سلیم احمد کا انٹرویو

1421

۔’’اسلامی ریاست میں منٹو کو ’’بُو‘‘ اور عصمت کو ’’لحاف‘‘ لکھنے کی اجازت ہونی چاہیے‘‘۔

اصل نام: سید سلیم احمد والد: سید شرافت علی
سال پیدائش: 1927ء کھیول‘ ضلع بارہ بنکی‘ اُتر پردیش۔
تعلیم: انٹر میڈیٹ (نامکمل)‘ فیض عام میرٹھ کالج۔
کالج کے اساتذہ اور رفقا: پروفیسر کرار حسین‘ محمد حسن عسکری‘ ڈاکٹر جمیل جالبی‘ انتظار حسین۔
آغاز ملازمت: 1947ء میں کراچی ہجرت کے بعد مختلف سرکاری ملازمتیں کیں اور بہ حیثیت اسکرپٹ رائٹر 1950ء میں ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ ہو گئے۔ پاکستان قومی اتحاد کے جنرل ضیا کی مارشل لاء حکومت میں شمولیت کے دوران مختصر عرصے کے لیے وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات میں مشیر بھی رہے۔
شاعری: 1944ء میں شعر گوئی کی ابتدا ہوئی۔ ابتدائی غزلوں میں علامہ اقبال کا رنگ تھا۔
پہلا شعر:۔

محبت ہی بنا دیتی ہے مشت خاک کو انساں
قیامِ آب و گل سے بھی کہیں انساں بنتے ہیں

تنقید: 1948ء سے تنقیدی مضامین لکھنے کا آغاز ہوا۔
کمرشل تحریریں: ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے بے شمار ڈرامے اور فیچر پروگرام تحریر کیے۔ تقریریں بھی ریکارڈ کرائیں۔ ٹیلی ویژن کے لیے تاریخی ڈراما سیریل ’’تعبیر‘‘ اور نسیم حجازی کے ناول ’’شاہین‘‘ کی ڈرامائی تشکیل کی۔ پہلی جاسوسی فلم ’’راز‘‘ کا اسکرپٹ لکھا۔ ان تمام تحریروں کو وہ ’’سیٹھ کا مال‘‘ قرار دیتے تھے۔
کالم نگاری: ہفت روزہ ’’زندگی‘‘، ہفت روزہ ’’تعبیر‘‘،روزنامہ ’’جسارت‘‘ اور ’’حریت‘‘ میں مستقلاً کالم نگاری کی۔
تاریخِ وفات: یکم ستمبر 1983ء کتبۂ قبر پر ان کا اپنا شعر درج ہے:۔

گھاس اس قبر پر کچھ اور ہری لگتی ہے
زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے

تصانیف: شاعری-1 بیاض (1966) -2 اکائی (1982) -3 چراغ نیم شب (1985) -4 مشرق (طویل نظم 1989) -5 کلیات سلیم احمد (2015)
تنقید:-1 ادبی اقدار (1956) -2 نئی نظم اور پورا آدمی (1962)‘ -3 غالب کون (1971)‘ -4 ادھوری جدیت (1977)‘ -5 اقبال‘ ایک شاعر (1979)‘ -6 محمد حسن عسکری‘ انسان یا آدمی (1982)
مضامین: اسلامی نظام: مسائل اور تجزیہ (1984)‘ -2 مضامین سلیم احمد (2009)

شاعر خواب دیکھتا ہے‘ دنیا کے تمام بڑے اور اچھے شاعروں نے اس دنیا کو جنت بنانے کا خواب دیکھا ہے لیکن اس میںکم ہی ایسے ہیں جنہوں نے اپنے خواب کو حقیقت بنانے کی کوشش اور جستجو کی ہو۔ سلیم احمد کا شمار ایسے مفکروں‘ شاعروں اور دانش مندوں میں کیا جانا چاہیے جنہوں نے اپنے خواب کی تعبیر پانے اور اپنی تمنا اور آرزو کو حقیقت بنانے میں اپنے ذہن کی ساری توانائی اور اپنی قلب کی سچائی سے اپنے قلم کو اس مقصد کے لیے وقف کیے رکھا۔ غور سے دیکھا جائے تو ان کی تنقید‘ شاعری‘ ڈراما نگاری اور کالم نویسی کے سوتے اسی خواب اور آرزو سے پھوٹتے ہیں کہ یہ ملک جس کا خواب ایک شاعر ہی نے دیکھا‘ وہ جو ہزار سال شان دار تہذیب کا وارث ہے اور اس تہذیب کی جڑیں جس دینی روایات و شعائر سے پیوست ہیں‘ اس ملک میں اسلامی تہذیب کا احیا ہو‘ ظلم و استحصال پر مبنی جو سرمایہ داران معیشت اور سرمایہ دارانہ نظام رائج چلا آتا ہے‘ اسے بنیاد سے اکھاڑ پھینکا جائے اور اس کی جگہ ایک عادلانہ‘ درد مندانہ نظام جسے وہ اسلامی نظام کا نام دیتے تھے اور جو قرن اوّل میں اپنی برکات اور ثمرات کے سبب تاریخ انسانی میں ایک بہترین اور آئیڈیل نظام کے طور پر خود کو منوا چکا تھا۔ جس میں عدل و انصاف‘ مساوات و برابری‘ اخوت و محبت و قربانی‘ عفو و درگزر‘ بے غرضی و بے نفسی‘ احسان مندی اور شکر گزاری کی اعلیٰ صفات اور خوبیاں پائی جاتی تھیں۔ یہی نظام جدید دور کے تقاضوں کی رعایتوں کے ساتھ رائج کیا جائے۔ چناں چہ ان کی تنقید میں اگر ہم سرسید اور حالی کے حوالے سے جدید تہذیب اور روایتی تہذیب میں کش مکش و آویزش کی بحث دیکھتے ہیں یا ادبی انحطاط‘ آزادیٔ رائے‘ تعلیم‘ کلچر‘ نظریاتی ریاست میں ادب کے کردار‘ اسلامی اور جدید تہذیب‘ اظہار و ابلاغ کا مسئلہ جیسے سنجیدہ اور گہرے مسائل پر وہ قلم اٹھاتے ہیں یا شاعری کی صنف میں پورے آدمی یا آدھے اور پونے آدمی کا سوال اٹھاتے اور انہیں کلیہ ساز کرتے ہوئے پاتے ہیں یا ان کی ڈراما نگاری میں تحریکِ پاکستان کی جدوجہد کو تاریخی تناظر میں یا نسیم حجازی کے اسلامی تاریخ کے پس منظر میں لکھے جانے والے ناول کی ڈرامائی تشکیل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں یا بہ طور شاعر ’’مشرق‘‘ جیسی طویل نظم جس کی ابتدا ہی کپلنگ کی ان لائنوں سے ہوتی ہے کہ مشرق‘ مشرق ہے اور مغرب‘ مغرب۔ دونوں ایک نہیں ہو سکتے یا ان کی کالم نگاری جس میں انہوں نے پاکستانی معاشرے میں تبدیلی و انقلاب کے امکانات اور مسائل پر بنا تھکے سالہا سال تک لکھا اور لکھتے ہی گئے تو ان کی ادبی اور صحافتی تمام کوششوں اور کاوشوں کا مرکز و محور ایک ہی نکتہ ہے اور وہ ہے اپنے خو اب کو حقیقت بنانے کی جستجو و آرزو۔ یہی خواب انہیں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی فکر کے قریب لے گیا اور باوجود اختلاف کے ہزار پہلوئوں کے وہ مولانا کے اسلامی نظام کو رائج کرنے اور اسلامی حکومت قائم کرنے کی جدوجہد میں صمیم قلب اور قلم کے ساتھ شامل ہو گئے۔ انہوں نے جماعت کے اخبار ’’جسارت‘‘ میں اوّل روز سے اگر کالم نگاری کی تو اسی لیے کی کہ یہ اخبار بھی ان کے مقصد کی تکمیل کا ذریعہ تھا۔ اپنے استاد و مرشد محمد حسن عسکری‘ جن کی انہوں نے ہمیشہ تعظیم اور اطاعت کی لیکن جب ان کی ’’جسارت‘‘ سے قلمی وابستگی پر عسکری صاحب ناراض و برہم ہوئے تو انہوں نے پہلی اور آخری بار اپنے استاد سے اختلاف کیا اور بہ صد ادب کہا کہ یا تو جسارت سے کنارہ کشی کا حکم دیجیے یا پھر دلیل سے قائل کر دیجیے کہ جسارت میں کیوں نہیں لکھنا چاہیے۔
