دہر میں اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اُجالا کردے

963

دل بہت اداس اور مضطرب ہے کیوں کہ آئے روز مغربی دنیا سے بعض بدبخت اور سوختہ بخت ہمارے نبی مصطفیؐ کے خلاف فلموں اور کارٹونوں کے ذریعے ہر زہ سرائی کرتے رہتے ہیں اور صدیوں سے وہ ایسا کرتے آ رہے ہیں۔ مگر اسی یورپ میں ایسے لوگ بھی بہت ہیں کہ جنھوں نے تعصب کی عینک اتار کر جب حیات طیبہ پر نگاہ ڈالی تو انہیں یقین ہو گیا کہ آنجنابؐ کی ذاتِ اقدس عظیم تر ہے۔ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ آپ امام الانبیاؐ ہی نہیں آپ سیدّ البشرؐ بھی ہیں اور بجا طور پر دُنیا کی امامت و سیادت کے آپؐ مالک ومختار ہیں۔ انیسویں صدی کے ہیرو پرست انگریز مصنف ٹامس کا رلائل میں جرمن زبان وادب کے مطالعے سے شخصیت پرستی کا رجحان بڑھا اور اس نے مردِ کامل کی تلاش میں دنیا کے عظیم رہنمائوں کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا۔ کارلائل نے لندن میں شخصیت پرستی کے موضوع پر لیکچر دیے۔ اس نے جس روز ہیرو بحیثیت پیغمبر کے موضوع پر لیکچر دینا تھا تو ہر کوئی امید لگائے بیٹھا تھا کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو منتخب کرے گا مگر کارلائل نے اس منصب جلیل کے لیے جناب مصطفیؐ کا نام نامی اور اسمِ گرامی پیش کیا تو اس کے اکثر سامعین ناراض ہو کرہال سے باہر نکل گئے مگر جب کارلائل نے جناب مصطفی ؐ کی حیاتِ طیبہ کے سنہرے اوراق پلٹے تو ناراض سامعین ایک ایک کرکے واپس آ گئے اور وہ محمد مصطفی ؐکی سیرت پاک کے واقعات سن کر اَش اَش کر اٹھے۔
مغرب آج تک مسلمانوں اور اُن کے نبیؐ کے درمیان رشتۂ عقیدت و محبت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ عشق بڑی عجب شے ہے۔ عشق کا جذبہ اللہ نے ہر انسان کو ودیعت کیا ہے۔ کوئی دل حتیٰ کہ سنگ دل بھی اس عظیم جذبے سے خالی نہیں۔ کسی کو انسانوں سے عشق ہوتا ہے، کسی کو مناظر سے عشق ہوتا ہے‘ کسی کو صنفِ نازک سے عشق ہوتا ہے۔ مگر یہ بڑی حیرت ناک بات ہے کہ دُنیا کے طو ل و عرض میں بسنے والے ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں سے شاید ہی کوئی بدبخت ایسا ہو جسے محمدؐ کی ذاتِ بابرکات سے عشق وعقیدت اور محبت والفت نہ ہو۔ مسلمان عالم ہو یا عامی‘ مسلمان متقی ہو یا عاصی، مسلمان افریقی ہو یا امریکی، مسلمان گورا ہو یا کالا، مسلمان عربی ہو یا عجمی، مسلمان آقا ہو یا غلام، مسلمان حاکم ہو یا محکوم وہ رسول اللہ ؐ کی ذاتِ مبارکہ سے زبردست عشق رکھتا ہے۔
اب بھی جذباتی نہ ہوں تو پھر کب ہوں۔ میرے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی اولاد اور مال و متاع سے کہیں بڑھ کر عزیز ہیں۔ اب جذبات تو کیا جسم و جاں کا پورا وجود خون کے آنسو رو رہا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ پھرسے کوئی ترکھان کا بیٹا مثلِ غازی عَلم دین اٹھے اور ان مردودوں کو سبق سکھا دے۔ سیاسی‘ علمی‘ مذہبی اور سوشل میڈیا کے محاذوں پر ہمارے لوگ اور ہم سب برسرِپیکار ہیں لیکن ان سب کا کتنا نتیجہ نکل رہا ہے‘ وہ ہم سب جانتے ہیں۔ لاکھوں کے حساب سے ہر روز ہم اور ہمارے جیسے کتنے ہی مسلمان ٹویٹر‘ فیس بک‘ انسٹاگرام اور مختلف سماجی ویب سائیٹس پر ان ملعونوں کے گروپس پیجز رپورٹ کرتے ہیں لیکن ان کے پیجز بلاک نہیں ہوتے۔ لیکن کشمیر کاز ہو یا فلسطین و برما ایشو ہما رے پیجز بلاک کردیے جاتے ہیں۔ ہم جذبات کے ساتھ باہوش ہوکر مسلسل ان کے خلاف شکایات درج کروائیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جو کام جذباتی ہوکر عشق کروا لیا کرتا ہے‘ عقل محو حیرت ہوتی ہے کہ یہ میں نے کیا کر دیا۔ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق بننے کے لیے ضروری ہے کہ طاغوت کی لگائی ہوئی آگ میں بے خطرکود جایا جائے۔ عقل کا کیا ہے وہ تو ابھی تک محو تماشائے لب و بام کھڑی آپ کو آنے والے واقعات سے ڈراتی رہے گی۔

آگ ہے اولادِ ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
٭
کودے گا جو اس آگ میں وہ کامراں ہو جائے گا
اسلام غالب آئے گا ، اسلام غالب آئے گا

بیس پچیس برس پہلے کی بات ہے کہ جب مائیکل ہارٹ نے تاریخِ انسانی کی اہم ترین سو شخصیات کا انتخاب کیا تو اس نے سرِ فہرست آنجنابؐ کی ذاتِ مبارکہ کو رکھا۔ اپنے اس انتخاب کی تشریح کرتے ہوئے مائیکل ہارٹ نے کہا کہ تاریخ انسانی کی ایک سو چنیدہ ہستیوں میں پہلے نمبر پر جناب مصطفی ؐ کا اسمِ گرامی رکھنے کا سبب یہ ہے کہ تاریخ انسانی میں وہ واحد ہستی ہے جو دینی و دنیاوی دونوں میدان میں کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوئی۔ ایک معمولی سے پس منظر سے تعلق رکھنے کے باوجود محمدؐ نے دنیا کے بہت بڑے مذہب کی طرف نہ صرف دعوت دی بلکہ انتہائی مؤثر سیاست دان کی حیثیت سے بھی اپنا لوہا منوایا اور آج تیرہ صدیاں گزر جانے کے باوجود اُن کا اثر نہ صرف قائم ہے بلکہ بڑھتا جا رہا ہے۔
مشہور بیورو کریٹ اور ادیب قدرت اللہ شہاب نے اس سلسلے میں مسلمانوں کے جذبات کا تجزیہ کرتے ہوئے کافی حد تک صحیح لکھا ہے ’’رسول خدا کے متعلق اگر کوئی بد زبانی کرے تو لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ تو مرنے کی بازی لگا بیٹھتے ہیں، اس میں اچھے، نیم اچھے، برے مسلمان کی بالکل کوئی تخصیص نہیں، بلکہ تجزیہ تو اسی کا شاہد ہے کہ جن لوگوں نے ناموس رسالتؐ پر اپنی جانِ عزیز کو قربان کردیا، ظاہری طور پر نہ تو وہ علم و فضل میں نمایاں تھے اور نہ زہد و تقویٰ میں ممتاز تھے، ایک عام مسلمان کا شعور اور لاشعور جس شدت اور دیوانگی کے ساتھ شانِ رسالتؐ کے حق میں مضطرب ہوتا ہے، اُس کی بنیاد عقیدے سے زیادہ عقیدت پر مبنی ہے، خواص میں یہ عقیدت ایک جذبے اور عوام میں ایک جنون کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔‘‘
ایک عام مسلمان کا حضور اکرمؐ کے ساتھ عقیدت و محبت کا یہ عالم ہے کہ وہ ناموسِ رسالتؐ پر کٹ مرنے کو اپنے لیے سرمایۂ فخر سمجھتا ہے اور مولانا محمد علی جوہرؒ کی ایمانی غیرت و حمیت کے یہ الفاظ تقریباً ہر مسلمان کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں ’’جہاں تک خود میرا تعلق ہے، مجھے نہ قانون کی ضرورت ہے، نہ عدالتوں کی حاجت۔ سرور کونینؐ اور باعثِ تکوین دو عالمؐ کا تقدس میرے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، اگر کوئی بدبخت اس کا اتنا پاس بھی نہیں کرتا کہ اس برگذیدہ ہستی کی توہین کر کے میرے قلب کو چور چور کرنے سے احتراز کرے تو مجھ سے جہاں تک صبر ہو سکے گا، صبر کروں گا، جب صبر کا جام لبریز ہوجائے گا تو اٹھوں گا اور یا تو اس گندا دل، گندا دماغ، گندا دہن کافر کی جان لے لوں گا یا اپنی جان اس کی کوشش میں کھودوں گا۔‘‘ (مولانا محمد علی جوہر، آپ بیتی اور فکری مقالات، صفحہ :232)۔
