’’آخر کب تک تم اپنی صورت بگاڑ کر بیٹھے رہو گے! زہر لگ رہے ہو، اور اگر پانچ منٹ کے اندر تم نے اپنی شکل درست نہ کی تو میں چلا جائوںگا۔‘‘ شہزاد نے دھمکی آمیز لہجے میں ایان سے کہا، اور غور سے گھڑی کی سوئیوں کودیکھنے لگا۔ ’’چار منٹ رہ گئے…‘‘ ایک منٹ بعد اس نے آواز لگائی۔ ’’تین منٹ، دو منٹ…‘‘ اب کے اس نے بلند آواز میں کہا، اور اس سے پہلے کہ وہ ’’ایک منٹ‘‘ کہہ کر جانے کے لیے کھڑا ہوتا، ایان نے پاس پڑا کشن اس پر دے مارا۔ ’’اب یہ کس لیے بھئی…؟‘‘ شہزاد نے کشن کو مہارت سے کیچ کرتے ہوئے اپنی بغل میں دبایا۔
’’بکواس نہ کرو، تم کو معلوم ہے ناں میں کتنا پریشان ہوں؟‘‘ وہ چہرے کے تاثرات بہ مشکل نارمل کرتے ہوئے بولا۔ ’’ایسا لگتا ہے کہ ہوا میں معلق ہوں۔‘‘
’’تو میں تم کو زمین پر واپس لا تو رہا ہوں، تم کو فیصلہ کرنے میں مدد دے تو رہا ہوں۔‘‘ اب کے شہزاد نے بھی سنجیدگی سے کہا۔
’’لیکن میں فیصلہ نہیں کر پا رہا، بہت کڑا امتحان ہے یار! پوری زندگی کا معاملہ ہے۔ اُف…‘‘ وہ سر ہاتھوں میں ڈال کر بیٹھ گیا۔ کس دوراہے پر تھا وہ، یہ کوئی اس سے پوچھتا۔’’یااللہ میری مدد کر‘‘۔ ایان زیر لب بولا اور شہزاد اسے ہمدردی سے دیکھنے لگا۔
قسمت نے اسے کہاں لاکھڑا کیا تھا! وہ اچھی طرح اس کشمکش کو سمجھ رہا تھا جس سے آج کل ایان گزر رہا تھا، اور آج وہ اُسے ایک فیصلے کی جانب لانے کے لیے موجود تھا۔
…٭…
خدیجہ نے کوفتے اور پلائو کی ٹرے دستر خوان پر رکھی اور دونوں بچوں کو آواز لگائی ’’اب آ بھی جائو، کھانا لگ گیا۔‘‘ ایک نظر اس نے دستر خوان پر چُنے برتنوں کو دیکھا، پھر مطمئن انداز میں سر ہلایا اور بوتل سے گلاس میں پانی نکالا، اتنے میں سہیل اور عفرا بھی آچکے تھے۔
’’چلو بیٹا بسم اللہ کرو…‘‘ سعود نے بھی کہتے ہوئے اپنی پلیٹ میں چاول نکالے اور پھر اِدھر اُدھر کی بات چیت کے درمیان کھانا کھانے لگے۔ کھانے کے دوران خدیجہ سعود اور عفرا کے درمیان ہونے والی نوک جھونک پر زیر لب مسکراتی رہی۔ سعود اکلوتی بیٹی کے بہت لاڈ اٹھاتے تھے۔ اگرچہ اکلوتا تو سہیل بھی تھا لیکن عفرا کے مقابلے میں وہ زیرو ہوجاتا۔ عفرا تو باپ کی چہیتی تھی، بلکہ بقول سہیل کے ’’چمچی‘‘، اور بعض دفعہ تو خدیجہ کو بھی لگتا کہ عفرا وہ توتا ہے جس میں سعود کی جان بند ہے۔ عفرا کوئی فرمائش کرے یا ضد، بہت مجبوری کے سوا ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ سعود نے عفرا کی ضد کو رد کیا ہو یا کسی فرمائش کو ٹالا ہو۔ اور آج جو بات خدیجہ میاں سے کرنے لگی تھی اُس میں بھی عفرا کی ضد ہی رکاوٹ بنتی نظر آرہی تھی۔ لیکن آج خدیجہ نے تہیہ کرلیا تھا کہ وہ بھی میاں سے اپنی منوا کر رہے گی۔ کھانے کے بعد عفرا نے ماں کے ساتھ کھانے کے برتن سمیٹے اور پھر کچھ دیر بات چیت کے بعد دونوں اپنے کمروں کی طرف چل پڑے کہ امتحانات نزدیک تھے اور تیاری کرنی تھی۔ سہیل کھانے کے بعد اب اخبار دیکھ رہے تھے کہ خدیجہ نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا:
’’آج چند خواتین آئی تھیں اپنی عفرا کے لیے، مجھے تو لوگ بہت اچھے لگے، شریف سلجھے ہوئے، اپنے ہی برادری کے ہیں، اُن کی باتوں سے مجھے اندازہ ہورہا تھا کہ انہیں بھی عفرا پسند آئی ہے۔‘‘
’’ہوں…‘‘ سعود نے بے نیازی سے سنا اور اخبار کا صفحہ پلٹا۔
’’آپ سن رہے ہیں ناں… اب اگر یہ رشتہ آگیا اور اس میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ ہوئی تو یقین جانیں میں ہاں کردوں گی…‘‘ خدیجہ میاں کے توجہ نہ دینے پر تلملائی۔
’’میری اور عفرا کی مرضی کے بغیر…؟‘‘ انہوں نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔ ’’جی ہاں…‘‘ خدیجہ نے ناراضی سے اپنی بات چباکر کہا۔
’’ارے بھئی! آخر تمہیں اتنی جلدی کیا ہے! اس کو گریجویشن تو کرنے دو۔‘‘
’’بہت خوب، وہ تو کہتی ہے مجھے ماسٹرز کے بعد ایم فل کرنا ہے، پی ایچ ڈی کرنا ہے، تو کیا اس کی عمر ہم اسی طرح گنوا دیں!‘‘ خدیجہ نے منہ چڑھا لیا تھا۔ میاں کی ایسی طرف داری بیٹی کے لیے کبھی کبھی تو خدیجہ کو ناگوار گزرتی۔ لیکن اب وہ مزید اللہ کی ناشکری نہیں کرسکتی تھی۔ اس کے خاندان کی کتنی لڑکیاں عمر گزرنے کی وجہ سے یا اچھے رشتے کی آس میں والدین کی دہلیز پر ہی بیٹھی رہ گئی تھیں۔
اور پھر خدیجہ کی توقع کے عین مطابق اگلے ہفتے ہی راحیل کے والدین عفرا کا رشتہ لے آئے تھے۔ راحیل پڑھا لکھا، سمجھ دار لڑکا تھا۔ دوائیوں کی ایک کمپنی میں اچھے عہدے پر تھا، دین دارگھرانا تھا۔ خدیجہ کو بھی راحیل کی والدہ، بہنیں اور پھوپھی سے ملاقات کرکے دلی خوشی ہوئی تھی۔ وہ اپنی بیٹی کے لیے ایسے ہی نیک، سلجھے ہوئے لوگ چاہتی تھی۔ ایسے اچھے رشتے کو مسترد کرنا مناسب نہیں لگ رہا تھا اور دوسری طرف بیٹی کی مرضی بھی ضروری تھی۔ سعود اچھی خاصی مشکل میں گرفتار تھے کہ کریں تو کیا کریں!
