انسان میں کئی طرح کی محبتیں بھردی گئی ہیں، خود سے لے کر اپنی اولاد اور پھر مال تک وہ تمام محبتیں ہیں جو ہر کسی میں موجود ہیں۔ اس کے بعد اگلا درجہ ہے اپنے ساتھ کے رشتوں سے محبت کرنا اور پھر اس سے محبت کرنا جو دکھائی نہ دے۔ ان تمام اقسام کی محبتوں کے معیارات اور درجے بھی الگ ہیں، مگر ان سب پر جو محبت فوقیت رکھتی ہے وہ اس ذات کی ہے جس نے انسان کو بنایا پھر ا س کے بھیجے ہوئے پیغام دینے والے سے محبت کرنا اور اس کے پیغام سے محبت کرنا۔
سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہی سب سے زیادہ محبت کیوں کی جائے؟ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کیوں ضروری ہے؟ اگر ہم کائنات اور کائنات میں موجود چیزوں کو دیکھے تو ہمیں اس کے بنانے والا کا خیال آتا ہے کہ یہ سب چیزیں کس نے بنائی اتنا منظم نظام کائنات کا کون چلا رہا ہے کوئی ایسی ہستی موجود ہے جو اس نظام کو چلا رہی ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور ہم اس کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرسکتے، بے شمار احسان ہم پر ہیں ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اسے نظر انداز نہیں کرسکتے کوئی ہم پر جب احسان کرتا ہے تو ہم اس کے ساری زندگی احسان مند رہتے ہے تو اس ہستی کے ہم شکر گزار اور احسان مند کیوں نہ ہو اور اس سے محبت کیوں نہ کی جائے جس کے ہم پر بے شمار احسانات ہے ہمارا وجود اس کی مثال ہے ۔ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اور اللہ کے احسانات کو گننا چاہو تو تم نہ گن سکو گے۔‘‘ (ابرہیم)
محبت کو دیکھا جائے تو وہ دو طرح کی ہوتی ہے ایک محبت حسی و جبلی ہوتی ہے۔ جیسے ماں کو اپنے بچے سے ہوتی ہے اور ایسی محبت جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے اور ایک محبت عقل کی بنیاد پر ہوتی ہے جو انسان کے ساتھ خاص ہوتی ہے جو عقل کی رہنمائی فرماتی ہے ۔ مومن کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ صرف اللہ کی ذات سے محبت ہونی چاہیے ۔ ارشاد ربانی ہے، ’’وہ لوگ جو ایمان لائے وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں‘‘ (البقرہ)
اللہ نے ہمارے اوپر بے شمار احسانات کیے ہیں جن کو گنا نہ ممکن ہے، مگر کچھ احسانات وہ ہیں جن کو دیکھ کر ہمیں محسوس ہوگا کہ اللہ سے سب سے زیادہ محبت کیوں کی جائے۔ اس نے ہمیں زندگی جیسی انمول نعمت عطا کی، ہمیں عقل و شعور عطا کیا جو ہمیں دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے، زندگی کے ساتھ ساتھ اس زمین میں رہنے کے تمام اسباب عطا کیے، خلافت ارضی عطا کی، ہماری رہنمائی کے لیے انبیاء کرام اور پیغمبر اور رسول بھیجے، ہم پر اپنے پیارے نبی (صلی علیہ وآلہ وسلم)کے ذریعے اپنی آسمانی کتاب بھیجی جو نہ صرف دنیا میں ہماری رہنمائی کریں گی بلکہ اخرت میں بھی ہماری شفاعت کا ذریعہ بنے گی، وہ مشکلات میں ہماری مدد کرتا ہے ہماری فریاد سنتا ہے اور ہمیں بے سہارا نہیں چھوڑتا ، وہ ہمارے حق میں بہت مہربان اور سدا رحم کرنے والا معاف کرنے والا ہمارے گناہوں پر پردہ پوشی کرنے والا ہماری توبہ قبول کرنے والا ہے۔
ان احسانات کا مطلب ہے کہ ہم بھی اللہ سے محبت کریں، اس کے بتائے ہوئے طریقوں پر زندگی گزاریں ، اس کی بندگی کے حقوق کو ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کے کچھ طریقے وتقاضے ہیں ایسی چیزیں جو اس کو نا پسند ہے اسے نہیں کرنا چاہیے جو اسے پسند ہے اس پر عمل کرنا چاہیے اسی طرح ہم اس کی محبت کے مستحق بن سکتے ہیں ۔
جس سے محبت کی جاتی ہے اس کی پسند اور نا پسند کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اللہ کی محبت کا یہ تقاضا ہے جو چیز اسے نا پسند ہے اسے نہیں اختیار کرنا چاہیے جو پسند ہے اسے اختیار کرنا چاہیے جیسے کہ اللہ کو جو چیزیں نہ پسند ہے چند یہ ہیں۔ہمیں صرف اللہ ہی کی عبادت کرنی چاہیے شرک نہیں کرنا چاہیے اور ہر قسم کے شرک سے بچنا چاہیے کیونکہ شرک ایک ایسا عمل ہے جو اللہ کو انتہائی نا پسند ہے۔ اس کی بابت اللہ پاک نے قرآن میں ارشاد فرمایا ’’آپ (صلی علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہوتو میری اتباع کرو پھر اللہ تم سے محبت کریں گا‘‘۔
اللہ کی محبت کیسے حاصل کی جاسکتی ہے، اس کی ہمیں قرآن سے بہتر رہنمائی ملتی ہے۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا،
’’بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔
’’بے شک اللہ تقویٰ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔
’’بے شک اللہ پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔
’’بے شک اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔
اور کچھ اخلاق ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا جیسے کہ
’’’ بے شک اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا’‘‘
’’ بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘
’’بے شک فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘
مختصراً ہم یوں کہہ سکتے ہیں ہمیں وہ اخلاق اپنانے چاہیے جس سے ہم اللہ کی محبت کی مستحق بن سکتے ہے جیسے اللہ پسند فرماتا ہے اور ان اخلاق کو ترک کرنا چاہیے جو اللہ کو نا پسند ہے اس طرح ہم اللہ کی محبت حاصل کرسکتے ہے ایک مومن ہونے کی حیثیت ہمیں ان تمام معاملات پر عمل کرنا چاہیے ہم عارضی محبت کی خاطر وہ کام کرتے ہیں جو کہ کسی کام کے نہیں اور ایک ایسی محبت جو دائمی ہے ہمارے لیے نجات کا باعث ہے دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کرسکتے ہے اس پر عمل کرنا چاہیے اور صحیح حقدار سے محبت کرنی چاہیے اس کی باتوں احکامات پر عمل کرنا چاہیے جو ہمیں بن مانگے عطا کرتا ہے اور ہم پر اپنا رحم و کرم کرتا ہے۔