اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے لیے ہادی، مرشد اور پیغمبر بناکر بھیجا۔ آپؐ کی سیرتِ طیبہ کا ہر ہر رخ ایسا ہے جو دنیا کے ہر انسان کے لیے نمونہ ہے۔ کسی بھی شخص کے کردار کو جانچنے کے لیے اس کی گھریلو زندگی اور خصوصاً بیوی کی گواہی ایک اہم کسوٹی ہوتی ہے، کیوں کہ بیوی اپنے شوہر کے رازوں کی امین اور اس کی گھریلو زندگی کی نقاد و گواہ ہوتی ہے۔ آپؐ کی ازواج مطہرات عوامی نمائندے کی حیثیت سے آپؐ کی خانگی زندگی کے ہر ہر پہلو کی نشاندہی کرتی تھیں۔ آپؐ نے اپنے دوستوں اور بیویوں کو یہ اجازت دی تھی کہ وہ بے خوف و خطر جہاں حرف گیری کی گنجائش پائیں، کرسکتے ہیں۔ چنانچہ ازواجِ مطہرات پوری دیانت و امانت کے ساتھ آپؐ کی زندگی کا ہر ہر پہلو عوام کے سامنے پیش کرتی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’جو خلوت میں دیکھو وہ جلوت میں بیان کردو۔‘‘
آپؐ کی ازواجِ مطہرات بھی آپؐ کی طرح عبادت میں مشغول رہتیں۔ اس مشن کی یاددہانی اللہ تعالیٰ نے سورہ جمعہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کو اس وقت کرائی جب کہ منافقین شرانگیزی پھیلا کر اس گھر کو نشانہ بنائے ہوئے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح آپؐ کی ازواجِ مطہرات کو اس اعلیٰ نصب العین سے ہٹاکر دنیاوی اور مادّی لذتوں کی طرف مائل کردیں۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ان کو یاد دلایا ’’وہی ہے جس نے بھیجا امیوں میں سے ایک رسول، جو انہی میں سے ان کو سناتا ہے اللہ کی آیتیں، اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو سکھاتا ہے کتاب اور حکمت‘‘ (سورہ جمعہ)۔ پھر سورہ احزاب میں ازواجِِ مطہرات کو یاددہانی کرائی گئی ’’اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو۔ پس تم اپنے لہجے میں ایسی نرمی نہ اختیار کرو کہ جس کے دل میں روگ ہے وہ کسی طرح خام خیالی میں مبتلا ہوجائے۔ دستور کے مطابق بات کیا کرو، اپنے گھر میں ٹک کر رہو اور گزرے ہوئے زمانۂ جاہلیت کی سی نمائش نہ کرو، اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو، اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتی رہو۔ اللہ تو بس یہی چاہتا ہے کہ تم سے دنیا کی آلائش دور رکھے۔ اے نبیؐ کے گھر والو! اللہ تمہیں اچھی طرح پاک کرنا چاہتا ہے اور تمہارے گھر میں جو اللہ کی آیتیں اور حکمت کی باتیں کی جاتی ہیں ان کا چرچا کرو۔ اللہ لطیف و خبیر ہے۔‘‘ (سورۃ احزاب 34-32)۔
آپؐ کی ازواجِ مطہرات کا مرتبہ اللہ نے جتنا اونچا بنایا تھا اسی اعتبار سے ان کی ذمے داریاں بھی زیادہ تھیں۔ دوسروں کے مقابلے میں ان کا اجر بھی دگنا تھا اور جرم پر سزا بھی دگنی تھی۔ سورہ احزاب کی آیات 30 اور 31 میں ارشاد ہوا ’’اے پیغمبر کی بیویو! جو تم میں سے کھلی ہوئی برائی کی مرتکب ہوگی تو اسے دہری سزا دی جائے گی، یہ اللہ کے لیے سہل بات ہے، اور جو تم میں سے اللہ اور اس کے رسولؐ کی فرمانبرداری کرتی رہے گی اور بھلے کام کرتی رہے گی تو ہم اسے اس کا اجر بھی دہرا دیں گے، اور اس کے لیے ہم نے عزت کا رزق تیار کر رکھا ہے۔‘‘
آپؐ ازواجِ مطہرات کی ان کی ذمے داریوں سے ہمیشہ باخبر رہتے اور ان کو آخرت کی کامیابی کا احساس دلاتے رہتے تھے۔ آپؐ فرمایا کرتے ’’اپنی آخرت کے لیے جو کچھ کرسکتی ہو، کرلو۔ میں وہاں تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔‘‘ آپؐ کا ارشاد ہے’’تم میں سے سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں سے بہتر سلوک کرتے ہیں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح تعلیماتِ قرآنی پر سب سے زیادہ اہتمام خود فرماتے تھے اسی طرح ازواجِ مطہرات اور اہلِ بیتِ نبوت پر یہ ذمے داری ڈالی گئی تھی کہ وہ اپنے گھر سے پھیلنے والے چشمۂ نور سے پہلے خود اچھی طرح منور ہوں، پھر اس روشنی سے دوسروں کو منور کریں۔ جس اعلیٰ مقصد کے لیے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دن رات ایک کررکھے تھے، اسی مقصد میں آپؐ کی ازواج بھی دل و جان سے منہمک تھیں۔ انہوں نے اس پاکیزہ زندگی کا انتخاب خود اپنی مرضی سے کیا تھا اور آپؐ کی رفاقت کو دنیا پر ترجیح دی تھی۔ سورہ احزاب میں آیات 28 سے 30 تک ارشاد ہوا ’’اے نبی کی بیویو! اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کی طالب ہو تو آئو میں تمہیں تمہارے حقوق دے دلا دوں اور خوب صورتی کے ساتھ تم کو رخصت کردوں، اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کی طالب ہو تو اطمینان رکھو کہ اللہ نے تم میں سے خوبی طلب کرنے والیوں کے لیے بہت بڑا اجر تیار رکھا ہے۔‘‘ ان آیات کے نزول کے بعد آپؐ کی ازواج کا جذبہ اور فزوں ہوگیا اور ہر ایک نے الگ الگ یہی کہا: ’’آپؐ کی رفاقت کے سامنے تمام دنیا کی سلطنت اور دولت بھی ہیچ ہے۔‘‘
آپؐ کی گھریلو زندگی ان تمام کیفیات سے معمور اور پُررونق تھی جس سے انسانی زندگی معمور ہوتی ہے۔ آپؐ کی گھریلو زندگی میں وہ تمام پہلو موجود تھے جو خوشی اور غم کے پہلو ہوتے ہیں۔ آپؐ اپنی ازواج پر بے انتہا شفقت فرماتے تھے۔ ان کی کوتاہیوں پر سرزنش بھی فرماتے تھے اور ایسا انداز اختیار فرماتے تھے کہ مخاطب بات بھی سمجھ لے اور اس کی عزتِ نفس بھی مجروح نہ ہو۔ آپؐ کی گھریلو زندگی بے رنگ و بو نہ تھی۔ زادالمعاد میں ابن قیم لکھتے ہیں ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواجِ مطہرات کے ساتھ محبت کا سلوک کرتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ کے پاس انصار کی لڑکیاں جمع ہوجاتیں اور آپؐ ان کو لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے چھوڑ دیتے۔ آپؐ نے فرمایا ’’ایک مسلمان اپنی بیوی کے حق میں جتنا رحم دل اور مہذب ہوگا اتنا ہی وہ اپنے ایمان میں کامل ہوگا۔‘‘
خطبہ حجۃ الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اپنی بیویوں سے شفقت و محبت کا سلوک کرو۔ تم نے اللہ کی ضمانت پر ان کو اپنے لیے حلال کیا ہے۔ ان کے معاملے میں اللہ سے ڈرو اور ان سے بہتر سلوک کرو۔‘‘
بیٹیوں سے ترجیحی سلوک کی ہدایت ان الفاظ میں فرمائی ’’جب تم اپنے بچوں میں تقسیم کرنے کے لیے کچھ لائو تو بیٹیوں سے شروع کرو، کیوں کہ بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیاں اپنے والدین سے زیادہ محبت کرتی ہیں‘‘۔ آپؐ اپنی ازواجِ مطہرات سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں عدل و انصاف ملحوظ رکھتے تھے، مگر حضرت عائشہؓ سے نسبتاً زیادہ محبت کرتے تھے۔ آپؐ فرماتے تھے ’’یا اللہ جس کا مجھے اختیار ہے اس کی تقسیم تو میں نے مساوی طور پر کردی ہے، لیکن جو بات میرے بس میں نہیں ہے اس پر مجھے ملامت نہ کیجیے گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو ازواجِ مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالتے، اور جس کا نام نکل آتا وہی ہم سفر ہوتیں، اور کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ باری کی اتنی پابندی فرماتے کہ کبھی ہم میں سے کسی کو کسی پر ترجیح نہ دیتے۔ ایسا شاذونادر ہی ہوتا کہ آپؐ روزانہ سب ازواجِ مطہرات کے یہاں تشریف نہ لے گئے ہوں۔ آپؐ بعض اوقات اِدھر اُدھر کے قصے سناتے اور خود بھی سنتے۔ ہم میں آپؐ اس طرح ہنستے بولتے اور بیٹھے رہتے کہ معلوم ہی نہ ہوتا تھا کہ کوئی اولوالعزم نبی ہیں۔ لیکن جب کوئی دینی بات ہوتی یا نماز کا وقت آجاتا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپؐ وہ آدمی ہی نہیں۔‘‘ گھر میں داخل ہوتے تو نہایت خندہ پیشانی سے مسکراتے ہوئے اندر تشریف لاتے تھے، کبھی بیویوں کو لعن طعن نہ فرماتے، اگر کوئی بات ناگوار ہوتی تو التفات میں کمی کردیتے۔ امہات المومنین کی یہ شہادت ہے کہ آپؐ اپنے ذاتی معاملات میں کسی سے بازپرس نہ فرماتے لیکن خدا اور دین کے معاملے میں ہر کوتاہی پر ضرور بازپرس فرماتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو زندگی انتہائی پُرسکون، پاک اور نجی زندگی ہر طرح بے داغ تھی۔