میری محبت

297

میں کوچنگ میں کلاس لے رہا تھا کہ پرنسپل ایک شخص کو لے کر داخل ہوئے۔
بولے: ’’یہ سر بصیر ہیں، اب ہم نے جرمن زبان سکھانے کے لیے بھی کلاسز کا آغاز کیا ہے تو یہ جرمن لینگویج سکھائیں گے۔‘‘
چہرے مہرے سے جرمن دکھائی دینے والے بصیر سر سے گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو اندازہ ہوا کہ وہ بظاہر جرمن دکھائی دینے والا ختم نبوت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھنے والا، اور ختمِ نبوت کے لیے اپنی جان وارنے والا ہے۔
میں اس کے جرمن بولنے پر حیران تھا۔ میں نے پوچھا ’’اتنی صاف زبان بولنے پر تم وہاں سے کیوں واپس آگئے؟‘‘ وہ بات کو گھما گیا۔
ماہِ ربیع الاوّل کا آغاز تھا۔ سارا شہر روشنیوں اور جھنڈوں سے سجا تھا۔ اونچی آواز میں چلتی نعتوں کے ذریعے عشقِ رسولؐ کا اظہار کیا جارہا تھا۔
بصیر کوچنگ میں داخل ہوا اور مجھ سے جرمن لہجے میں گویا ہوا ’’یہ سب کیا ہے؟‘‘
سر سے پائوں تک میں نے اُس کے سیکولر حلیے کو عجیب سی نظروں سے دیکھا جس میں کچھ کچھ طنز بھی شامل تھا۔ میں نے کہا ’’یار! ربیع الاوّل ہے۔‘‘ میرا لہجہ جتا دینے والا تھا۔ ’’یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘
وہ میرے لہجے کی سختی کو جان چکا تھا، بولا ’’تم اکثر پوچھتے ہوناں کہ تم وہاں سے کیوں واپس آگئے؟‘‘
سر احمد نے بصیر کے چہرے کو دیکھا تو وہ کہیں اور ہی کھویا ہوا تھا۔
’’میں اس بدنامِ زمانہ تنظیم کا حلف یافتہ کارکن تھا، پڑھائی میں اچھا تھا، والدین نے تنگ آکر جرمن سکھا کر جرمنی روانہ کردیا۔ ذہین تو تھا، جرمنوں سے بھی اچھی جرمن بولنا سیکھ لی۔ وہاں جاکر ملک اور مذہب سے زیادہ محبت ہوگئی۔ اسلامک سینٹر باقاعدگی سے جانے لگا۔ وہیں پر دین کے بارے میں جانا، نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا۔ اکثر ایک کولیگ جو چہرے اور نام سے مسلمان کہلاتا تھا، نماز وغیرہ پڑھتا تھا، ہم اُس کے گھر جاتے۔ محل نما اُس کا گھر جس میں سامانِ تعیشات بھرا تھا۔ ایک دن ختمِ نبوت پر بحث ہوگئی۔
اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے۔ میں نے کچھ نہ دیکھا نہ سوچا، اُس پر پل پڑا۔ پتا نہیں کس نے میرے اوپر شراب کی کلیاں کردیں۔ اتنے میں پولیس آئی اور ہم دونوں کو گرفتار کرکے لے گئی۔ کورٹ میں مقدمہ پیش ہوا، وہ تو قادیانی تھا اس لیے چھوٹ گیا۔
میں کئی دن جیل میں رہا۔ پھر شراب کی اس کلی کی وجہ سے مجھے نشے کی حالت میں قرار دے کر رہا کردیا گیا۔ پتا نہیں وہ کلی کرنے والا اس رش میں کون جس کی وجہ سے مجھے رہائی ملی اور یوں میں پاکستان آگیا۔‘‘
اس نے داستان سناکر لمبی سانس کھینچی۔ ’’وہاں فرانس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بے ہودہ خاکے بنائے جا رہے ہیں، اور یہاں پر یہ مسلمان اور مسلم حکمران آپؐ سے کون سی محبت کا اظہار کررہے ہیں؟ اس محبت کا کیا فائدہ؟‘‘
وہ بڑبڑاتا ہوا باہرنکل گیا۔

حصہ