اقبال بحیثیت مفسرِ قرآن

1357

اس کے نغمے سینۂ مسلم کو گرمانے لگے
روشنی امید کی ہر دل میں پھیلانے لگے
جو نظر سے دور تھے منظر نظر آنے لگے
خواب آزادی کے چشم و دل میں جگمگانے لگے

کسے معلوم تھا کہ ہندوستان کی تاریخ میں غالب کے بعد پھر کوئی شخص پیدا ہوگا جو اپنے بے نظیر تخیل اور نرالے انداز سے غالب جیسے بلندپایہ شاعر کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اردو شاعری کے افق پر آفتاب کی مانند ابھرے گا۔علامہ اقبال عصرِ حاضر کے وہ شاعر تھے جو امت کے نبض شناس تھے۔وہ امت کو درپیش چیلنجز ، امت کے مسائل اور انکے حل قرآن کی روشنی میں لطیف انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری کے خوبصورت اور دل میں اتر جانے والے الفاظ جذبوں کو بیدار کرتے ہیں اور امت کو اسکا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے پر ابھارتے ہیں۔ ان کے کلام کی آج امتِ مسلمہ کو سخت ضرورت ہے کیوں کہ ان کی شاعری قرآن کی تفسیر ہے جسے آج مسلمان فراموش کر چکے ہیں۔
اقبال وہ خوش قسمت شخص تھے جن کی پیدائش ایک دیندار گھرانے میں ہوئی۔ انہوں نے تلاوتِ قرآن ،پابندیٔ وقت کے ساتھ ادائیگی نماز اور حسن اخلاق جیسی صفات اپنے گھرانے سے ورثے میں پائیں۔ ان کے والد نے بچپن میں ہی ان سے کہا تھا کہ بیٹا جب قرآن کی تلاوت کرو تو یہ جان کر پڑھو کہ یہ تم پر نازل ہورہا ہے۔ یہ بہت بڑی اور اہم بات تھی جس نے اقبال کی زندگی کو صحیح رخ دیا۔ اقبال نے ابتدا سے ہی اس کتاب کو اپنے دل میں اتارنے کی کوشش کی۔ وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے تھے۔ وہ قرآن کے معنی و مفہوم کو سمجھتے تھے اور اس کے آئینے میں اپنی زندگی ،امت کی زبوں حالی اور مسلمانوں کی قرآن سے دوری کا علم رکھتے تھے اس لئے فطری طور پر رنج محسوس کرتے تھے۔ ان کی شخصیت کی تعمیر میں قرآن پاک بنیادی حیثیت رکھتا تھا۔ اسی کتاب نے انکی سوچ اور فکر میں انقلاب پیدا کیا اور وہ عام شعرا کی صف سے بلند و بلا ہو کر اسلام کے داعی اور پیغام رساں بن گئے۔ وہ جانتے تھے کے مسلمان جب تک قرآن کی تعلیمات کو سمجھنے اور عمل میں لانے کی ضرورت کو پورا نہیں کریں گے جب تک وہ نا مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزار سکیں گے نا مسلمان کی حیثیت سے دنیا سے رخصت ہوسکیں گے۔انہوں نے اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا ۔

ترے ضمیر پر نا جب تک ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہیں نہ رازی نہ صاحبِ کشاف

اقبال نے قرآن کی بے شمار آیات کو دلنشیں انداز اور خوبصورت الفاظ میں پیش کیا ہے کہ وہ دل پہ دستک دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سورۃ الفاتحہ کی آیت ” ہم کو سیدھے راستے پر چلا ، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا نا کے ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا عذاب نازل ہوا۔” کو اپنے شعر میں اس طرح بیان کیا:۔

میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو

اقبال نے سورۂ انعام کی آیت ’’ آپ کہہ دیجیے بے شک میری نماز میری قربانی میرا جینا و مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں اس پر سب سے پہلے عمل کرنے والا انسان ہوں۔‘‘ کو اس طرح شعر کی شکل دی :۔

میری زندگی کا مقصد ترے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی

اقبال عشق الٰہی کے ساتھ عشق نبیؐ بھی رکھتے تھے اور آپؐ کو اپنا نمونۂ زندگی مانتے تھے۔ انہوں نے سورۂ الاحزاب کی آیت ’’تمہارے لیے رسولؐ کی زندگی نمونۂ عمل ہے۔‘‘ کو اپنے شعر میں خوب صورتی سے ڈھالا۔

آجائے گا اقبال تمہیں جینے کا قرینہ
تو سرورِ کونین کے افکار پڑھا کر

اقبال کی پوری شاعری قرآن کریم کا نچوڑ تھی۔ وہ جانتے تھے کہ ذلت اور پستی مسلمانوں کا مقدر اس لیے بنی ہے کیوں کہ انہوں نے قرآن کو ترک کر دیا ہے اور تہذیب حاضر کی روشنیوں میں گم ہوگئے ہیں۔ وہ دورِ حاضر کے مسلمانوں کو مخاطب کر کے ان کے زوال کا سبب بتاتے ہیں کہ

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

علامہ اقبال کو اس بات پر شکوہ تھا کہ قرآن مسلمانوں کی کتاب ہے لیکن غیر مسّلم اقوام قرآن کے اصولوں پر عمل کرتے اور فائدہ اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ جب کہ امتِ مسلمہ اپنی تعلیمات کو فراموش کیے بیٹھے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں پر اقوامِ مغرب نے غلبہ پا لیا ہے۔ اقبال نے مسلمانوں کے اس سے رویے پر تفکر اور اظہارِ تعجب کیا ہے کہ

صاحبِ قرآن و بے ذوقِ طلب
العجب، ثم العجب ثم العجب

انہوں نے اپنی ایک نظم میں برصغیر کی خاتون شرف النسا کا ذکر کیا ہے جو قران سے بہت شغف رکھتی تھیں۔ وہ قرآن اور تلوار کو ہر وقت اپنے ساتھ رکھتی تھیں۔ اقبال نے مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لیے ان خاتون کا ذکر کیا جن کی وصیت کے مطابق قران اور تلوار کو ان کی قبر میں رکھا گیا تھا۔ اقبال کا کہنا تھا کہ مسلمان وہ تھے کہ جن کی نگاہ سے دل کانپتے تھے لیکن موجودہ دور کے مسلمانوں میں ایمان کی رمق باقی نہیں رہی۔انہوں نے مسلمانوں سے کلام کرتے ہوئے کہا کہ :۔

اے لا الٰہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتارِ دلبرانہ کردارِ قاہرانہ
تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذبِ قلندارانہ

اقبال چاہتے تھے کہ جب مسلمان حاملِِِ قرآن ہیں تو عامل قرآن بھی بن جائیں کیونکہ ہمارے نبیؐ بھی ایک چلتے پھرتے قرآن تھے اور یہی مومن کی شان ہے۔

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

اقبال خود بھی قرآن پاک کے بارے میں اپنے والد بزرگوار کی نصیحت پر سختی کے ساتھ عمل پیرا رہے اور اس جذبے کے تحت انہوں نے مسّلم نوجوانوں کو بھی اس کی تاکید اور تلقین کی کہ وہ محض کتاب خواں نہ بنیں بلکہ صاحبِ کتاب بننے کی سعی و جدوجہد کریں۔

حصہ