بمشکل عفرا کو تیار کیا گیا کہ کم از کم منگنی کرلو، شادی تمہارے امتحان کے بعد کریں گے، لیکن اتنے اچھے رشتے کو انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک پڑھائی ہے وہ شادی کے بعد ممکن ہو تو مکمل کرلینا۔ آخر رو دھوکر عفرا منگنی پر راضی ہوگئی۔ سعود بھی بیٹی کی محبت میں خاموش تھے لیکن رشتے کو قبول کرنے کے وہ بھی خواہش مند تھے۔ اور یوں منگنی کی تاریخ طے ہوگئی۔ لیکن جب شادی کی تاریخ طے کرنے کا وقت آیا تو راحیل کی والدہ آٹھ ماہ انتظار کرنے کے حق میں نہ تھیں۔
’’عفرا کے امتحان ہوجائیں تو پھر ہم سکون سے شادی کریں گے، امتحان کے دوران وہ کیسے تیاری کرسکے گی؟ اور پھر میں نے اُس سے وعدہ بھی…‘‘ خدیجہ سٹپٹا گئی تھیں۔
’’اصل میں راحیل کے والد چاہتے ہیں کہ شادی کے فوراً بعد دونوں اسی سال حج پر بھی چلے جائیں، اب جب شادی ہم آٹھ ماہ بعد رکھیں گے اُس وقت تک تو حج درخواستیں بھی چلی جائیں گی، پھر بات اگلے سال پر جائے گی، اور میرے میاں چاہتے ہیں کہ یہ فرض بھی جلد ادا ہوجائے۔‘‘
راحیل کی والدہ ٹھیر ٹھیر کر بول رہی تھیں تو خدیجہ آنے والی صورتِ حال کو تصور میں لا رہی تھی کہ عفرا کا ردعمل اب کیا ہوگا؟ اور پھر وہی ہوا، عفرا تو سُن ہوکر رہ گئی، اس نے اپنی کتابیں اٹھاکر الماری میں رکھ دیں۔
’’بس آپ لوگ اب میری شادی اگلے مہینے ہی رکھ دیں، منگنی کی بھی ضرورت نہیں۔‘‘ باپ نے اس بات پر اگرچہ بیٹی کو گلے سے لگایا تو خدیجہ بھی نظریں چرا کر رہ گئی۔
’’بیٹا تمہارے امتحان کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن امتحان حج سے بڑھ کر تو نہیں ہوسکتے، اور پھر دیکھو یہ تو تمہاری خوش نصیبی ہے کہ تم اتنی کم عمری میں اس فرض کو بھی ادا کرلو گی، ورنہ لوگ تو بوڑھے ہوجاتے ہیں حج کی خواہش میں۔‘‘ سعود، بیٹی کو محبت سے آہستہ آہستہ تھپک رہے تھے۔ ’’میں راحیل سے وعدہ لوں گا کہ شادی کے بعد میری بیٹی کو امتحان ضرور دلوانے ہیں، تمہاری امی بھی راحیل کی والدہ سے کہہ دیں گی، اب خوش… بس موڈ ٹھیک کرو، دیکھو تم کو معلوم ہے ناں تمہاری اس ناراض صورت کو میں بالکل برداشت نہیں کرسکتا۔ اپنے بابا کا تو کہنا مانو گی ناں؟‘‘ سعود نے کچھ اتنے مان سے کہا کہ عفرا کو سر ہلاتے ہی بنی، اور پھر چار ماہ بعد ہی عفرا راحیل کے ساتھ اس کے آنگن میں خوشیاں بکھیرنے چلی آئی، لیکن وہ یہ نہ جانتی تھی کہ یہ خوشیاں بہت مختصر ہیں۔
