روحانیت کی قرآنی تعبیرات

462

دوسرا اور آخری حصہ

سید مودودیؒ اجتماع عام سے 1963 میں خطاب فرما رہے ہیں۔ غنڈوں اور بدمعاشوںنے اجتماع گاہ پر حملہ کر دیا۔ گولی چلا دی‘ ایک ہنگامہ برپا ہوگیا‘ ایک کارکن اللہ بخش شہید ہوگئے‘ قاتل نے اسٹیج کی طرف پستول تان لی۔ ایسے موقع پر کسی نے کہا ’’مولانا بیٹھ جائیں‘‘ تو اس وقت مولانا نے کمال اطمینان سے کہا کہ ’’اگر اس وقت میں بیٹھ گیا تو اجتماع گاہ میں کھڑا کون رہے گا۔‘‘
یہ جملہ صرف وہ شخص اس ماحول میں کہہ سکتا ہے جس کے اوپر اللہ نے سکینت نازل کی ہو ورنہ جان بچانا ہر جاندار کی فطرت کا حصہ ہے اور وہ اس حال کے مطابق ردعمل دیتا ہے۔
تیسری اصطلاح ہے فرقان: ’’فرقان‘‘ فرق کرنے کی صلاحیت کو کہتے ہیں۔
فرقان ایک Judgement کی صلاحیت کو کہتے ہیں‘ کسوٹی کی صلاحیت کو کہتے ہیں جس پر گھِس کر سونے کے خالص یا نا خالص ہونے کی تحقیق ہوتی ہے‘ جو کسوٹی کی صلاحیت ہے وہ فرقان ہے۔
ایک بندہ مومن کو اگر فرقان مل جائے تو وہ یہ بتا دیتا ہے کہ یہ جو سوال میرے سامنے آیا ہے یہ اسلام کے دائرے کے اندر ہے یا اسلام کے خطوط اور حدود سے باہر ہے۔ یہ اسلام کی فطرت کے مطابق اور اس کے مکمل فریم میں فٹ ہو سکتا ہے یا مس فٹ ہے اور غیر فطری اور غیر اسلامی۔
یہ قرآن جو نازل کیا گیا ہے یہ اس لیے بھی ہے کہ آپ کو فرقان دے دیا جائے۔ کچھ اصول کتاب اور حدیث میں بتا دیے گئے ‘ زمانے کے آگے بڑھنے کے ساتھ جو مسائل آئیں گے اور اگر ان کا حل قرآن و حدیث میں نہ ملے تو اس کا حل فرقان میں تلاش کیا جائے گا۔ ’’جو جتنا قرآن میں غوطہ زنی کرے گا اتنا ہی فرقان اس کے ہاتھ آئے گا۔‘‘ امام شافعیؒ فرماتے ہیں ایک مسئلے کے حل کے لیے میں نے تین سو مرتبہ قرآن مکمل پڑھا لیکن حل نہ ملا۔ جب 301 ویں مرتبہ پڑھا تو وہ حل ایک آیت کی صورت میں سامنے آگیا۔
قرآن نے کہا کہ ’’روزہ ‘ نماز تقویٰ کے لیے ہے یعنی تقویٰ کے ذریعے فرقان آپ کے ہاتھ آجائے گا۔ یہ فرقان روحانیت کی ایک شاندار تعبیر ہے۔ یہ آپ کے پاس ہے تو آپ فوراً حق و باطل میں تمیز کر سکتے ہیں۔
سید مودودیؒ کی کتاب رسائل و مسائل آپ پڑھ لیجیے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ فرقان کس چیز کا نام ہے۔ یہ فرقان روحانیت کی زبردست پہچان ہے۔ کس قدر ایسے سوالات جو جامد دینداری کی علامت تھے اور جن کا تصور دین چھوٹا اور محدود تھا ان کے جوابات سید مودودی فرقان کی بنیاد دیے۔ جو قرآنی روح آپ نے اندر جذب کر لی تھی اس کے نتیجے میں آپ نے بتا دیا کہ یہ دورِ جدید کی ایجاد ہے اور اس کے نتیجے میں اسلام پر ذرہ برابر حرف نہیں آتا۔ لائوڈ اسپیکر کی مثال ہمارے سامنے ہے ایسے سینکڑوں سوال آئے اور آپ نے فرقان کی روشنی میں اس کے جواب دیے۔
چوتھی اصطلاح ہے حکمت:۔
یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں قرآن نے بتایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصدقرآن کی تعلیمات کے ساتھ حکمت کی تعلیم دینا بھی آپؐ کے فرائضِ نبوت میں سے تھا علم اور معلومات تو آپ کو کتابوں میں مل جائیں گی مگر حکمت کتاب میں نہیں ہے۔ حکمت اخذ کی جاتی ہے۔ حکمت اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے‘ یہ اللہ کا عطیہ ہے‘ یہ آپ کی روحانیت کی ایک پہچان ہے۔ انبیا علیہ السلام کے لیے اللہ نے بار بار کہا ’’آپ کو حکمت عطا کی۔‘‘
مولانا حمید الدین فراہی کی ایک کتاب ہے ’’حکمت ِ قرآن‘‘ اس میں انہوں نے تفصیل سے جائزہ لے کر بتایا ہے کہ حکمت کیا چیز ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ حکمت کا مطلب ہے دانش والا اور اچھی سمجھ بوجھ والا انسان فیصلہ کرنے میں حکمت کا بڑا کردار ہے‘ حکمت رکھنے والا جہاں ضرورت ہو دو ٹوک بات کرتا ہے۔
حکمت کا مطلب ہے کہ نہایت شفاف آئیڈیا۔ جس کے پاس یہ علم ہو وہ اپنے علم سے نہیں خدا کے نور کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہے ‘حکمت جس کے پاس ہو اس کی باتوں میں آپ وزن پائیں گے اس کی گفتگو مدلل ہوگی‘ اس کی نصیحت پُر تاثیر ہوگی‘ حکمت ایک وہبی شے ہے جو القا کی جاتی ہے۔
قرآن کہتا ہے ’’اللہ جسے چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے۔‘‘
’’جس کو اللہ نے حکمت عطا کر دی اس کو دراصل خیر کثیر عطا کردیا۔‘‘
اور یہ حکمت ملتی ہے تہجد اور نوافل کی کثرت سے‘ انفاق سے‘ نیک لوگوں کی اجتماعیت اور صحبت اختیار کرنے سے یہ ملتی ہے‘ انسانوں پر شفقت کرنے سے‘ درشت مزاج لوگوں کو حکمت نہیں ملتی۔
سید مودودیؒ کے حکیمانہ فیصلوں کے نتیجے میں پورے عالم میں تحریکِ اسلامی کا بیانیہ جانا جاتاہے کہ ’’قرآن و سنت کی خالص دعوت لے کر اٹھو اور دنیا پر چھا جائو۔‘‘
پانچویں اصطلاح ہے اطمینان قلب یا طمانیت:۔
انسان بسا اوقات حالات کے پے در پے حملوں سے‘ نقصانات سے اور دیگر معاملات سے پریشان اور گھبراہٹ کا شکار ہوتا ہے اور صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ گھبراہٹ کا شکار نظر آرہا ہے۔
لیکن جس کے پاس قلب مطمئنہ ہوگا وہ شدید مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود مطمئن اور پرسکون نظر آئے گا وہ ہڑبونگ نہیں بچاتا‘ وہ کوئی چھچھوری حرکت نہیں کرتا‘ Comfort اور پرسکون رہتا ہے۔ قرآن نے یہ بتایا اطمینان قلب کی دولت اللہ سے جڑے رہنے میں ملتی ہے‘ اس کے ذکر سے ملتی ہے‘ مشکل سے مشکل مقامات جہاں لوگوں کے قدم اکھڑ جاتے ہوں‘ وہاں بھی وہ مطمئن رہتا ہے۔
وینزویلا کے صدر جب کینسر کا شکار ہو تو دنیا سے اپیل کی کہ Please Save me میں مرنانہیں چاہتا۔ پھانسی کے کتنے ہی قیدیوں کو ہم نے سنا ہے‘ بمشکل ان کو پھانسی گھاٹ تک لایا گیا۔