ربیع الاوّل میں ایک بار پھر دُنیا بھر کے طاغوت یک زبان ہوکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف صف بندی کرچکا ہے۔ آئے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی اور اس کے رد عمل کے طور پر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے پر دنیا بھر کے مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔
بنگلہ دیش میں فرانس کے خلاف بڑا احتجاج کیا گیا جس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور میکرون کے بیانات کے خلاف لوگ سڑکوں پر آ گئے۔ اطلاعات کے مطابق مظاہرے میں 50 ہزار سے زائد لوگوں نے شرکت اور شدید احتجاج کیا‘ فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ڈھاکا، چٹا گانگ، کومیلا اور غازی پور سمیت مختلف شہروں میں فرانسیسی حکومت کی سرپرستی میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ‘ سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے جریدے ’’وطن امروز‘‘ کے صفحہ اوّل پر ’’پیرس کا ابلیس‘‘ کے عنوان سے فرانسیسی صدر میکرون کا خاکہ شائع کیا گیا ہے۔ اس خاکہ پر یورپی مفکرین کافی سیخ پا ہیں۔ فرانس کے صدر ملعون میکرون پر فلسطینیوں کی جانب سے شدید احتجاج دیکھنے میں آیاہے۔ اسرائیل میں موجود عربوں کا پیغمبر اسلام ؐسے شدید محبت کے اظہار میں مظاہرے کیے گئے۔ یمن ہو یا لیبیا کے عوام‘ سب عشق رسول ؐ میں ہاتھ میں فدِاکَ اَبی و اْمی یا رسول اللہ صلی اللہْ علیہِ و آلہِ وسلِم کے بینرز‘ پوسٹر اور کارڈز اٹھائے موسم کی سختی کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی اولاد و اہل خانہ کے ہمراہ گستاخوں کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں۔ اردن کے تاجروں نے فرانس سے معاشی بائیکاٹ کرتے ہوئے اپنے بڑے بڑے اسٹورز سے فرانس کی تمام اشیا کی کاروباری ترک تعلق کا عزم کیا ہے۔ ان کے بڑے بڑے تاجروں کا کہنا ہے کہ اگر انہیں اظہار رائے کی آزادی ہے تو پھر ہمیں بھی اظہار رائے کا پورا حق ہے۔ پاکستان نے بھی فرانس کے سفیر کو بلوا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے فرانس کے صدر میکرون کی دماغی صحت پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ میکرون کو دماغ کے علاج کی ضروت ہے، انہوں نے کہا ایسے صدر کے بارے میں کیا کہا جائے جسے عقیدے کی آزادی کی سمجھ نہیں اور اپنے ملک میں بسے لاکھوں لوگوں کے بارے میں ایسا رویہ رکھے جن کا تعلق مختلف عقائد سے ہو۔ ترک صدر کے اس بیان پر فرانس نے انقرہ سے اپنے سفیر کو واپس بلوا لیا۔ ہالینڈ کے وزیراعظم نے صدر رجب طیب اردوان کے مؤقف کے خلاف فرانس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