شادی کے بعد نہ صرف عفرا اپنے سسرال والوں اور راحیل کے ساتھ خوش اور مطمئن زندگی گزار رہی تھی بلکہ عفرا کے چہرے پر آسودگی دیکھ کر سعود اور خدیجہ بھی سرشار تھے۔ پڑھائی مکمل نہ ہونے کا احساس راحیل کی خوشگوار سنگت میں تقریباً مٹ ہی چکا تھا، اور پھر راحیل کے ساتھ حج جیسی سعادت حاصل ہونا… عفرا کو ایسا محسوس ہوتا کہ اس نے بڑی قیمتی دولت پا لی۔ وہ راحیل کے ساتھ اپنی زندگی میں مگن تھی کہ ایک حادثے میں راحیل اس کا ساتھ چھوڑ گیا۔ نہ جانے اچانک کیا ہوا تھا۔ وہ تو ہنستا مسکراتا اسے الوداع کرکے گیا تھا کہ راستے میں اس کی آفس وین ایک ناگہانی حادثے کا شکار ہوگئی۔ چند اور لوگوں کے ساتھ راحیل بھی شدید زخمی ہوا تھا اور اسپتال پہنچنے تک اس کے جسم اور روح کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا۔
صدمہ نہ صرف بہت بڑا اور جانکاہ تھا بلکہ اچانک تھا۔ عفرا، راحیل کی والدہ، بہنیں اور عفرا کی امی سبھی کے لیے اس صدمے کو برداشت کرنا ناممکن ہورہا تھا۔ پھر سب سے بڑھ کر عفرا… اس کے لیے راحیل کی جدائی کی اذیت جھیلنا برداشت سے باہر تھا۔ کتنے ہی دن وہ اپنے حواس میں نہ رہی، اسے سکون آور ادویہ کے سہارے نیند کی وادیوں میں گم رکھا گیا۔ لیکن آخر کب تک! اس حقیقت کا سامنا تو کرنا ہی تھا۔ وہ جو راحیل کی سنگت میں مسرت کے ہنڈولوں میں جھول رہی تھی، منہ کے بل گری تھی، جس سے جسم کے ساتھ روح بھی چکنا چور ہوگئی تھی۔ دل تو چاہتا تھا کہ راحیل کے پاس ہی چلی جائے، لیکن یہ اس کے اختیار سے باہر تھا۔ اور پھر وقت جس کو سب سے بڑا مرہم کہتے ہیں، اُس نے بھی آہستہ آہستہ اپنا اثر دکھانا شروع کردیا تھا۔ وہ اب کھانے بھی لگی تھی اور پینے بھی۔ روتے روتے نیند بھی آجاتی۔ ماں، ساس، نندیں سبھی اپنا غم بھول کر ہر وقت اُس کی دل جوئی میں لگی رہتیں۔ ساس، نندیں ہر دوسرے، تیسرے دن اُس کے پاس آجاتی تھیں۔ عدت وہ میکے میں ہی گزار رہی تھی کیوں کہ گھر میں راحیل سے چھوٹے دو بھائی بھی موجود تھے۔ ایک جاب کرتا تھا اور دوسرا پڑھ رہا تھا، لیکن ان کو یہ احساس تھا کہ پردے کی وجہ سے عفرا ان کے گھر آرام سے نہیں رہ سکے گی۔ یوں انہوں نے اس کو عدت کے لیے میکہ تو بھیج دیا تھا لیکن ان کا ارادہ اس کو واپس اپنے گھر لانے کا تھا، مگر کیسے…؟‘‘
’’آپ نے کچھ سوچا ہے عفرا کے بارے میں؟ اس کی آئندہ زندگی کے بارے میں؟‘‘ راحیل کی والدہ انیسہ بیگم اپنے شوہر ضمیر صاحب سے پوچھ رہی تھیں جو کسی کتاب کا مطالعہ کررہے تھے۔
’’ہوں…‘‘ وہ چونکے ’’عفرا کے بارے میں اب ہم کیا سوچیں گے! اس کے والدین سوچیں گے۔ ہماری وہ بہو تھی، بیٹے کے جانے کے بعد وہ رشتہ بھی…‘‘ مرحوم بیٹے کا مسکراتا چہرہ ان کی نظروں کے آگے آگیا تھا۔ ویسے بھی جوان بیٹا اتنی جلدی تو نہیں بھلایا جاسکتا تھا۔
’’خیر ممکن تو ہے، بہو کا رشتہ ایک دفعہ پھر قائم ہوسکتا ہے۔‘‘ وہ معنی خیزی سے بولیں۔ ’’کیا مطلب؟ کیا کہنا چاہتی ہو؟ تمہارا مطلب کہیں…‘‘ ضمیر صاحب ہاتھ سے کتاب رکھ کر اب حیران نظروں سے بیوی کو دیکھ رہے تھے۔
