جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی

267

وہ یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہوکر آئی تو نانی نے پھر اسے سر سے پائوں تک افسوس ناک نظروں سے دیکھتے ہوئے سرد آہ بھر کے کہا ’’پتا نہیں میری دعائیں کب قبول ہوں گی؟‘‘
وہ روزانہ والی ڈھٹائی سے مسکراتے ہوئے بولی ’’نانو! مجھے لگتا ہے آپ کی یہ دُعا اتنی خاص نہیں ہے اس لیے قبول نہیں ہورہی، لگتا ہے اللہ کو میں ایسے ہی پسند ہوں، اس لیے آپ بھی میرے لیے کڑھنا چھوڑ دیں۔‘‘ اس نے جھک کر نانی کے گال پر بوسہ دیا اور بائے کہہ کر چلی گئی۔
نانی نے دُکھی نظروں سے بیٹی کو دیکھا اور اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں جیسے کہہ رہی ہوں: کاش تم نے بیٹی کو دین داری بھی سکھائی ہوتی۔ نانی اور نواسی میں برسوں سے ایک ہی اختلاف چلا آرہا تھا، وہ تھا فرح کا انگریزی طرز کا لباس۔ فرح نے بچپن سے آج تک اپنی مرضی کا لباس پہنا تھا۔ چست جینز پر کبھی ٹی شرٹ، کبھی کوئی ماڈرن ٹاپ۔ نانی کہتیں ’’یہ ساتر لباس نہیں ہے، مسلمان عورت کی شرم وحیاء اور اس کا باپردہ لباس ہی اس کی شناخت ہے، اور یہی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے پسند فرما یا ہے۔‘‘
فرح کہتی ’’لباس کے مغربی یا مشرقی ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا، ہم مسلمان ہیں تو بس ہیں۔‘‘ اس کے نزدیک انسانیت کا احترام ہی سب سے اہم بات تھی۔ وہ اتنی لبرل تھی کہ اس کے حلقۂ یاراں میں مسلمانوں سے زیادہ عیسائی، یہودی اور مختلف مذاہب کے لڑکے اور لڑکیاں شامل تھے۔ اسے لگتا کہ سب اپنی اپنی جگہ درست ہیں، سب کو اپنے اپنے مذہب کے ساتھ آزادی سے جینے کا حق حاصل ہے۔ اس کی یہ سوچ اُس ماحول کی پروردہ تھی جس میں وہ پَل کر جوان ہوئی تھی۔ اسے تو کیا اس کے والدین کو بھی یاد نہیں تھا کہ وہ لوگ کب پاکستان سے انگلینڈ آکر آباد ہوئے تھے۔
آج یونیورسٹی میں جب وہ اپنے تمام لبرل دوستوں کے ساتھ بیٹھی گپ شپ میں مصروف تھی، تب ہی یونیورسٹی کے بہت سے اسٹوڈنٹس احتجاجی نعرے لگاتے ہوئے ایک طرف سے جلوس کی شکل میں برآمد ہوئے۔ ’’ہم کو سب برداشت، مگر ناموسِ رسالتؐ پہ ہم نثار، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم جاں نثار جاں نثار…‘‘
یہ نعرے جس جس مسلمان کے کانوں میں تے، سب تڑپ کر اٹھتے اور بنا سوچے سمجھے اس جلوس میں جا شامل ہوتے۔ فرح بھی بے چین ہوکر اٹھ کھڑی ہوئی، اسے معاملہ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا مگر اس کا دل سینے میں مچلنے اور تڑپنے لگا تھا۔ ’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے سامنے سے آتے جلوس کو دیکھا۔
’’کچھ نہیں، لگتا ہے انتہا پسند مسلم گروپ پھر کوئی سیاست کرکے یونیورسٹی کے امن کو برباد کرنے چلا ہے۔‘‘ جولی فرنینڈس نے اس کا ہاتھ کھینچ کے اسے بٹھانا چاہا۔