معاشرے کے قیام کی بحث اور اس پر اٹھنے والے سوالات‘ اعتراضات و استفسارات نے دورانِ انٹرویو ہی مجھے مہیمز کیا کہ سلیم احمد سے جو میرے لیے ہی نہیں اپنے تمام حلقہ احباب میں سلیم بھائی کہلاتے تھے‘ ان کے محبوب موضوع پر گفتگو کروں اور ادب و شعر کے حوالے سے ان الجھنوں کے جواب چاہوں کہ اگر پاکستان ایک اسلامی ریاست میں تبدیل ہو جاتا ہے تو اس ریاست میں شعر و ادب کا مستقبل کیا ہوگا؟ ان لکھنے والوں کو کتنی آزادی ہوگی جن کا رنگین اور بے باک قلم عورت اور جنس ہی کو بالعموم موضوع بناتا ہے اور معاشرے میں پائی جانے والی جنسی گھٹی اور تشنہ جنسی جذبات ہی کو سامنے لانے پر اکتفا نہیں کرتا‘ اس بازار کی پوشیدہ کہانیاں بھی بے حجابی سے سناتا ہے جس بازار کے قریب سے بھی شرفا گزرنا پسند نہیں کرتے اور گزرنے کی مجبوری لاحق ہو تو ناک پر رومال رکھنا نہیں بھولتے۔ اسلامی ریاست کے حوالے سے یہ وہ سوالات تھے جن کا تسلی بخش جواب دینا آسان نہ تھا اور حقیقت یہ بھی ہے کہ اسلامی ریاست اور اسلامی نظام پر تیار ہونے والے منوں ٹنوں لٹریچر میں اس موضوع اور ان گنجلک و پے چیدہ سوالات پر کوئی بحث غور و فکر پر مبنی ملتی ہی نہیں۔
سلیم احمد نے اس انٹرویو میں اپنی مخصوص تجزیاتی فکر کی روشنی میں جس طرح اور جس جرأت مندی اور اعتماد سے ایک اسلامی فکر کے حامل شارح کی حیثیت سے اس مسئلے کو پانی کیا‘ میرے اٹھائے سوالات اور جرح کے انداز کو بغیر کسی رد و قدح کے قبول کیا اور پھر مدلل طریقے سے ایسے جوابات دیے جس میں جو مطمئن ہوا وہ تو اپنی جگہ‘ خود اسلامی ریاست کے قیام کے دعوے داروں کے لیے اس میں سیکھنے سمجھنے کے ہزار پہلو تھے۔ لیکن افسوس تو یہی رہا کہ اسلامی ریاست کے نام لیوا جنت حمقاء میں رہتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی کوئی ریاست محض نعروں اور اخباری بیانات سے وجود میں آجاتی ہے اور اس کے لیے نہ پڑھنے لکھنے اور سوچنے سمجھنے اور نہ ہی قرن اوّل کی روایات کو قرن آخر میں اگر زندہ کرنے کی کوشش ہو تو اس کی جو عملی‘ اخلاقی اور نفسیاتی پے چیدگیاں ہیں‘ ان کا جرأت مندی سے سامنا کرنے ہی کے لیے کسی اعلیٰ ذہن و شعور کی ضرورت پڑے گی۔ تو جو کام سلیم احمد کر رہے تھے‘ اس کو یہ ’’اسلامی انقلابی‘‘ رہنمائے کرام نہ سمجھ سکے اور سمجھتے بھی کیسے اس کی اہلیت و صلاحیت ہی نہ رکھتے تھے۔ چناں چہ سلیم ا حمد کا یہ انٹرویو چھپ کرانہیں مطعون کرنے کا باعث ہوا ایک ڈیڑھ ماہ تک مسلسل ایسے بے مغز اور بے سروپا مضامین ان کے خیالات کی مذمت میں چھپتے رہے جن کے لکھنے والے اصل مسئلے کی نوعیت اس کی سنگینی و گہرانی کو سمجھنے ہی سے عاجز تھے۔ خود مجھ پر انٹرویو لینے کے ’’جرم‘‘ پر جو باز پرس ہوئی‘ اس کا تذکرہ اب کیا کرنا۔ لیکن اس کا افسوس تب بھی تھا اور اب بھی ہے کہ یہی انٹرویو اس اخبار سے ان کی علیحدگی کی تمہید بنا جس اخبار میں اس مقصد کے لیے سلیم نے اپنی ذہنی اور قلمی توانائی کھپائی تھیں جسے سلیم احمد اپنا مقصدِ زندگی سمجھتے تھے۔
یہ انٹرویو جسے آپ آئندہ صفحات میں پڑھیں گے‘ یوں بابرکت رہا کہ اس کے بعد ہی سلیم احمد میرے لیے سلیم بھائی ہو گئے اور ان کا درجہ میرے نزدیک ایک مرشد کا سا ہو گیا جس کی تفصیل ان پرمیں اپنی شخصی خاکے ’’سلیم بھائی… سب کے لیے‘‘ (مشمولہ ’’اوراقِ ناخواندہ‘‘) میں قلم بند کر چکا ہوں۔
زیر نظر انٹرویو جو میرے خیال میں اس کتاب کا مکالمے کے اعتبار سے سب سے اچھا انٹرویو ہے‘ ان معنوں میں خود میرے لیے تعجب خیز ہے کہ اس کی کوئی پیشگی تیاری انٹرویو نگار ہے‘ ان معنوں میں خود میرے لیے تعجب خیز ہے کہ اس کی کوئی پیشگی تیاری انٹرویو نگار نے نہ کی تھی‘ نہ سوالقات ہی پہلے سے بنائے گئے تھے اور نہ انٹرویو کے لیے جاتے ہوئے یہ موضوع ہی ذہن میں تھا۔ بس پہلے سوال کے جواب سے گفتگو چھڑی تو موضوع کا رخ از خود ایک خاص سمت میں مڑ گیا۔ اور سلیم احمد کا اظہار خیال مستقبل کے لیے ایک قیمتی دستاویز بن گیا‘ اخبار سے ان کی علیحدگی کے بہت عرصے بعد میں نے ان کا ایک انٹرویو کیا جس میں ادبی و علمی موضوعات زیر بحث آئے۔
…٭…
طاہر مسعود: آپ کے خیالات پر اعتراضات کی نوعیت کیا ہے اور یہ کس پس منظر میں کیے گئے ہیں؟
سلیم احمد: سب سے بڑا اعتراض جو مجھ پر اس زمانے میں کیا گیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ ادب کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ دراصل یہ اعتراض ایک غلط فہمی سے پیدا ہوا ہے۔ وہ غلط فہمی یہ ہے کہ لوگ عام طور پر مقصدی‘ ادب کے نعرے کو نہیں سمجھتے۔ مقصدی ادب کا نعرہ اردو ادب کی تاریخ میں سب سے پہلے سرسید تحریک کے ادبی نظریہ ساز مولانا حالی نے پیدا کیا۔ اس کے بعد ترقی پسندوں نے اس نعرے کو اپنا لیا اور ان کی نقل میں اسلامی ادب والوں نے یہی کہنا شروع کر دیا۔ مولانا حالی نے جب مقصدی ادب کی آواز بلند کی تو اس کا ایک رخ روایتی ادب کی طرف تھا۔ مقصدی ادب یہ کہتے تھے کہ اس سے پہلے جو ادب پیش کیا گیا ہے‘ وہ مقصدی نہیں ہے‘ چناں چہ حالی نے اس نظریے کے تحت اردو شعر و ادب کو دور ازکار فرسودہ‘ فرضی اور خیالی قرار دیا تھا اور لکھا تھا کہ یہ شعر و مقائد کے ناپاک دفتر عفونت میں سنڈاس سے بد تر ہیں۔ بعد میں ترقی پسندوں نے اس رویے کو ہوا دی اور اردو کے تمام روایتی شعر و ادب کو کشتنی اور گردن زدنی قرار دیا۔ اس کے مقابلے پر یہ کہا جانے لگا کہ ادب تو وہی ہے جو قومی اور عوامی مقاصد سے تخلیق کیا جاتا ہے اور ان مقاصد کی تشریح سیاسی اور معاشی مسائل کی روشنی میں کی جانی چاہیے۔ اس طرح وہ تمام ادب و مابعد الطیعیاتی‘ روحانی و نفسیاتی حقائق کا آئینہ دار تھا‘ مرد و ملعون
ٹھہرایا گیا‘ اس کے مقابلے پر کچھ ادیبوں کا مؤقف یہ تھا کہ ادب صرف سیاسی اور معاشی مقاصد کے تابع نہیں ہوتا‘ مثلاً میر‘ غالب‘ آتش‘ مصحفی‘ سودا‘ انشا کی شاعری اور ’’باغ و بہار‘‘، ’’طلسم ہوشربا‘‘، ’’فسانہ عجائب‘‘ جیسے افسانوی ادب میں بھی سیاسی اور معاشی مقاصد نہیں پائے جاتے اور نہ یہ کسی نام نہاد قومی یا عوامی مسئلے کو اپنا موضوع بناتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ہماری زبان کا وقیع ترین ادب ہے۔ ہم جب ادب کے مقصدی ہونے کا انکار کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ ادب ہمیشہ حالی اور ترقی پسندوں کے معنوں میں مقصدی اور افادی نہیںہوتا‘ اس بات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ادب کی بعض اصناف ایسی ہیں جنہیں تفریحی ادب کہتے ہیں یا جس سے ہم صرف جمالیاتی طور پر محفوظ ہوتے ہیں یا جن میں انسانی نفس کی کیفیات ظاہر کی جاتی ہیں۔ یہ ادب بھی مقصدی اور افادی نہیں ہوتا مقصدی ادب کے نعرہ باز ادب کی ان ساری صورتوں کو مسترد کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے نزدیک مثال کے طور پر حالی کی رنگ قدیم کی غزلیں ادب نہیں ہوتیں۔ یہ اقبال کو تو ایک مقصدی اور افادی شاعر تسلیم کرتے ہیں‘ لیکن میر ان کے نزدیک بے کار ہیں۔ ترقی پسندوں کے یہاں نوبت یہاں تک پہنچی کہ گھٹیا درجے کے سیاسی نعرہ بازوں کو وقیع ترین شعرا پر ترجیح دی جانے لگی۔ مقصدی اور افادی ادب کے نعرے سے ہمارے اختلاف کی ایکا ور بنیاد بھی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ادب مقصدی‘ غیر مقصدی‘ افادی اور غیر افادی ہر قسم کا ہو سکتا ہے‘ بشرطیکہ وہ ادبی اور جمالیاتی تقاضوں کو پورا کرتا ہو۔ اس لیے اگر کوئی شخص مقصدی ادب پیش کرنا چاہتا ہے تو شوق سے کرے‘ لیکن اگر کوئی غیر مقصدی ادب پیش کرنا چاہتا ہے تو اس کو بھی حق ہے۔ یعنی اقبال کا حق ہے کہ وہ مقصدی ادب پیش کرنا چاہتا ہے تو اس کو بھی حق ہے۔ یعنی اقبال کا حق ہے کہ وہ مقصدی ادب پیش کریں اور میر کو حق ہے کہ وہ اپنی غزل لکھے۔ گویا فیض بھی درست اور راشد و میرا جی بھی درست۔ اس بات کو میں نی ایک مثال سے ظاہر کیا تھا کہ پانی کی طرح ادب کا کوئی رنگ نہیں ہوتا‘ اسے جس رنگ کے برتن میں رکھا جائے‘ ویسا ہی رنگ اختیار کر لیتا ہے اور اس سے اس کی ماہیت اور نوعیت میں فرق نہیں آتا۔