لیکن سید مودودیؒ کو مسئلہ قادیانیت لکھنے کے جرم میں جب سزائے موت سنا دی گئی تو آپ نے نہایت اطمینان سے نہ صرف اس فیصلے کو سنا بلکہ کہا کہ موت و زندگی کے فیصلے زمین پر نہیں آسمانوں پر ہوتے ہیں‘ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہی تو کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی اور اگر وہاں یہ فیصلہ نہیں ہوا تو یہ سب الٹے بھی لٹک جائیں تو مجھے پھانسی پر نہیں لٹکا سکتے اور اپنی والدہ کو بھی منع فرمایا کہ کسی سے کسی طرح کی کوئی اپیل نہ کی جائے اور مولانا کو پھانسی پانے والے قیدیوں کے کمرے میں منتقل کر دیا گیا۔
وہاں کے جو وارڈن ہوتے ہیں ان میں سے ایک نے بتایا کہ پھانسی کی سزا والے قیدی اپنے وارڈ میں نہایت پریشان ہوتے ‘ روتے اور چیختے چلاتے ہیں لیکن حیرت ہی اس پھانسی کے قیدی پر کہ اس نے رات کو عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد اسی طرح اطمینان سے سویا کہ رات کو تہجد کے لیے ہی اٹھا۔ یہ قلبِ مطمئن جو روحانیت کی وجہ سے ہی نصیب ہوتا ہے۔
چھٹی اور آخری اصطلاح ہے شرح صدر: ۔
جب آپ کوئی فیصلہ کرتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں تو اس کی پشت پر جو قوت ہے وہ شرح صدر کی ہے جس چیز پر آپ کا کنویکشن ہو‘ اعتماد ہو آپ آرام سے وہ کام کرتے چلے جائیں گے۔ لیکن اگر ہم کسی اقدام کے بارے میں تذبذب اور ابہام کا شکار ہوں‘ ڈبل مائنڈ ہوں ایسی میں کوئی کام آپ یقین کے ساتھ انجام نہیں دیں گے۔
’’شرح صدر‘‘ کا مطلب ہے مکمل اطمینان ہو‘ سینہ کشادہ ہو‘ اعتماد ہو اور آپ اپنی بات کو بہترین انداز میں سامنے والے کے سامنے پیش کرسکیں۔
سینہ تنگ ہونا‘ بے قراری ہونا‘ بے اطمینانی ہونا شرح صدر کا متضاد ہے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام جب آگ لینے گئے تو آپ کو اللہ رب العزت نے نبوت عطا کی اور فرمایا کہ جائو فرعون کی طرف کیوں کہ اس نے طاغوت کا راستہ اختیار کر لیا۔
اب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سوچا میں اس جگہ کیسے جائوں جہاں جس موجودہ فرعون کے ساتھ میری پرورش ہوئی ہے اور میرے ہاتھوں فرعون کی قوم کا ایک شخص مارا جا چکا ہے تب آپ نے دعا فرمائی۔
’’اے رب مجھے شرح صدر عطا کر‘ میرے کام میں آسانی فرما اور زبان کی گرہ کو کھول دے تاکہ میں روانی سے گفتگو کروں اور میری بات سامنے والے کو سمجھ میں آجائے۔‘‘
یہ پوری بات شرح صدر میں آتی ہے۔ اگر آپ دین کی دعوت‘ اس کے کام اور طریقہ کار پر شرح صدر ہے تو آپ یہ کام باآسانی کرسکیں گے‘ دین کی دعوت آسانی سے خوب صورت انداز میں پیش کر سکیں گے اور سامنے والا آپ کو سن کر حیران ہوگا یہ کیسی عمدہ گفتگو کر رہا ہے۔ ہمارے بہت سے کارکنان اس نعمت سے محروم ہیں اس کی علامت یہ ہے جو اور جب فیصلہ اوپر سے آتا ہے تو اپنی زنبیل سے چھری‘ چاقو نکالتے ہیں اور ایک ایک چیز کا آپریشن شروع کردیتے ہیں اس لیے کہ ان کو شرح صدر نہیں ہے۔