’’Muslim extremists‘‘ اس کے لب کانپے، دل پھر بے چین ہوا… ’’ہاں ان extremists نے تو پوری دنیا میں فساد مچانے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔‘‘ اِس بار سینٹ جوزف نے غصے سے کہا تھا۔ فرح نے دیکھا منٹوں میں وہ چند طلبہ ایک بڑی ریلی میں بدل چکے تھے۔
’’I hate these people ‘‘ الیگزینڈر نے نفرت سے اس ریلی پر نظر ڈالی جس میں آگے آگے چند حجاب والی لڑکیاں تھیں۔ فرح آج پوری طرح ان کی طرف متوجہ تھی۔ جولی نے جلدی سے اس کا بازو کھینچا ’’آئو ہم لوگ یہاں سے چلیں، کیوں کہ یہاں تو ابھی یہ پاگل توڑ پھوڑ شروع کردیں گے۔‘‘
’’مگر کیوں؟ کس وجہ سے کریں گے یہ توڑپھوڑ؟‘‘ فرح کے اندر عجیب بے چینی اور تجسس تھا۔ تب تک جلوس ان کے بالکل قریب آچکا تھا اور اس کے جوش وخروش بھرے نعرے بھی اب اسے صاف سنائی دے رہے تھے۔ فاطمہ اس ریلی سے باہر آئی اور اس کے پاس آکر بولی ’’تمہیں پتا ہے فرانس میں چند انتہا پسند پینٹرز نے ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بناکر ان کی شان میں کتنی بڑی گستاخی کی ہے، یہ ریلی اس کے احتجاج میں ہے، تم بھی آئوناں۔‘‘ وہ جلدی سے اس کا ہاتھ کھینچتے ہوئے بولی۔ جس پر جولی نے فوراً اس کا ہاتھ فرح سے چھڑواتے ہوئے کہا ’’تم جائو، یہ تمہارے جیسی extremist نہیں ہے۔‘‘
فاطمہ نے کھڑے ہوکر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور دوٹوک انداز میں کہا ’’extremists ہم نہیں تم لوگ ہو۔ بتائو کبھی ہم نے کسی نبی کی شان میں گستاخی کی؟ کبھی کسی کے دیوتاؤں کو برا بھلا کہا؟‘‘ وہ ان سب سے مخاطب تھی۔ فرح نے بھی ان سب کو فاطمہ کے سوال پر معنی خیز نظروں سے کہا۔
الیگزینڈر ڈھٹائی سے بولا ’’آزادیِ اظہارِ رائے کا حق سب کو حاصل ہے، تمہیں بھی ہے۔‘‘
فاطمہ نے غصے سے کہا ’’میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی، نہ ہی اپنی امت کو ایسی تعلیمات دی ہیں، اور ہم مسلمان تمام انبیاء پر نہ صرف ایمان لاتے ہیں بلکہ ان کا احترام بھی ہم پر لازم ہے، اور ہاں کوئی ہمارے نبیؐ کی شان میں گستاخی کرے، یہ ہم برداشت نہیں کریں گے۔ ہمیں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ماں باپ، بہن بھائی اور اپنے جان ومال سے بھی زیادہ پیارے ہیں۔‘‘ وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتی ہوئی اس انداز میں کہہ رہی تھی کہ فرح کے اندر عجیب سی کپکپاہٹ شروع ہوگئی۔
چندرانی سے جب کچھ اور نہ بن پڑا تو آنکھیں چراتی ہوئی فرح کو اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے بولی ’’اچھا بابا جائو! جاکر نعرے لگائو، یہ تمہاری طرح جذباتی اور پاگل نہیں ہے۔‘‘ اس کا اشارہ فرح کی طرف تھا۔
فاطمہ نے آگے بڑھتی ریلی پر نظر ڈالی، پھر فرح کو دیکھتے ہوئے چندرانی سے کہا ’’یاد رکھنا یہ بھی ہمارے جیسی ہی ہے، جذباتی اور پاگل۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں جذباتی ہونا ہمارے ایمان کی سلامتی کی نشانی ہے۔‘‘ وہ مسکرائی اور نعرہ لگاتی ہوئی تیزی سے ریلی کی طرف بڑھ گئی۔
