبوط کر سکے لیکن بہر حال یہ بھی ایک علم ہے ۔ جدید سہی، ٹیکنالوجی سے مزین سہی لیکن اس کے بھی قوائد و ضوابط و شرائط ہیں جنہیں سمجھانے ، سمجھنے کے لیے کئی استادپیدا ہو گئے ہیں ہیں جو اپنے کئی تجربات سے گزر کراُن کو ہی مرتب کر کے اب بیچ رہے ہیں۔کہیں کوئی کتابی شکل میں تو کہیں ، ویڈیو یا کورسز کی صورت۔ان میں ہوتا کیا ہے ذرا یہ بھی جان لیں ۔( مذکورہ بالا کتاب میں شامل اہم نکات)
اول: اگر آپ کسی تیز تر کاروبار کی تلاش میں ہیں یا کچھ بڑے کاروبار کو شروع کرنا چاہیں تو، پھر سوشل میڈیا مارکیٹنگ کو کس طرح استعمال کرنا ہے اس کے بارے میں قدم بہ قدم ہدایات ہوتی ہیں۔
دوم:فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام اور یوٹیوب کا مستقبل اور اپنے کاروبار کو بنانے اور صارفین کو راغب کرنے کے لیے کیسے اُن سے فائدہ اٹھایا جائے؟
سوم: تکنیکی ترقی جو سوشل میڈیا کی رفتار کو مستقل نئی شکل دے رہی ہیں۔
چہارم : اپنی برانڈ یا پروڈکٹ کو بہتر بنانے اور مسابقتی برتری حاصل کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجی اور وسائل کا استعمال کیسے کریں۔
سوشل میڈیا ہر گزرتے وقت کے ساتھ مستقل طور پر زیادہ طاقتور اور قابل اعتماد ہوتا جا رہا ہے ۔خصوصاً لاک ڈاؤن کے بعد شروع ہونے والے آن لائن کاروبار نے عالمی سطح پر خاصی جگہ بنائی ہے ۔اس وقت ہر بڑی برانڈ یا ادارہ اسی میڈیم کو ہدف بنائے ہوئے ہے، چنانچہ سوشل میڈیا مارکیٹنگ اب کوئی آپشن نہیں رہا ہے۔ سوشل میڈیا تیزی سے اور باقاعدگی سے تیار ہورہا ہے۔آپ کے گاہگ بھی اب یہ توقع کرتے ہیں کہ آپ انہیں ہر جگہ نظر آئیں۔ہم سرمایہ دارانہ نظام میں جی رہے ہیں جس میں سرمایہ ، خرید فروخت ہی کلیدی اہمیت رکھتے ہیں تو اس میں خواہشات ،ضروریات بڑھانے والی تمام کوششیں بھی کی جاتی ہیں تاکہ پیسہ رولنگ کرتا رہے۔بہت سارے کاروباروں کے پاس سوشل میڈیا کے لئے ناکافی مارکیٹنگ کی حکمت عملی ہے۔ بہت سارے کاروبار ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے موجودہ رجحانات کو مضبوطی سے دیکھ رہے ہیں اور جب کاروبار نے ان کو مکمل کرلیا تو ان کی تدبیریں متروک ہوجائیں گی۔مستقبل میں سوشل میڈیا پر اشتہارات میں اضافے کے لیے آپ کو پراعتماد ہونے کی ضرورت ہے۔
نیٹیزن یعنی انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی سرچنگ یعنی تلاش کرنے کی ہر ہر کوشش پوری سماجی میڈیا کی اشتہاری دُنیا کے لیے مانیٹر ہوتی ہے ۔ ایسا ہوتا ہے کہ صرف دل میں خواہش کرنے والے کے سامنے باقاعدہ بنے بنائے نظام کے تحت اسکرین پر اُس کی خواہشات پر مبنی اشتہارات نمودار ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔یہی نہیں بلکہ ڈیٹا کلیکشن (معلومات) کی اتنی بڑی سورس سوشل میڈیا محققین کو انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بصیرت حاصل کرنے کا بھی ایک انمول موقع فراہم کرتی ہے۔ ریسرچرز افراد کی معاشرتی معاشی حیثیت کی درجہ بندی کرنے پر بہت زور دیتے ہیں تاکہ دلچسپی کی مختلف تلاشوں کی پیش گوئی کی جاسکے۔ کون کیا استعمال کرتا ہے، ہیش ٹیگ اور اسی طرح گفتگو کی بھی گروپ بندی کرواتی ہے۔ دوسری طرف، ’کراؤڈ سورسنگ‘ ایک ایسا تصور سامنے آیا ہے جس میں مشترکہ دلچسپی کی بنیاد پر گروپ آن لائن صارفین کی کمیونٹی میں مخصوص معلومات جمع کرتے ہیں، پھر اسکی روشنی میں اپنے لیے راہیں نکالتے ہیں۔اس کراؤڈسورسنگ کے بارے میں ہی کہا جا رہا ہے کہ امریکا میں کورونا کی وبا سے مقابلہ کرنے اسکو شکست دینے میں معاونت کر رہی ہے ۔امریکی یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے دو ماہ تک انٹرنیٹ پر کراؤڈ سورسنگ کے ذریعہ دیگر ممالک میں کورونا کی وباکی روک تھام، جانچ، قرنطینہ، علاج ، لاک ڈاؤن، اثرات اور دوبارہ کھولنے سمیت معامالت کو باہمی طور پر جانچا اور کئی سفارشات اس ضمن میں مرتب کیں۔اسی طرح چین میں اِسی طرح (کراؤڈ سورسنگ پر مبنی ) ڈیٹا کی جانچ کی گئی ۔چینی زبان میں چینی فیس بک ( ویبو) کی کوئی 1لاکھ 15ہزار 299پوسٹوں کا تجزیہ کیا گیا۔یہ پوسٹیں 23دسمبر2019سے30جنوری 2020کے درمیان وہان شہر کے افراد نے ہی کی تھیں۔چین کے قومی ہیلتھ کمیشن سے مریضوں کا ڈیٹا لے کر موازنہ کیا گیاتو کورونا سے متعلق پوسٹوں اور مریضوں کی تعداد میں ایک مثبت ارتباط پایا گیاکہ شروع میں جیسے جیسے ذکر ہو رہا ہے ویسے ویسے مریض بھی بڑھ رہے ہیں جو اپنی کیفیت سوشل میڈیا پر ڈالتے ۔
پھر ویبوکی پوسٹوں میں اس سے متعلق مباحثوں میں وباء کی کیفیت، مریضوں کی خصوصیات ، مشورے کی شیئرنگ ہوئی جس نے بیماری سے بچنے کی آگہی کو بھی فروغ دیا۔
بہر حال امریکی صدارتی الیکشن کا سوشل میڈیا پر خوب شور مچا۔ سوشل میڈیا کی بنیاد پر الیکشن فتح کرنے کے دعویدار صدر ڈانلڈ ٹرمپ ، باوجود تمام تر کوششوں کے اپنی دوسری صدارتی ٹرم لینے میں کامیاب نہ ہوسکے۔البتہ دھاندلی کا جو شور انہوں نے مچایا ، پاکستان میں اُس پر بہت ساری میمز بنیں۔ عوام نے خوب مزے لیے ۔ انتخابات سے قبل فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب نے انتخابی غلط معلومات پر روک تھام کا وعدہ کیاتھا، بشمول امیدواروں کے ذریعہ دھوکہ دہی اور قبل از وقت فتح کے اعلانات کے جو کہ پاکستان میں 2013میں خاصا اہم معاملہ بنا تھا۔مجموعی طور پر تو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے ایسا ہی کیا۔مگر ناقدین کا دعوی ہے کہ اُن کے اقدامات 2020 کے امریکی صدارتی الیکشن میں سوشل میڈیا پوسٹوں کی بدولت آنے والی دشواریوں و مسائل کو حل نہیں کرسکے ۔انتخابی دھوکہ دہی کے جھوٹے یا گمراہ کن دعوے ٹویٹر، فیس بک اور یوٹیوب پر وائرل ہوتے رہے۔اس دوران امریکی صدارتی انتخابات سے متعلق غلط معلومات پھیلانے کو کم کرنے کے لیے سماجی میڈیا پلیٹ فارمز نے اپنے طور خصوصی اقدامات پر عمل درآمد بھی جاری رکھا ، یہاں تک کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئیٹ بھی چھپا دی ، کچھ پر خاص انتباہی لیبل بھی لگا دیا کہ یہ بات درست نہیں یا متنازعہ ہے۔یوٹیوب غلط طریقے سے ٹرمپ کی فتح کا اعلان کرنے والی ویڈیو کو بھی ہٹانے میں ناکام نظر آیا۔بہر حال ٹرمپ کو ہارنے پر بھی خوب شہرت ملی ، پیپلز پارٹی کے مشہور ترانے ’بجا تیر بجا ‘ پر ڈونلڈ ٹرمپ کے رقص کی ٹک ٹاک ویڈیو اور ایوان صدر سے باہر نکالنے والی ری میک ویڈیو وائرل رہی۔