طاہر مسعود: آپ کے خیال میں کسی بھی اسلامی ریاست میں غیر مقصدی ادب کے وجود کو قبول کیا جاسکتا ہے؟
سلیم احمد: میرے بارے میں ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ میں خود اسلامی اور پاکستانی ادب جیسے موضوعات پر لکھتا رہتا ہوں اور اس طرح ادب سے ایک مقصدیت کو وابستہ کرتا ہوں۔ یقینا ایسا ہے کیوں کہ میں نے ’’مشرق‘‘ لکھی ہے جو مقصدی ادب کا نمونہ ہے اور اسلام و پاکستان جیسے موضوعات سے تعلق رکھتی ہے اور یہ میں نے اس لیے لکھی ہے کہ میں مقصدی ادب کے ادب ہونے کی نفی نہیں کرتا بلکہ اسے بھی ادب تسلیم کرتا ہوں۔ میں صرف یہ کہتا ہوں کہ جہاں میں نے ’’مشرق‘‘ لکھی ہے وہاں غزلیں بھی لکھی ہیں اور میں انہیں ’’مشرق‘‘ سے کمتر درجہ نہیں دیتا۔ مطلب یہ نکلا کہ جو ادیب مقصدی ادب پیش کرنا چاہتے ہین‘ جب چاہیں مقصدی ادب پیش کریں‘ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن جو لوگ ایسا کوئی مقصد نہیں رکھتے‘ ان کا ادب بھی ادب ہوگا اور انہیں پیش کرنے کا حق ہوا۔ اس سلسلے میں ایک سوال یہ ہے کہ میرے نزدیک پاکستان جیسی اسلامی ریاست میں ایسے ادب کی تخلیق کی گنجائش ہے جو ریاست کے مقصد کو پور انہ کرتا ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ میری غزل ریاست پاکستان کے کسی مقصد کو پورا نہیں کرتی لیکن اس کے باوجود اہم اور وقیع ہے کیوں کہ اس کی سچائیاں میرے نفس کی سچائیاں ہیں اور اس میں میرے ایسے تجربات تخلیق کی شکل میں ظاہر ہوئے ہیں جن کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ غرض یہ سمجھ لینا کہ ادب یقینا ریاست کے مقاصد کے تابع ہونا چاہیے یہ کہنے کے مترادف ہے کہ ادب کو سیاسی‘ معاشی اور ریااست کی دیگر ضروریات کے مترادف ہونا چاہیے۔
طاہر مسعود: اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ایک اسلامی ریاست میں بھی منٹو کو ’’بُو‘‘ اور عصمت چغتائی کو ’’لحاف‘‘ لکھنے کی آزادی دینے کے حامی ہیں؟
سلیم احمد: بالکل! ریاست اگر اس کی اجازت نہیں دے گی تو ریاست خود کو نقصان پہنچائے گی۔ جنس ریاست نے میرے اندر پیدا کی ہے اور اگر معاشرے میں ایسی صورت موجود ہے جس میں جنسی گھٹن‘ جنسی بے راہ روی‘ جنسی خود نمائی‘ جنسی استحصال جنسی تشدد پسندی پیدا ہوتی ہے تو اس کا اظہار کرنے یعنی اس کو شعور میں لانے کی کوششوں پر پابندی لگانے کا مقصد یہ ہوگا کہ معاشرہ اندر ہی اندر جنسی سڑاند میں مبتلا ہو جائے گا۔ آپ دیکھیے کہ ایسا فحش ادب جو چھپا کر چھاپا جاتا ہے اور چھپا کر پڑھا جاتا ہے‘ معاشرے میں کتنا مقبول ہوتا ہے۔ دراصل آپ جنس کو سطح پر آنے سے روکنے کی کوشش میں اس کی تخریبی قوت کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔ معاشرہ جب منٹو کو پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے تو وہی وہانوی اور نسیم انہونوی جیسے لوگوں کی غلیظ اور گندی تحریریں پڑھنے لگتا ہے۔ فحش ادب کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ کبھی کھلی فضا میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔ جسو قت ایک لفظ کو ہم ادبی سطح پر آتے ہیں‘ اس کی تخریبی قوت کم ہو جاتی ہے۔
طاہر مسعود: لیکن اس بات کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ اسلام مزاجاً زندگی کے تاریک گوشوں کے مقابلے میں روشن پہلوئوں کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنا چاہتا ہے تاکہ معاشرے میں نیکی اور خیر کے جذبات عام ہو سکیں؟
سلیم احمد: آپ اسلام کو سمجھتے ہیں کہ وہ نیک خواہشات کا مذہب ہے۔ وہ انسانی نفس کی گہرائیوں میں پلنے والی تاریک اور تخریبی قوتوں سے انسان کو باخبر نہیں ہونے دینا چاہتا۔ اسلام کا یہ سادہ دلانہ تصور بعض طقبوں میں اس لیے مقبول ہوتا ہے کہ وہ حقائق سے آنکھیں چار کرنے کی جرأت نہیں رکھتے۔ ادب خود آگاہی اور انسان کے علم کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ آپ اس سے خود آگاہی چھین لیں گے اور اس کو صرف میٹھے میٹھے خیالات اور نیک جذبات کا اظہار بنا دیں گے تو اپنے ساتھ ہی نہیں‘ پورے معاشرے کے ساتھ ظلم کریں گے۔ مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ ہمارے نوجوان بالغ ہو کر جنس کے جن مسائل سے دوچار ہوتے ہیں انہیں تصور میں لائے بغیر وہ اپنے نفس کی تخریبی قوت اور اس کی دسیسہ کاریوں سے بچ سکیں گے‘ چناں چہ اسلامی تاریخ و تہذیب کے کسی دور میں بھی جنسی معاملات کے بیان پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ آپ نے مثنویاں پڑھی ہوںگی۔مومن‘ حصرت سید احمد بریلوی کے خلفا میں شامل تھے اور انہوں نے ایک مثنوی ’’مثنوی جہاد‘‘ کے نام سے لکھی ہے‘ لیکن ان کی دوسری عشقیہ مثنویاں پڑھیے اور دیکھیے کہ وہ جنسی معاملات کو کس طرح بیان کرتے ہیں۔ یہی حال میر اثرکا ہے‘ وہ خواہ میر درد جیسے صوفی کے بھائی ہوں لیکن ان کی مثنویاں جنسی معاملات کا کھلم کھلا اظہار کرتی ہیں۔ شیخ سعدیؒ‘ جو ہمارے بہترین معلم اخلاق ہیں اور مولانا رومؒ نے جن کی مثنوی کو ’’ہست قرآن در زبان پہلو‘‘ کہا جاتا ہے‘ ان معاملات کو کھلم کھلا بیان کیا ہے۔ یہ تصور ہی باطل ہے اور خالص عہد جدید کی پیداوار ہے کہ ادب جب وہ حقیقی معنوں میں ادب ہے تو وہ فحش بھی ہوتا ہے۔ ادب کبھی فحش نہیں ہوتا‘ جس طرح ڈاکٹری کی کتاب اور فقہ میں فقہ کے احکام فحش نہیں ہوتے۔