’’پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہ لاکھوں سلام… ان پہ ہماری جانیں قربان۔‘‘ فرح کا سینے میں دھڑکتا دل جیسے رک سا گیا اور اس کے کپکپاتے ہونٹوں سے بے ساختہ نکلا ’’پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہ لاکھوں درود اور کروڑوں سلام‘‘۔ چندرانی نے اس کے چہرے کا بدلتا رنگ دیکھ کر معنی خیز نظروں سے جولی کو دیکھا اور زبردستی اسے اپنے ساتھ لے جانے لگی۔
’’چھوڑو ان انتہا پسندوں کو، آئو ہم یہاں سے نکلیں ورنہ پھنس جائیں گے، دیکھو دیکھو انھوں نے کیفے میں توڑ پھوڑ شروع کردی ہے۔‘‘
’’وہ خوامخواہ توڑ پھوڑ نہیں کررہے، ان کے دل کو چوٹ پہنچائی گئی ہے۔‘‘ فرح کا پورا جسم ایک آگ کی لپیٹ میں تھا اور اس کی آواز جذبات سے بھاری ہورہی تھی۔ جولی نے کہنی مارکے مارتھا کو اس کی طرف متوجہ کیا، وہ پیار سے اس کے بازو کو تھام کر بولی ’’مسئلہ فرانس میں ہوا ہے اور یہ یہاں پر فساد مچا رہے ہیں… ہیں ناں دیوانے! بھلا اس سے کیا حاصل ہوگا؟‘‘ ’’بات کہیں سے بھی کی گئی ہو، مسئلہ پوری امت کا ہے، اس لیے پوری دنیا کے مسلمان بولیں گے، شور مچائیں گے۔‘‘ فرح اپنی سرخ ہوتی آنکھیں اٹھا کر بولی۔ اس پر الیگزینڈر مذاق اڑاتے ہوئے ہنس کر بولا ’’کیا تم بھی شور مچائو گی؟‘‘
’’ہاں میں بھی شور مچائوں گی۔‘‘ وہ ذرا چیخ کر بولی، تو سب نے حیران ہوکر اسے سر سے پائوں تک دیکھا۔ جولی ہنسی ’’مگر تم تو کہیں سے بھی ان انتہا پسندوں جیسی مسلمان نہیں لگتی ہو۔‘‘
چندرانی فوراً بولی ’’سوری ٹو سے… تمہیں دیکھ کر تو یہ بھی نہیں لگتا کہ تم ایک مسلمان لڑکی ہو، تم تو ہمارے جیسی ہو۔ تمہارا لباس، تمہاری سوچ سب ہمارے جیسی ہے۔‘‘ ان کی ہنسی کے درمیان فرح کی سخت اور بلند آواز ابھری ’’نہیں ہوں میں تمہارے جیسی… نہیں ہوں۔ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں میری سوچ تم سب سے جدا ہے، تم سب سے الگ۔ اس لیے کہ وہ میرے رسول ہیں۔‘‘
اس کی آنکھیں غم و غصے سے لال تھیں اور پورا جسم لرز رہا تھا۔ اس کے دوستوں نے اسے پہلے کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھا تھا۔
’’کول فرح! کول… کام ڈائون۔ آئو ہم کہیں باہر چل کر بیٹھتے ہیں۔‘‘ چندرانی نے اس کا ہاتھ کھینچ کے کہا۔ اسے لگا چندرانی کے ہاتھ پر ہزاروں نوکیلے کانٹے ہیں۔ اس نے فوراً اپنا ہاتھ واپس کھینچا۔ جولی نے جلدی سے اس کے گرد اپنے بازو حائل کرتے ہوئے کہا ’’کم آن فری! ہم سب دوست ہیں، ہمارا آپس میں کوئی اختلاف نہیں… اچھا چھوڑو ہم کوئی اور بات کرتے ہیں۔ آئو ہم چلیں۔‘‘
