اقبال کی شاعری کے فکری مباحث

1400

۔’’شاعر نہ فلسفی ہوتا ہے اور نہ نظریہ ساز۔ شاعری دنیا، عام علوم یا انسانی تجربوں یا اقدار کے بارے میں وہ باضابطہ مواد بھی فراہم نہیں کرتی جو فلسفے یا سماجی علوم سے حاصل کیا جاتا ہے، کیونکہ شاعری اساسی طور پر اس استدلال سے عاری ہوتی ہے جس کے بغیر کسی فلسفیانہ اور علمی تصور کو ثبات نہیں ملتا۔ شاعری کسی مخصوص انسانی صورتِ حال کے بارے میں بتاتی نہیں بلکہ اس کا انکشاف کرتی ہے، اور اس طرح معنی کے ایک انوکھے نقش کو منور کرتی ہے۔‘‘ (شمیم حنفی)۔

اقبال کی شاعری کو اُن کے زمانے سے لے کر تاحال ایک خاص نقطۂ فکر کے حوالے سے پڑھنے اور سمجھنے کی روایت عام رہی ہے، جو اس اعتبار سے غلط نہیں کہ اُس میں یقینا ایک مربوط نظامِ فکر کو سرچشمۂ تخلیق کی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ اقبال کی شاعری کی بڑائی اس بات میں مضمر ہے کہ اُس میں ایک خاص نظامِ فکر کی توسیع نمایاں ہے تو یہاں بعض سوالات نہ چاہتے ہوئے بھی اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ کیا شاعری میں نظامِ فکر کا ہونا ضروری ہے؟ یا پھر یہ سوال کہ وہ نظامِ فکر حیات و کائنات کے کس شعبے سے متعلق ہو جس کی بنیاد پر کوئی شاعری اپنے تخلیقی مدارج طے کرکے پایۂ عظمت تک پہنچ سکتی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ شاعری کا فکر سے رشتہ ہے لیکن یہ رشتہ اُس وقت تک گہرا نہیں ہوسکتا جب تک کہ فکر اشیاء سے مربوط ہوکر تخیل کی سطح پر انکشاف کرنے کی حامل نہ بن جائے۔ شاعری میں انکشاف کی یہ سطح اتنی واضح ہوتی ہے کہ اس پر انسانی تجربے، مشاہدے یا جذبے کا گمان یقین کی حد تک ممکن ہوتا نظر آتا ہے۔ شاعری میں اس قسم کی فکری شمولیت کی باقاعدہ ابتدا غالب سے ہوتی ہے۔ اس لیے غالب کی شاعری کا ایک بڑا اور توانا حصہ اُن اشعار پر مشتمل ہے جن میں فکر پہلے تو اشیاء میں منتقل ہوتی ہے اور پھر اشیاء تخیلی سطح پر انکشاف کا ذریعہ بنتی ہیں۔ مثلاً

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

پہلا مصرع محض ایک بیان ہے اور اس بیان کا بنیادی نکتہ ویرانی سے متعلق ہے۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ویرانی کوئی ٹھوس شے نہیں بلکہ کسی ٹھوس شے (دشت) کی صفاتی فکر یا تصور کا نام ہے۔ دوسرے مصرعے میں ویرانی کا یہی تصور دشت اور گھر کی ٹھوس معروضات میں منتقل ہوکر یہ انکشاف کرتا ہے کہ دشت کے مقابلے میں گھر کی ویرانی کہیں زیادہ ہے۔ رائج مفروضات کو مسترد کرنے یا بدلنے کا رویہ غالب کی شاعری میں انکشافی سطح پر کسی کاہن یا جوگی کا سا کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔ کوئی شاعری جب اس قسم کا کام انجام دینے کی اہل ہوجاتی ہے تو وہ اُن اقدار سے بھی مزین ہوجاتی ہے جن کا براہِ راست تعلق فن کے عالم سے ہوتا ہے، اور پھر یہ دیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ اس کا نظام فکر حیات و کائنات کے کس شعبے سے متعلق ہے۔ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ اس نوع کا شعری وظیفہ کسی فکر یا فلسفے کو تخلیقی تقلب کے بعد اسے راہبانہ انکشاف کا اہل بنادیتا ہے جو بجائے خود اپنی فنی قدروں کا موجد بھی ہوتا ہے اور محافظ بھی۔
غالب کے بعد اقبال اردو کے واحد بڑے شاعر ہیں جن کی شاعری انکشاف سے عبارت ہے۔ ان کے یہاں انکشاف کا دائرہ اس لیے اتنا وسیع ہے کہ اس میں فلسفہ اپنی تمام تر تقلیبی منزلوں کو طے کرکے جذبے سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے:۔

عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں
……
تیرے بھی صنم خانے میرے بھی صنم خانے
دونوں کے صنم خاکی دونوں کے صنم فانی
……
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

اقبال کے یہ تمام اشعار اپنی فلسفیانہ بنیادوں پر قائم ہیں۔ وہ فلسفے جن سے اقبال کو فطری نسبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں فلسفہ جذبے سے ہم آہنگ ہوکر انکشاف کی وہ سطح دریافت کرلیتا ہے، جہاں نوائے فکر نوائے فقر میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ پہلا شعر عقل و دل کے مابین ہونے والے تصادم کے نتیجے میں برآمد ہونے والی حقیقت کا تحیر انگیز عرفان ہے۔ انسانی صفات میں ایک اہم صفت عقل ہے لیکن اُس کی قوت اپنی حدوں سے اُس وقت تک متجاوز نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس میں دل یعنی عشق کی حدت شامل نہ ہوجائے۔ عقل جب عشق سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے تو پھر حقیقت بھی وہ حقیقت نہیں رہتی جو بظاہر زمین و آسمان کی بیکرانی سے مخصوص معلوم ہوتی ہے۔ عقل پر عشق کی مغلوبیت انسان کے اندر جہانِ مخفی کی دیدنی کا سبب بن جاتی ہے۔ اس منزل پر پہنچ کر انسان اُن حقائق کا معارف بن جاتا ہے جو زمین و آسمان کی بیکرانی سے ماورا ہوتی ہے۔ دوسرے شعر میں ’’صنم خانے‘‘کی عارضیت کا نکتہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں صنم خانہ دنیا کا استعارہ ہے۔ چونکہ صنم خانے کا تعلق پرستش سے ہے، اس لیے یہاں اُن لوگوں پر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے جو دنیا اور دنیوی تعیش کی پرستش کرتے ہیں۔ جس کی اصل حقیقت حبابِ ناتواں سے زیادہ نہیں۔ مطلب یہ کہ دنیا جو اپنی نوعیت و ماہیت میں خالصتاً مادی واقع ہوئی ہے، ایک نہ ایک دن فنا ہوجائے گی۔ لہٰذا ایسے صنم خانوں کی عبادت سے کیا فائدہ جن کو بقائے دوام حاصل نہیں۔ بقائے دوام تو اُن چیزوں کو حاصل ہے جن کی تعمیر میں جذبۂ عشق کارفرما ہو۔ مادی یا خاکی چیزیں جسمانی سکون کا ذریعہ تو بن سکتی ہیں لیکن روحانی فرحت کا سامان بہم پہنچانا اُن کے بس میں نہیں۔ تیسرے شعر میں حیات اور خودی کے متعلق سوالیہ نشان قائم کرکے اُن کی بقا اور جِلا بخشی کی سبیل کو جواب کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ خیال و نظر کا کسی شے میں جذب ہوجانا شاعر کے نزدیک زندگی سے عبارت ہے۔ خیال کا تعلق ذہن و دل سے ہے اور نظر کا رشتہ مظاہرِ فطرت سے ہے۔ مظاہرِ فطرت میں حسنِ کائنات سے لے کر حسنِ زن تک حسین چیزوں کا ایک لامتناہی سلسلہ قائم ہے جو نگاہوں کے لیے سامانِ دید ہوتا ہے۔ لیکن یہ سامانِ دید اُس وقت تک زندگی کے ظہور کا وسیلہ نہیں بنتا جب تک کہ اُن میں نظر جذب نہ ہوجائے۔ کسی شے میں نظر کی انجذابی، خیال کی انجذابی ہے جو خودی کی شکل میں زندگی کا عرفان ثابت ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ شے میں نظر کی انجذابی زندگی کا ظہور ہے اور اُس کا انتشار خودی کی موت۔ لہٰذا انسان یا عاشق کو چاہیے کہ وہ کسی ایک شے یا خیال میں خود کو اس وارفتگی کے ساتھ مستغرق کردے کہ اُس کا اصل مقصود و مطلوب مل جائے۔ چوتھا شعر مغرب و مشرق کے اُس تقابل پر استوار ہے جو مغربی علوم پر مشرقی علوم کی برتری کو ثابت کرتا ہے۔ یہاں ’’دانشِ فرنگ‘‘ مغربی فلسفے کا استعارہ ہے جس کی بنیاد عقل و منطق پر قائم ہے۔ جب کہ ’’مدینہ و نجف‘‘ نہ صرف یہ کہ مشرق کے مقدس مقامات ہیں بلکہ عشق اور علم کی علامت بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر مغرب و مشرق کی تمام علمی اور عقلی جلوہ سامانیوں سے ہم آہنگ ہونے کے باوجود اُس مقام تک نہیں پہنچتا جہاں اُس کی آنکھیں چکا چوند ہوجائیں۔ یعنی یہ کہ مغربی علوم اپنی تمام تر کشش کے باوجود چشمِ شاعر کو خیرہ کرنے سے قاصر ہیں تو اس لیے کہ اُس میں مدینہ و نجف کا علمی نور و سرور موجود ہے، جس کی بنیاد مغربی معلوم کے برعکس عشقِ صادق پر قائم ہے۔ شعر میں یہ جذبہ بھی شدت کے ساتھ موجود ہے کہ وہ قوم مغربی یا نوآبادیاتی فکر و فلسفے کی ظاہری چمک دمک سے متاثر ہوکر اس میں خود کو کبھی غرق نہیں کرسکتی جس کی جڑیں اپنی مذہبی، علمی اور تہذیبی اقدار میں نہایت مضبوطی سے پیوست ہوں اور جس کے دینی خطے میں مدینۃ العلم آباد ہو۔ مذکورہ اشعار اس لحاظ سے اہمیت کے حامل نہیں ٹھیرتے کہ ان کی بنیادیں فلسفے پر قائم ہیں، بلکہ ان کی بڑائی فکر کے اس تجسیمی رویّے میں پوشیدہ ہے جو زمین و آسمان، مدینہ و نجف، صنم خانہ وغیرہ کے تلازمات سے ہم آہنگ ہوکر ایک ایسے استعاراتی نظام کے ظہور کا وسیلہ بن گئے ہیں جہاں فلسفہ، فلسفہ نہ رہ کر احساس کا متبادل بن گیا ہے۔ اس لیے یہاں ان قدروں کی نشان دہی مشکل نہیں جو فلسفے کو شاعری بناتی ہیں۔ رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے:۔
’’اقبال نے ہمارے جذبۂ تخیل اور فکر کو جس خوبی سے غیر معمولی حد تک متاثر کیا وہ ان کا فلسفہ نہیں ہے، ان کی شاعری ہے۔ اس میں جہاں کہیں تنوع یا تضاد ملتا ہے وہ اس کا ثبوت ہے، تنوع یا تضاد شاعری کا حسن یا مزاج ہے اور فلسفے کا نقص یا نارسائی۔‘‘
رشید صاحب کے اقتباس سے اس بات کی تصدیق تو ہوجاتی ہے کہ اقبال کی شاعری کو اس کا جذبی اور کشفی کمال ہی بڑا بناتا ہے، نہ کہ اس کی فلسفیانہ یا فکری بنیادیں۔ لیکن اس سوال کا کوئی تشفی بخش نہیں ملتا کہ ان کے یہاں اس نوع کی کشفی کیفیت کس چیز سے پیدا ہوتی ہے جو جذبۂ تخیل کو غیرمعمولی حد تک متاثر کرتی نظر آتی ہے۔ دراصل وہ چیز اقبال کا فلسفیانہ شعور ہے جو جذب کے مرحلے سے گزر کر کشف کی منزل میں پہنچ جاتا ہے۔ اس لیے یہ شاعری پہلے ان اقدار کے حوالے سے پڑھے جانے کی متقاضی ٹھیرتی ہے جنہیں بڑی شاعری کا اساسی اختصاص سمجھاگیا ہے، اور پھر ان حوالہ جات کی طلبگار ہوتی ہے جو فلسفے کے عالم سے برآمد ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی شاعری کو اس کی فلسفیانہ بنیادوں سے کاٹ کر کلی طور پر پڑھنے اور سمجھنے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ اور نہ ہی فلسفے کو اس کی عظمت کی واحد وجہ ٹھیرایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا دیکھنے کی بات یہ رہ جاتی ہے کہ اقبال کے یہاں وہ کون سا فلسفیانہ شعور ہے جو وجدان و تخیل سے ہم آہنگ ہوکر شاعری بن جاتا ہے۔ ایک ایسی شاعری جس کا رنگ دلبرانہ اور آہنگ موسیقانہ ’’دامنِ دل می کشید‘‘ کا مسبوب ٹھیرتا ہے۔ اس میں کیا شک کہ اقبال کے یہاں قرآن و احادیث کی تعلیمات کے علاوہ مغرب و مشرق کے وہ تمام فلسفے موجود ہیں جنہوں نے اقبال کی فکری تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی شاعری کے فلسفیانہ مباحث میں یہ بات بار بار دہرائی جاتی رہی ہے کہ ان کے یہاں مولانا روم، مجدد الف ثانی، نطشے اور برگساں وغیرہ کے نظریات کا گہرا اثر ہے، لیکن اس بات میں کم دلچسپی لی گئی کہ ان کے یہاں اس نوع کو اثر پذیری کیوں ہے اور یہ نظریات کن عوامل سے گزر کر شاعری بنے ہیں۔ یہاں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اقبال پہلے شاعر ہیں پھر فلسفی۔ اس لیے ان کی شاعری پہلے فنی قدروں کے حوالے سے پڑھی جانے کی مستحق ہے پھر کسی دوسرے حوالے سے۔ تخلیقی سطح پر کوئی بھی فلسفہ یا نظریہ اُس وقت تک قابلِ قدر نہیں سمجھا جاتا جب تک کہ وہ وجدان کا حصہ نہ بن جائے۔ فلسفے کی کورانہ تقلید الگ چیز ہے اور اس کا تخلیقی استعمال الگ۔ اقبال کے یہاں فلسفے کا تخلیقی استعمال موجود ہے اس لیے ان کی شاعری فن کے اعلیٰ منصب پر فائز ہے۔ اگر اقبال کی شاعری کے فلسفیانہ نظام پر ایک غائر نظر ڈالی جائے تو اس حقیقت تک پہنچنا دشوار نہیں کہ ان کے یہاں وہی فلسفے کسی نہ کسی طرح اثرانداز ہوئے ہیں جن میں تحرک کی قوت موجود ہے۔ مولانا روم کی مثنوی ہو یا مجدد الف ثانی کا شہودی فلسفہ… نطشے کا فوق البشر ہو یا برگساں کا تصورِ وقت… ان سب کی مشترک صفت تحرک ہے۔ اگر صرف فلسفے سے شغف ہی اقبال کی بنیادی جبلت ٹھیرتا تو ان کے یہاں ان فلسفیوں کی نشان دہی بھی ضرور ہوتی جن کا فلسفہ یاس و قنوطیت سے عبارت رہا ہے۔
فلسفے کے متعلق Thales کے زمانے سے لے کر آج تک یہ بات قولِ فیصل کا درجہ رکھتی ہے کہ یہ استدلالی طور پر عالمِ موجودات کا مطالعہ ہے جس کی سطح معروضی بھی ہوسکتی ہے اور موضوعی بھی۔ چونکہ فلسفے کی ابتدا استفسار اور تفتیش سے ہوتی ہے، اور اختتام حقیقت کی دریافت پر… اس لیے جرمن فلسفی Stumpft اُسے استفہامی علم یعنی Question Science کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ اقبال کی شاعری میں یہی استفہامی علم خصوصیت کا حامل ٹھیرتا ہے جو مغرب و مشرق کی فلسفیانہ روایت سے قطع نظر خود ایک روایت کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اور جس کی بنیاد عقل و منطق پر قائم نہیں بلکہ وجدان و انکشاف پر استوار ہے۔

حصہ