مہنگائی کا سفر بدستور جاری ہے، سیاسی گہما گہمی گلگت بلتستان الیکشن کی وجہ سے عروج پر ہے ۔اس دوران الیکشن کمیشن نے پاکستان کے سینیٹرز و اراکین قومی اسمبلی کے اثاثہ جات کی لسٹ جاری کی تو سب سے غریب یا کم اثاثہ رکھنے والے رکن میں سراج الحق کی خبر چلی۔ جماعت اسلامی نے اس خبر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کریڈٹ پر موجود امانت و دیانت کی یاد دہانی سوشل میڈیا پر کرائی۔اسی طرح عمران خان کے اثاثوں میں کمی ہونے کا شور پی ٹی آئی نے مچایا ۔ناموس رسالت ؐ کا معاملہ ہمیشہ کی طرح اب صرف تحریک لبیک ہی اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔پورے ملک میں جہاں سیاسی ایشوز پر بات جاری ہے اور فرانس کہیں پیچھے چلا گیا ہے وہاں تحریک لبیک اپنے اساسی ایجنڈے کے ساتھ پورے ملک میں ہلچل مچا رہی ہے ۔ اس ہفتہ کوئی 12گھنٹہ طویل صبح 9بجے تا رات9بجے تک کا مارچ کراچی میں منعقد کیا ۔پالیسی کے تحت یہ سارا مارچ صرف سوشل میڈیا پر ہی جاری رہا اور اُس دن سے تحریک لبیک کی سوشل میڈیا ٹیم متحرک ہے ۔تمہیں سفیر نکالنا پڑیگا، فرنچ ایمبسیڈر سمیت کئی ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹوئیٹر پر وقفے وقفے سے ٹرینڈ بنانے میں اور مسلمانوں کو ناموس رسالت ؐ کے معاملے پر احساس ذمہ داری دلانے میں مگن ہیں۔
ایسے میں کشمور سے ایک اور دلخراش واقعہ سوشل میڈیا پر توجہ پا گیا۔ ایک ماں کو اُس کی ساڑھے 4 سالہ بیٹی کے ساتھ کراچی سے اغوا کیا گیا اور ماں کو آگے فروخت کر دیا گیا۔ماں کو خاموش رکھنے کے لیے ساڑھے چار سال کی بچی کو قبضہ میں رکھا گیااور مبینہ طور پر بچی کے ساتھ ہر طرح کی زیادتیاں کی گئیں۔کشمور پولیس نے معاملہ انجام تک پہنچایا اور مجرم رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اس ضمن میں مقامی پولیس کی خوب تعریف کی گئی ۔ اب اصل کام یہ ہے کہ مجرموں کو کسی طروح قانون سے چھوٹ نہ مل سکے ۔ اگر تو یہ مافیا ہے تو پیسہ پانی کی طرح بہاکر کیس کمزور کرے گی تاکہ کمزور تفتیشی رپورٹ سے مجرموں کو رہائی مل سکے ۔ اس لیے سماجی میڈیا پر تواتر سے شور مچانا فائدہ مند ہو سکتاہے ۔ویسے اس معاملے پر بھی مقامی سیاسی، دینی ،سماجی تنظیمیں خاموش ہی نظر آئیں۔
بھارت میں امسال کی دوسری خودکشی کی خبر بھی سوشل میڈیا کی زینت بنی رہی ۔53سالہ فلمی اداکار آصف بسرا نے نجی گیسٹ ہاؤس کے کمرے میں پھندا ڈال کر مبینہ طور پر خود کشی کر لی ۔ پولیس کی تحقیقات تادم تحریر جاری ہیں البتہ قرائن و ابتدائی رپورٹس خودکشی ہی بتا رہی ہیں۔اس سے بھارت میں تو آصف بسرا کا ٹرینڈ بن ہی گیا مگر مختلف وجوہات کے ساتھ پاکستان میں بالی ووڈ بھی بطور ٹرینڈ بن کر ابھرا۔ نوجوان فلمی اداکار سوشانت سنگھ کے بعد یہ دوسرا خود کشی یا مرڈر کیس بھارتی فلم انڈسٹری سے برآمد ہوکر موضوع گفتگو بنا رہا۔

حصہ