وہ جولی کو پرے کرتے ہوئے چلاّ کر بولی ’’نہیں… نہیں ہوں میں تمہارے جیسی۔ اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں مَیں بھی ان پاگلوں جیسی ہی ہوں۔‘‘ اس نے سامنے کھڑے مسلم یوتھ لیگ کے طلبہ کی طرف دیکھا تو وہاں اسے فاطمہ پھر اشارہ کرتی ہوئی نظر آئی، جو اسے اپنے ساتھ شامل ہونے کا کہہ رہی تھی۔ فرح نے اپنے دوستوں کی طرف دیکھ کر کہا ’’اچھا تم میرے دوست ہو، تو آئو میرے ساتھ اور میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کے حق میں آواز اٹھائو۔‘‘ اس نے ان سب کو اس احتجاجی ریلی کا حصہ بننے کی دعوت دی۔ مگر اس نے دیکھا سب اس سے نظریں چرا کر بہانے بنانے کا سوچ رہے تھے۔ آخر مارتھا بولی ’’سوری… ہم تمہارے ساتھ کیسے آسکتے ہیں! یہ تمہارے نبی کا معاملہ ہے۔‘‘ اس کے جواب سے فرح کی آنکھوں میں رکے آنسو تیزی سے بہنے لگے۔ اس نے ایک آخری نظر ان پر ڈالی اور یہ کہتے ہوئے ریلی کی طرف بڑھ گئی ’’آج سے ہمارے راستے جدا ہوئے، نہ تم میرے جیسے ہو، نہ میں تمہارے جیسی… تمہارا مذہب تمہارے لیے اور میرا دین اسلام میرے لیے۔‘‘
اسے خیال آرہا تھا کہ وہ کئی بار ان کے ساتھ ان کی عبادت گاہوں تک گئی تھی، کتنی بار اس نے ان کے مذہبی معاملات کو اپنا معاملہ جانا تھا۔ تب اسے نانی کی ہر روز کی نصیحت یاد آئی، وہ کہا کرتی تھیں ’’میری ایک بات یاد رکھنا فرح! یہ یہود و نصاریٰ کبھی ہمارے دوست نہیں ہوسکتے، ان کے دلوں میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جو حسد اور بغض ہے وہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا، اس لیے خود اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ دوستی رکھنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘
اس نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے شرمندگی سے سر جھکا لیا کہ وہ کتنی نادان تھی جو اپنے دشمنوں سے محبت کرتی رہی۔ فاطمہ نے اسے دیکھا تو خوشی سے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ محبت سے تھاما اور اسے بلند کرتے ہوئے جوش سے نعرہ لگایا ’’میرے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بلند سب سے جدا… ان پر اپنی جاں فدا جاں فدا‘‘۔
فرح کے لب بھی کانپے ’’صلی اللہ صلی اللہ‘‘ ساتھ ہی اس کا ہاتھ بے ساختہ اپنے سر کی طرف بڑھا۔ وہ چاہتی تھی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیتے ہوئے اپنا سر عقیدت سے ڈھک لے، مگر اس کے پاس دوپٹہ کہاں تھا…؟ وہ شرم سے زمین میں گڑ گئی۔ اس نے اپنے ساتھ کھڑی مسلم یوتھ ونگ کی لڑکیوں کو دیکھا جو سب کی سب حجاب اوڑھے مکمل ساتر لباس میں تھیں۔ اس کے دل نے روتے ہوئے کہا ’’رسولؐ کی محبت بنا ان کی اطاعت ہوتی ہے کیا؟‘‘ وہ روتی ہوئی اس ہجوم سے نکلی اور اپنے وجود کو اپنے بازوئوں میں چھپاتی کار پارکنگ کی طرف بھاگ گئی۔ گھر آکر وہ نانی کی گود میں چہرہ چھپائے مسلسل روتی ہوئے یہی کہے جارہی تھی ’’نانو! پتا نہیں مجھے کیا ہوگیا تھا، جیسے ہی میرے کانوں نے سنا کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہورہی ہے میرا دل تڑپ اٹھا، میرے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے، جی چاہا جاکر ان لوگوں کا منہ نوچ لوں، انھیں شوٹ کردوں۔‘‘ اس نے اپنی نم آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن تم وہاں سے بھاگ کیوں آئیں؟ تمہیں اس ریلی کا حصہ بننا چاہیے تھا، ان گستاخانہ خاکوں کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا چاہیے تھا۔‘‘
’’نانو! میں نے دیکھا میں ان احتجاج کرنے والی لڑکیوں جیسی باحجاب نہیں تھی۔ میرا حلیہ، میرا لباس تو جولی اور چندرانی جیسا تھا، میرے خیالات بھی آج سے پہلے انہی جیسے تھے۔‘‘ وہ پہلی بار ایسا کہہ رہی تھی، تبھی اس کی زبان اٹک رہی تھی۔
نانو کے چہرے پر معنی خیز پُرسکون مسکان پھیلی، انھوں نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا ’’تم نہیں ہو اُن جیسی… تم ہرگز نہیں ہو اُن جیسی۔ الحمدللہ تم مسلمان ہو، تمہارے دل میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے، تم خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہو۔‘‘ وہ پیار سے اسے سمجھا رہی تھیں، مگر اس کے آنسو نہیں تھم رہے تھے۔
’’نانو! خالی محبت سے کیا ہوتا ہے! میرے اعمال تو…‘‘
نانو نے اس کی بات کاٹی ’’محبت پہلی سیڑھی ہے اطاعت کی منزل کی، اور اطاعت پہلا قدم ہے عشق کے سفر میں۔‘‘
’’کیا مطلب نانو؟‘‘ اسے نانو کی باتیں سمجھ نہیں آرہی تھیں۔
نانو مسکرا کے بولیں ’’محبت بھی ایک نعمت ہے۔ الحمدللہ، اللہ نے تمہیں اس نعمت سے محروم نہیں رکھا۔ بس اب اطاعت کا سفر شروع کرو اور اسلام کی داعی بن کر ایسے کفار اور گستاخ لوگوں کا منہ توڑ دو۔‘‘ وہ بڑے جوش سے کہہ رہی تھیں اور فرح کو بات کچھ کچھ سمجھ آرہی تھی کہ اسلام دشمن عناصر کا مقابلہ کرنے کے لیے آج کی نوجوان نسل کا اسلامی تعلیمات سے بہرہ مند اور باعمل ہونا کتنا ضروری ہے۔
اگلی صبح وہ ایک ڈھیلے ڈھالے ساتر لباس میں حجاب اوڑھے بڑے اعتماد اور وقار کے ساتھ یونیورسٹی میں موجود تھی۔ اس کے سارے غیر مسلم دوست حیرانی سے دور کھڑے اسے دیکھ رہے تھے۔ آج اُن کے درمیان فاصلے کی ایک دیوار کھڑی تھی جسے پار کرنے کی جرأت شاید ان میں سے کسی کو نہ تھی۔ فرح کو البتہ یہ محسوس ہورہا تھا کہ وہ اپنی شناخت کے مضبوط حصار میں ہے اور اب کوئی نہ تو اس کا مذاق اڑا سکتا ہے، نہ اسے نقصان پہنچا سکتا ہے۔ وہ اعتماد سے آگے بڑھی اور اس احتجاجی ریلی کا حصہ بن گئی جو گستاخانِ رسول کے خلاف پریزیڈنٹ ہائوس کے سامنے دھرنا دینے والی تھی۔ اطاعت کے سفر پر اس کے قدم تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے اور دل سے لبوں تک محبت بھرے نعرے تھے ’’سب نبیوں میں اونچی محمدؐ کی شان ہے، ناموسِ رسالت پر ہماری جان بھی قربان ہے…‘‘ اور گھر پر نانو اپنی دعاؤں کی قبولیت پر رب کے حضور سجدہ ریز تھیں۔

حصہ