’’ارے گایز ڈونٹ یو نو‘آئیڈیاز پہ 30% سیل لگی ہے۔‘‘ ساریہ خوشی سے بولی۔’’ارے یار کوئی راضیہ کو بھی بتادے۔ سارا سال ایک ہی اسٹائل ہوتا ہے اس کا۔‘‘ فری اٹھلاتے ہوئے بولی۔ اس پر رمشا بولی ’’اسے کیا پتا یہ مہنگے کپڑے بریسلٹ اور یہ ہیلز کاکیا کریز ہوتاہے‘ کتنا خوب صورت اور چارمنگ لگتاہے بندہ اس میں۔ ایسی برانڈڈ فبرکس پہن کر ایٹی ٹیوٹ خودبخود آجاتاہے۔‘‘ ثنا بھی چپ نہ رہی بولی ’’واقعی پورا سال ایک ہی گاؤن اسکارف میں گزارنے والے اسٹائل اور لک کیا جانیں۔ خیر چھوڑو ہمیں اس سے کیا۔ لیٹس کم ہینگ آوٹ ود می۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ سب سے چلی گئیں۔ راضیہ کو علم بھی نہ ہوسکا کہ وہ اس عمل سے راضیہ کے اعمال نامے کو کتنا شاندار بنا گئیں۔
’’ارے زوبیہ! کیسی ہو؟ کہاں بزی ہوتی ہو؟ بھابھی کیسی ہیں تمہاری؟‘‘ سامعہ نے زوبیہ سے پوچھا‘ جو بھائی کی شادی کے بعد کافی عرصے بعد اسکول میں پڑھانے آئی تھی۔
’’میری بھابھی بس صرف نام کی ہیں وہ۔ ہم نہ تو ان سے بات کرنا پسند کرتے ہیں نہ کوئی میل جول رکھنا۔ ان کا رویہ ہی کچھ عجیب سا ہوتا ہے۔ ہر وقت ہم سے بات کرنے ہم میں گھسنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جتنا ہم ان سے دور رہتے ہیں اتنا ہی زیادہ وہ ہم سے انوالوو ہونا چاہتی ہیں۔ ان کو سوائے باتوں کے کچھ نہیں آتا۔ نہ انہیں کسی فیشن کا پتا ہے نہ ہی بات کرنی آتی ہے اور نہ انہوں نے کبھی کوئی فٹنس پروگرام جوائن کیا ہے۔ عجیب بے ڈول سی ہیں۔ ہم تو بھائی کی شادی سے بالکل بھی خوش نہیں ہیں۔ گھر کے سارے کام ایک طرف انہیں تو بھائی کی آئو بھگت ہی سے فرصت نہیں ملتی۔ نفرت سی ہونے لگی ہے مجھے ان سے۔ میں نے آج تک ان جیسا بور، بدسلیقہ، پھوہڑ اور پاگل انسان نہیں دیکھا۔‘‘ زوبیہ اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ رہی تھی۔
’’ارے ایسے نہیں کہتے‘ کیا پتا اللہ کے نزدیک وہ کتنی اچھی ہوں۔‘‘ سامعیہ نے اسے سمجھایا۔ اس پر زوبیہ بولی ’’خاک اللہ کی نظر میں اچھی ہوں گی۔ جو دنیا والوں سے معاملات درست نہیں کرسکتا وہ اپنے اللہ سے کیا معاملات درست کرے گا۔‘‘یہ کہتے ہوئے دونوں اپنا پیریڈ لینے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
’’سنیے مجھے آپ کی کم پیسوں کی نوکری میں کوئی اعتراض نہیں۔بس آپ بینک کی نوکری نہ کریں۔ بینک کی نوکری بالکل واضح سود کی نوکری ہے اور سود اللہ اور اس کے رسولؐ سے کھلی جنگ ہے۔ ہم روکھی سوکھی کھالیں گے لیکن اپنے آنے والی نسل کی پرورش بینک کی آمدنی سے نہیں کریں گے۔‘‘ سعدیہ نے بڑی متانت، مان اور محبت سے اپنے شوہر کو چائے دیتے ہوئے کہا۔ قاسم کو اپنی بیوی سے ایسی بات کی توقع نہیں تھی۔ وہ ایک دَم سناٹے میں آگیا اور بولا ’’ارے میڈم اگر میری بینک کی نوکری پہ اتنا ہی اعتراض تھا تو مجھ سے شادی کیوں کی تھی۔ میں تو شادی سے پہلے بھی بینک میں ہی نوکری کرتا تھا۔ یہ جو تمہاری خواہشات ہیں یہ بینک کی نوکری ہی سے پوری ہوتی ہیں۔ اگر میری نوکری پہ اتناہی اعتراض ہے تو جائو اپنے گھر واپس چلی جائو۔‘‘یہ کہتا ہوا وہ غصے میں بڑبڑاتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ سعدیہ ہونقوں کی طرح اپنے ہاتھوں میں چائے کی پیالی پکڑے قاسم کو باہر جاتے ہوئے دیکھتی چلی گئی۔
آشنا سے چہروں کے اجنبی رویوں کو
سہ کر مسکرا دینا آفرین اذیت ہے
