سکوتِ مرگ

232

برقی قمقموں کی دو رویہ قطار گلی کے کونے پر واقع مسجد سے لے کر گلی کے آخر میں شیخ صاحب کے گھر تک اپنی روشنی بکھیر رہی تھی۔ شیخ صاحب ہر سال اپنے گھر پر اہلِ محلہ اور عزیزو اقارب کے لیے محفلِ نعت کا اہتمام کرتے تھے جو رات گئے تک جاری رہتی۔ اِس سال اہلِ محلہ نے مسجد سے لے کر اُن کے گھر تک کے راستے کی پوری جانفشانی اور خلوص سے آرائش کی تھی۔
شیخ صاحب محفل کے لیے اتنے اعلیٰ ساؤنڈ سسٹم کا اہتمام کرتے تھے کہ اہلِ محلہ گھر بیٹھے ہی سارا بیان اور نعتیہ کلام سن سکتے تھے۔ پھر بھی نوجوان، خواتین اور بچے زرق برق لباس میں بھرپور تیاری کے ساتھ سرِ شام ہی محفل میں پہنچ گئے تھے۔ ان کے سامنے والے گھر کی بالکونی سے نسیم صاحب اور ان کی بیگم محلے کی رونق دیکھ رہے تھے۔ مغرب کی اذان بلند ہوئی تو نسیم صاحب مسجد کی جانب چل دیے اور بیگم صاحبہ اذان دہرانے لگیں۔
عشا کے بعد شروع ہونے والی میلاد النبی کی محفل رات کے کسی پہر ختم ہوگئی اور شرکا ہنستے بولتے شیرینی ہاتھوں میں تھامے اپنے گھروں پر واپس آگئے۔ کچھ دیر بعد گھروں سے آنے والی آوازیں بھی ختم ہوئیں، روشنیاں گل ہوئیں اور ماحول نے نیند کی چادر اوڑھ لی۔
اذانِ فجر سے کچھ قبل ہی نسیم صاحب اُٹھ چکے تھے۔ نماز کی تیاری اورکچھ نوافل پڑھنے کی توفیق بھی ملی۔ اتنے میں اُن کی بیگم بھی اٹھ گئیں اور بچوں کو جگانے چلی گئیں۔ دور کی مساجد سے اذانوں کی ہلکی آوازیں آرہی تھیں۔ جیسے ہی محلے کی مسجد سے ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا بلند ہوئی باہر گاڑی کے نیچے بیٹھے دونوں کتے خوف ناک طریقے سے بھونکنے لگے اور مؤذن کے ’’اشہدان محمد عبدہ و رسولہ‘‘ کے کلمات کی ادائیگی تک بھونکتے ہی رہے۔ کئی دن سے ایسا ہی ہورہا تھا۔ نسیم صاحب کبھی اذان کے کلمات دہراتے اور کبھی استغفار پڑھنے لگتے۔
مؤذن نے حی علی الصلوٰۃ کے کلمات ادا کیے اور کتوں نے جیسے چپ سادھ لی اور حی علی الفلاح کہنے تک تو جیسے موت ہی ان پر طاری ہوگئی۔ برابر کے گھر سے گیٹ کھلنے کی آواز آئی اور نسیم صاحب اذان کی دعا دہراتے ہوئے باہر چل دیے۔
بزرگ پڑوسی رحمان بابا چھڑی تھامے انہی کے منتظر تھے۔ کتوں کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر نسیم صاحب ان کو ساتھ لے کر ہی نمازِ فجر ادا کرنے جاتے تھے۔ سو انہوں نے رحمان بابا کا ہاتھ تھاما اور مسجد کی طرف قدم بڑھا دیے۔
ادھر آسمانوں کی بلندی پر ایک ہلچل مچی ہوئی تھی، ویسی ہی ہلچل جیسے کسی کارخانے میں شفٹ تبدیل ہوتے وقت ہوتی ہے۔ گھر جانے والا ورکر ڈیوٹی پر نئے آنے والے ورکر کو کام منتقل کرکے جا رہا ہوتا ہے اور پھر کچھ دیر بعد کارخانہ اپنے معمول پر واپس آچکا ہوتا ہے۔ ازل سے جاری شب وروز کے اس کارخانے میں بھی فرشتوں کی شفٹ تبدیل ہونے کا یہی وقت ہوتا ہے۔ جانے والے فرشتوں نے رجسٹر منتقل کیے اور آنے والے فرشتوں نے اپنے فرائض سنبھال لیے۔ قلم تھام لیے گئے۔ حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کی پکار پر لبیک کہنے والوں کے نام فوراً ہی درج کرلیے گئے، اور سوتے رہ جانے والوں کے لیے فرشتے انتظار کرنے لگے کہ شاید طلوع خورشید سے قبل کوئی نماز ادا کرلے۔
فضا میں خنکی غالب تھی، آرائشی بلبوں پر شبنم کی نمی آنسوؤں کی مانند جم رہی تھی…کتے خاموش ہوچکے تھے اور گلی پر سکوتِ مرگ طاری تھا۔

حصہ