حکومتی سطح پر کوئی کچھ کرے نہ کرے، ہم اپنی ذات کے لیے جواب دہ ہیں کہیں خدا نخواستہ روز محشر اللہ رب العزت ہم سے یہ نہ کہے کہ جب میرے محبوبؐ پر حملے ہو رہے تھے تو تم کیوں خاموش تھے؟ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو عوام کی آواز بنتے ہوئے اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت کی درست و ٹھوس منصوبہ سازی کرنی ہوگی۔ کیوں کہ جب اسلامی ممالک کے حکمران منصوبہ ساز نہیں ہوں گے تو پھر اُمتِ مسلمہ کا ہر فرد کھڑا ہوگا۔
ہم تو یہاں اپنے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صرف ایک نہیں کئی محاذوں پر صف آرا ہیں۔ یہاں کبھی کتابوں سے خاتم النبیین کے الفاظ ختم کردیے جاتے ہیں‘ کبھی شاتم الرسول کو ملک سے باہر بھیج دیا جاتا ہے‘ کبھی لبیک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہنے والے سپاہی کو شاتم الرسول کو مارنے کی پاداش میں سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ اسلامی ملک کے باشندے ہونے کے ناتے ہم حکومت کے ہر غلط اقدام پر احتجاج بھی کرتے ہیں اور دبائو بھی ڈالتے ہیں کہ وہ ایسے سفیروں کو طلب کر کے اپنا اور اپنے شہریوں کااحتجاج ریکارڈ کروائے۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم ایسے نہ بن جائیں کہ روز قیامت خدانخواستہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے منہ موڑ لیں اور ہمیں حوضِ کوثر سے محروم کردیں کہ جب میری عزت و ناموس پر حملے ہورہے تھے تو تم خاموش اور مطمئن برداشت کرتے رہے۔ تمہارے دل میں اس کے خلاف کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ تم جو اپنے والدین یا اپنی اولاد تک کی ہجو برداشت نہیں کرسکتے تھے‘ تمام جہانوں کے رب کے محبوب ترین بندے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر حملے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے رہے۔ وہ آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنی امت کے غم میں راتوں کو روتا تھا‘ اُس نبیؐ کے امتی ہوتے ہوئے بھی تمہیں اس بات سے حیا نہیں آئی کہ نبیؐ کی حرمت میں باطل کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جائو۔ تم نے طاغوت کی لگائی ہوئی نفرت کی آگ میں اس چڑیا کا کردار تک ادا نہیں کیا کہ جو اپنی ننھی چونچ سے آگ میں پانی کا قطرہ ڈالتی تھی کہ روزِ قیامت اس کا شمار آگ بجھانے والوں میں کیاجائے نا کہ آگ لگانے والوں میں۔ جان لیجیے یہی وقت ہے اپنا احتجاج ہر محاذ پر ریکارڈ کروانے کا‘ یہ کوئی عام معاملہ نہیں‘ میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کا معاملہ ہے۔ دنیاکے تمام معاملات ایک طرف اور ایک مسلمان کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت ایک طرف۔ ہماری اوّلین ترجیح بس یہی ہونی چاہیے۔ اپنی اولاد‘ اپنی رعیت کو اس محبت سے روشناس کروانا ہم سب کا فرض ہے۔ اللہ ہم سب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر صحیح معنوں میں چلنے والا بنادے‘ اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو اپنی زندگی کی سب سے اوّلین ترجیح بنادے۔ بقول اقبال

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دے

حصہ