’’جی میرا مطلب وہی ہے، عفرا بحیثیت بہو ہمارے گھر کے لیے بہت اچھی ثابت ہوئی تھی، ہمیں اس سے اس ایک سال میں کوئی شکایت نہیں ہوئی، یہ ایک اتفاق ہے کہ اس دوران اولاد کا سلسلہ بھی نہیں چلا، شاید اس میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت ہوگی، اسی لیے میں چاہتی ہوں کہ عفرا کو ایان کی دلہن بنا لوں۔‘‘ انہوں نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
’’کیا ایان سے بات کی؟ وہ راضی ہے؟ اور عفرا کے والدین، وہ…!‘‘
’’ابھی تو میں آپ سے مشورہ کررہی ہوں، اگر آپ تیار ہیں تو ایان سے بات کروں گی، اور جہاں تک عفرا کے والدین کا تعلق ہے تو اُن سے بھی بات کی جائے گی، میرے خیال سے انہیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے، انہیں تو خوشی ہوگی کہ بیٹی کا گھر پھر بس رہا ہے۔‘‘
’’تم سوچ سمجھ لو، مجھے تو کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ میاں کی اجازت کے بعد اب مرحلہ بیٹے سے بات کرنے کا تھا، اور ایان سے بات کی تو وہ کتنی ہی دیر متحیر نظروں سے ماں کو دیکھتا رہا۔
’’امی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں! میں بھابھی سے…‘‘
’’بیٹا! تم اچھی طرح سوچ سمجھ لو، تم پر کوئی زبردستی نہیں، تمہیں مکمل اجازت ہے کہ اپنی مرضی سے فیصلہ کرو، میں تو بس یہ چاہتی ہوں کہ عفرا کا گھر پھر بس جائے۔ اتنی پیاری بچی ہے وہ، اسے زندگی کی خوشیاں دوبارہ مل جائیں، تو کیوں ناں یہ خوشیاں ایک دفعہ پھر ہمارے توسط سے ہی اُسے ملیں! تم اپنے فیصلے میں آزاد ہو، ابھی اس کی عدت ختم ہوئی ہے، کوئی ایسی جلدی تو نہیں، لیکن تم ہفتہ دس دن میں مجھے اپنی مرضی سے آگاہ کردینا۔‘‘ امی متانت سے کہہ کر اس کا کندھا تھپکتی کمرے سے چلی گئیں اور ایان کو ایک عجیب مخمصے میں مبتلا کر گئیں۔
اور اس کے بعد ایان کے لیے یہ وقت زندگی کا سب سے کٹھن وقت تھا، وہ جب عفرا سے شادی کے بارے میں سوچتا تو کھٹ سے پیارے بھائی کی شکل آنکھوں کے سامنے آجاتی اور ساتھ ہی سجی بنی عفرا جو راحیل کے ساتھ تو اچھی لگتی تھی لیکن اب کیا وہ بھی ایان کو دیور کے بجائے شوہر کا مقام دل سے دے سکے گی؟ یہ ایک انتہائی مشکل اور سخت سوال تھا، اور اس کا جواب ایان دے نہیں پارہا تھا۔ جب ہی اس نے اپنے عزیز دوست شہزاد کی مدد لی تھی کہ وہی اس مسئلے کو سلجھانے میں اس کی مدد کرے، اور شہزاد کے نزدیک تو یہ بہترین حل تھا۔
’’یار! آنٹی نے تو بہت ہی بہترین سلوشن نکالا ہے، تم کو ایک اچھی اور نیک سیرت بیوی، اور اُن کو اپنی بہو واپس مل جائے گی، ساتھ ایک بیوہ کو زندگی کی خوشیاں جو اچانک اُس سے چھن گئی تھیں، وہ واپس مل جائیں گی، سمجھو تم سب کو اپنی گم گشتہ جنت مل رہی ہے۔‘‘ شہزاد کچھ زیادہ ہی بول گیا تھا۔