اجتماعی تحریک کا ایک انتہائی خوب صورت سائنٹفیک نظام ہے فیصلوں کا کہ نیچے سے مشورے اوپر جاتے اور اوپر سے فیصلے آتے ہیں۔ جب مشورہ ماناگا جائے تو خاموش رہتا اور جب فیصلہ آجائے تو مشورے دینا عدم شرح صدر کی دلیل ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ جن کا سینہ تنگ ہے ان کا یہ مسئلہ ہے۔
اللہ نے فرمایا :۔
اللہ تعالیٰ جس کے بارے میں ہدایت اور سیدھے راستے کا فیصلہ کرتا ہے اس کا سینہ کھولتا ہے اور جس کو گمراہ کرتا ہے اس کا سینہ تنگ کرتا ہے۔ جیسا کہ آدمی بلندی کی طرف جائے تو آکسیجن کی کمی کی وجہ سے اس کو سانس لینے میں دقت ہوتی ہے اور اس کا سینہ تنگ ہونے لگتا ہے۔ جیسے شرح صدر نہ ہو کہ اس کو Sufocation ہوتا ہے۔
سید مودودیؒ کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے بلایا‘ آپ وقت پر ملاقات کے لیے پہنچ گئے آپ داخل ہوئے با آواز بلند سلام کیا اور اس کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئے۔ ایوب خان جو کہ لکھنے میں مصروف تھا‘ اس نے اپنا قلم ایک طرف رکھا اور کہا ’’مولانا آپ اتنے بڑے آدمی ہیں‘ کہاں سیاست کی گندگی میں خود کو اتار لیا ہے‘ میں آپ کو آفر کرتا ہوں ایک بڑی یونیورسٹی کے قیام کی اس کا نصاب انتظام اور اخراجات آپ کی صوابدید پر ہوںگے‘ حکومت آپ سے پوچھے گی بھی نہیں۔‘‘
مولانا نے فرمایا ’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ سیاست گندی ہی رہے‘ میں اس گندگی کی صفائی کے لیے اس میں اترا ہوں اور پہلے دن سے مجھے اپنے کام اور مقصد پر شرح صدر حاصل ہے‘ میں اس موجودہ نظام میں آپ کی نائب صدارت بھی قبول نہیں کرسکتا۔‘‘
پھر اس نے کہا ’’مولانا آپ اسلام کی دعوت کا کام کریں اسلام کا سیاست سے کیا تعلق؟‘‘
مولانا نے فرمایا ’’اسلام کا سیاست سے تعلق تولوگوں کو سمجھ میں آجائے گا لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا کہ فوج کا سیاست سے کیا تعلق ہے؟‘‘
یہ شرح صدر ہے جو روحانیت کے بغیر ناممکن ہے۔
حضرات ! سوچ کے لیول پر اگر نور ہو‘
جذبات کی سطح پر اگر سکینت ہو‘
فیصلے کی سطح پر اگر فرقان ہو‘
الفاظ کی سطح پر اگر حکمت ہو‘
حساس اور اورتاثرات کی سطح پر اگر طمانیت ہو اور
عمل کے موقع پر اگر شرح صدر ہو تو اس کا نام روحانیت اور تزکیہ ہے۔
ہم اپنی ذات کو کیسے کنٹرول کریں‘ ہماری ذات کی یہ چھ جہتیں اور چھ الگ Dimension ہے‘ ہر جہت کو ہم اپنے کنٹرول میں رکھیں یہی روحانیت ہے اور اس کو خدا کے نور سے وابستہ رکھیں‘ یعنی روحانیت پیدا ہوتی ہے توکل‘ شکر‘ تعلق باللہ اور تعلق بالقرآن میں غوطہ زنی کرنی ہے‘ ذکر اور اذکار‘ دعائیں کرنا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نور سے منور فرمائے‘ آمین۔

حصہ