طاہر مسعود: غالباً وہ اس لیے فحش نہیں ہوتے کہ ان میں پڑھنے والوں کے لیے لذت کا کوئی پہلو نہیں ہوتا جب کہ بعض ادب حقیقی معنوں میں ادب ہونے کے باوجود بھی قارئین میں لذت کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ اس لیے طب اور فقہ کی کتابوںکی مثال ادب سے کیسے دی جا سکتی ہے؟
سلیم احمد: جس وقت ادیب اپنی تحریر سے جنسی جذبات کے بھڑکانے کا کام لینے لگے تو وہ نہ صرف فحاشی کا مرتکب ہوتا ہے بلکہ ادب کے منصب سے بھی گر جاتا ہے۔ جذبات کا بھڑکانا اور چیز ہے اور جذبات کی تطہیر اور چیز ہوتی ہے۔ ادب جذبات کی تطہیر کرتا ہے‘ نفس کا تزکیہ کرتا ہے‘ ہمارے شعو رمیں دبے ہوئے رجحانات کو شعور میں لاتا ہے۔ اس فرق کو مدنظر رکھے بغیر ادب پر کوئی بات کرنا ہی بے کار ہے۔
طاہر مسعود: ان تمام حقائق کے باوجود اگر ایسے ادب کو پڑھ کر معاشرے کے ایک طبقے کے جنسی جذبات مشتعل ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں بے راہ روی عام ہوتی ہے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟
سلیم احمد: میں پوچھتا ہوں کہ کیا ’’اینا کرینینا‘‘ اور ’’مادام بواری‘‘ کو پڑھ کر کسی کے جنسی جذبات مشتعل ہوتے ہیں؟ مریضانہ ذہنیت کی بات اور ہے۔ اگر کوئی ’’بہشتی زیور‘‘ میں مباشرت اور حیض کے مسائل کا بیان پڑھ کریا قوت رجولیت میں اضافے کے نسخوںکو پڑھ کر جنسی لذت کشی کرنے لگے تو اسے کون روک سکتا ہے۔ ممکن ہے کوئی ادب کو فحش کہے تو ماہرین اسے جانچیں گے۔ منٹو اور عصمت پر بھی مقدمات چلے لیکن ان میں کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا۔ مختصر لفظوں میں میرا مسلک وہی ہے جو مولانا حسرت کا تھا‘ یعنی ادب فاسقانہ بھی ہوتا ہے‘ ادب سے جنس کو خارج کر دینا‘ ادب اور معاشرے کو صحیح سمت میں نہیں لے جانا ہوگا۔
طاہر مسعود: آپ قرآن کی ’’سورۃالشعرا‘‘ کی کیا تفسیر کریں گے جس میں شاعروں کے اس طبقے کی مذمت کی گئی ہے جو بھٹکے ہوئے اور وادیوں میں مارے مارے پھرتے ہیں؟
سلیم احمد: قران میں شاعروں پر جو اعتراض کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں اور وہ وادی میں سرگرداں پھرتے ہیں اور ان کے پیروکار گمراہ ہیں۔ یہ شعرا کی صحیح ترین تصویر ہے جو قرآن حکیم نے کھینچی ہے۔ میں اس کا مقصد یہ سمجھتا ہوں کہ یہ شعرا بطور ہدایت دینے والوں کے اور بطور ایک عملی نمونے کے ہرگز اس قابل نہیں ہیں کہ لوگ ان کا اتباع کریں۔ یہ کام اور یہ منصب صرف پیغمبر کا ہے کہ ہدایت ان سے حاصل کی جائے اور انھیں اپنے عمل کا مثالی نمونہ بنایا جائے۔
(جاری ہے)

حصہ