’’لیکن یار… ہمارے درمیان پچھلے ایک سال سے جو رشتہ تھا اب اس کی حیثیت مختلف ہوگی، کیا میں یا وہ ایک دوسرے کو دل سے وہ مقام دے سکیں گے؟‘‘ ایان پھر الجھا۔
’’دیکھو یہ وقت جو ہے ناں، اگرچہ دکھائی نہیں دیتا لیکن ’’دکھا‘‘ بہت کچھ دیتا ہے۔ یہ بھی وقت اور حالات کا تقاضا ہے، جب تم لوگ ایک رشتے میں بندھو گے تو خودبخود احساسات تبدیل ہوں گے، اور ایسی بہت سی مثالیں ہمارے درمیان موجود ہوتی ہیں جو کامیاب بھی ہوتی ہیں۔ اس نئے رشتے کی کامیابی کا انحصار مکمل طور پر تمہارے رویّے پر ہوگا، تم محبت اور عزت دوگے تو لڑکیاں تو ویسے بھی نرم مٹی سے بنی ہوتی ہیں وہ اپنے آپ کو اسی سانچے میں ڈھال لیتی ہیں، اور ویسے بھی تمہارے بھائی کی شادی صرف ایک سال ہی قائم رہی، لہٰذا اس مختصر عرصے کی یادیں بھلانے میں، میرے خیال سے زیادہ وقت درکار نہ ہوگا۔‘‘ شہزاد کی باتیں ایان بڑی توجہ اور غور سے سن رہا تھا، اور پھر چند دن کے سوچ بچار کے بعد اس نے ماں کے فیصلے کے آگے گردن جھکا دی ’’اگر قسمت میں یہی ہے تو یونہی سہی‘‘۔
…٭…
اب اس تجویز کو عفرا کے والدین کے آگے رکھا گیا تو چند لمحوں کے لیے وہ بھی گنگ ہوگئے۔ ’’عفرا نہ جانے مانے یا…؟‘‘ سعود صاحب پس و پیش کرکے بولے۔
’’اس کا انحصار اب آپ لوگوں پر ہے، ہم تو اپنی بہو کو واپس اُس کے اپنے گھر لانا چاہتے ہیں۔‘‘ راحیل کی والدہ، خدیجہ کی خاموشی کو دیکھ کر بولیں۔
’’میں آپ کی اس محبت، پیار اور خلوص کی قدر کرتی ہوں کہ آپ ایک دفعہ پھر میری بیٹی کو اپنی بہو بنانا چاہتی ہیں، لیکن میں عفرا کی رضامندی کو بھی مدنظر رکھوں گی۔‘‘ خدیجہ نے فیصلہ بیٹی کے اوپر چھوڑ دیا تھا، لیکن انہیں یہ بھی یقین تھا کہ ان کی بیٹی انہیں مایوس نہ کرے گی۔ اور ایک دفعہ پھر خدیجہ نے اس کی ساس کے سوالی بن کر آنے کا مدعا بیٹی کے سامنے رکھا۔
’’میری بیٹی! انکار کرنے سے پہلے سوچ لینا کہ ایسے قدردان، بے لوث اور محبت کرنے والے لوگ اب دنیا میں بس خال خال ہی رہ گئے ہیں۔‘‘ عفرا آنسو بھرے چہرے کو گھٹنوں پر رکھتے ہوئے تھکے تھکے انداز میں سوچ میں ڈوب گئی تھی۔ ’’امی! ابھی تو راحیل کا غم تازہ ہے، پلیز آپ لوگ ابھی مجھے ڈسٹرب نہ کریں۔‘‘
’’ہم تمہیں اس غم سے ہی تو نکالنا چاہتے ہیں، یہ تنہائی اور سوچیں تم کو بیمار کردیں گی، ہم چاہتے ہیں تم ایک دفعہ پھر زندگی کی خوشیوں کو حاصل کرو‘‘۔ اور والدین کے اصرار کے آگے عفرا ایک دفعہ پھر مجبور ہوگئی تھی، اس نے راحیل کی یادوں کے ایک کونے میں محفوظ کرتے ہوئے ہامی بھر لی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی انسان کا نصیب اسے کیا کیا دکھا دیتا ہے۔