گھر میں خوب چہل پہل تھی اور کیوں نہ ہوتی عروسہ کی شادی جو ہو رہی تھی۔ ہر طرف شور اور ہنگامہ برپا تھا۔ کہیں ڈھول کی تھاپ پر سہیلیاں گیت گا رہی تھیں تو کہیں مہندی لگائی جارہی تھی اور کہیں مزیدار پکوان بن رہے تھے۔ عروسہ بہت خوش تھی کہ سب کچھ اس کی مرضی کے مطابق ہو رہا تھا۔ مہنگے پارلر سے میک اَپ مہندی اور سروسز کی بکنگ سے لے کر شہر کے مہنگے ترین برانڈ سے برائیڈل ڈریس کی تیاری تک سب کام اس کی الٹرا ماڈرن بہنوں اور خالاؤں کے ہاتھ خیریت سے انجام پا چکا تھا۔ بس ایک دن اس کے لیے بہت برا گزرنے والا تھا جس روز اس کی پھپھوؤں کو بھی بابا نے شادی سے پہلے کھانے کی دعوت دی تھی۔ اس کی پھپھو بہت اللہ والی بنتی تھیں۔غریب سے علاقے میں رہنے والی اس کی پھپھو اسے وعظ و نصیحت کی مشین لگتی تھیں۔ اس نے اپنی بہنوں سے اس دن کے آنے سے پہلے ہی اپنا تمام جہیز جس میں اس کے من پسند برانڈڈ فیبرکس کے ساتھ اس کے تمام ہوم اپلائنسز بھی تھے‘ اپنے سسرال روانہ کردیے تاکہ پھپھو اپنے وعظ و نصیحت کی پٹاری نہ کھول سکیں۔ بَری بھی پہلے ہی منگوالی۔ سارا کام اس کی پلاننگ کے مطابق بالکل ٹھیک ہوا تھا۔ جس شام پھپھو نے آنا تھاوہ زرد رنگ کا جوڑا زیب تن کیے سلیقے سے تیار ہوئی تھی۔ پھپھو آئیں اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ وہ رسمی سلام دعا کے بعد ان سے دور چلی گئی مبادا اسے دیکھ کر انہیں کچھ یاد نا آجائے۔ لیکن جاتے ہوئے ہمیشہ کی طرح رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے اس کے کان میں یہ کہہ گئیں کہ ’’بیٹا ہم تو ہندوانہ رسم و رواج کو اپنے سے دور ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ شادی سے پہلے زرد رنگ ہندوانہ تہذیب کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر تم کوئی اور رنگ پہنو تو تم پر بہت جچے گا۔‘‘ یہ سنناتھا کہ اس کے تمام ارمانوں‘ آرزووں اور خوشیوں پر اوس پڑگئی۔ ان کے جانے کے بعد ماما سے بولی۔ ماما یہ ہماری کیسی رشتے دار ہیں کہ ان کے آئے بنا کیا ہماری خوشیاں مکمل نہیں ہوسکتیں؟ اور اس کی ماما اس کو ہوں ہاں کر کے تسلیاں دینے لگیں۔ اس پر اس کی بڑی بہن بولی ’’پھپھو کی باتوں کو زیادہ دل پہ مت لیا کرو۔ اصل میں ان کی بیٹیوں کو یہ سب آسائشیں نصیب نہیں ہیں جو ہمیں میسر ہیں۔ بس اسی لیے وہ ہم سے بری طرح جلتی ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر تمام بہنیں پھپھو سے متعلق شکوے کرتے ہوئے صدیقہ بیگم کے ایمان کو بڑھانے لگیں۔
کیا آپ نے کبھی ایسا محسوس کیا کہ جتناآپ دین سے جڑنے اور اللہ سے قریب ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔لوگوں کارویہ محسوس اور غیر محسوس طریقے سے بدل رہاہے۔
٭ لوگ اب آپ سے پہلے جیسی محبت نہیں کرتے۔
٭لوگ آپ کی بہت اہم بات کو بھی بالکل اہمیت نہیں دیتے۔
٭لوگ آپ کو اپنے سے کمتر، حقیر اور کم حیثیت سمجھتے ہیں۔
٭ لوگ آپ پر دوسروں کو فوقیت دیتے ہیں۔
٭ لوگ ہر اچھے اور مثبت کام میں آپ کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔
٭لوگ آپ کی مثبت اور پیاری بات کو منفی لیتے ہیں۔
٭لوگ آپ کو بے عزت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
٭لوگ آپ کو دیکھتے ہی اپنی باتوں میں مگن ہوجاتے ہیں یا آپ کو مسلسل نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔
٭کیا آپ اداس‘ مایوس اور ناامید ہوجاتے ہیں؟ اپنے رویئے پر نظر ثانی کرتے ہیں کہ کہیں آپ نے کسی کا دل دکھانے والی یا کسی کو نیچا دکھانے والی بات تو نہیں کی۔ اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو آپ خود کو کس طرح مطمئن کرتے ہیں؟
٭کیا آپ نے ایسی صورت حال میں کبھی اپنے آپ کو خوش خبریاں سنائی ہیں؟
نہیں نا…! تو آیئے میں آپ کو وہ خوش خبریاں سناتی ہوں جو پندرہ سوسال پہلے میرے نبیٔ مہرباں آخرالزماں احمد مجتبیٰ سیدالانبیا‘ خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیؐ نے آپ کو دی ہیں۔
ہم وہی اجنبی ہیں جو آپؐ کے سلام کے مستحق بننے کے لیے کوشاں ہیں، جن کے بارے میں آپؐ نے فرمایا تھا کہ’’سلام ہو ان اجنبیوں پر۔‘‘
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا، عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا، لہٰذا ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوش خبری و مبارک باد ہے۔‘‘
دین کو اپنے طریقے سے چلانے کا آج جو رویہ روا رکھا جا رہا ہے ٹھیک اسی طرح یہی رویہ آنحضورؐ کی وصال کے بعد بھی روا رکھا گیا تھا۔کیا آپ جانتے ہیں کہ آنحضورؐکا وصال 632ء میں ہوا اس کے بعد 656ء میں حضرت عثمانؓ کی مظلومانہ شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ اسلام کے دشمنوں‘ خاص کر مسلمان نما منافقوں کو خلافتِ راشدہ اک نظر نہ بھاتی تھی۔ یہ منافق رسول اللہ سے بھی دنیاوی بادشاہوں کی طرح یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ بھی اپنا کوئی ولی عہد مقرر کریں گے۔ حضرت عثمان غنیؓ اسلام کے تیسرے خلیفہ، دامادِ رسول اور جامع قرآن تھے۔ آپؓ سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، آپ کی کنیت ذو النورین ہے کیوں کہ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہؓ بنتِ محمدؐ سے‘ پھر ان کی وفات کے بعد اُمِ کلثومؓ بنتِ محمدؐ سے نکاح کیا۔ عثمان غنیؓ پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہؓ بھی آپؓ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ 18 ذی الحجہ بروز جمعہ 82 سال کی عمر میں انھیں ان کے گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کے دوران شہید کردیا گیا اور آنحضورؐ کی وصال کے فقط 48 سال بعد واقعہ کربلا 10 محرم 61 ہجری (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا جہاں مشہور عام تاریخ کے مطابق اموی خلیفہ یزید کی بھیجی گئی فوج نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حسین ابن علیؓ اور ان کے اہلِ خانہ کو شہید کیا۔ حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبویؐ کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے۔
جب اتنے معتبر اور عظیم ہستیوں کے ساتھ سماج کا منافقانہ رویہ اتنا بڑھ سکتا ہے کہ انہیں اس اجنبیت کی راہ میں شہید کر دیا گیا تو آپ اور ہم تو ابھی بہت پیچھے ہیں کیوں کہ لوگوں نے آپ کو ابھی تک پتھر نہیں مارے صرف زبانی باتوں کے باعث نا امید نہ ہوں‘ اپنے دل کو مضبوط کیجیے۔ دل اداس ہو تو ان عظیم ہستیوں کی سوانح عمری پڑھ لیا کیجیے کہ جو اولوالعزمی اور عزیمت کی راہوں میں اس قدر آگے نکل گئے کہ موت بھی ان کا راستہ نہ روک سکی۔
مصر کے سابق صدر ڈاکٹر مرسی شہید ہوں یا اخوان المسلمون کے قطب شہید‘ آپ کے ملک آپ کے اپنے شہر کی مظلوم بیٹی عافیہ ہو یا جمعیت اور جماعت کے مخلص افراد کی مظلومانہ شہادتیں‘ یہ سب ہمیں خوش خبریاں سنارہی ہیں۔ ان آوازوں پر لبیک کہتے ہوئے مکمل اور پر خلوص ہو کر ان کے قافلے میں شامل ہوجایئے تاکہ روزِ قیامت آپ کے استقبال کے لیے فرشتے اپنے پر پھیلائے آپ کے منتظر ہوں۔
آخر میں ماضی کے مردِ جانباز مولانا محمد علی جوہر کی وہ شاعری جو انہوں نے ایسے ہی اجنبیوں کے نام لکھی تھی۔