فجر کے بعد کا وقت تھا۔ ہلکی ہلکی روشنی پھیل رہی تھی۔ سردیوں کی آمد آمد تھی جس کی وجہ سے ہوا میں ہلکی سی خنکی محسوس ہورہی تھی۔ فضلو جلدی جلدی چارہ کاٹ رہا تھا تاکہ جانوروں کو دے کر جلدی سے کھیتوں کا رُخ کرے۔ اتنے میں اس کی بیوی سکینہ نے گرم روٹی پر مکھن رکھا اور چائے کی پیالی کے ساتھ چارپائی پر لاکر رکھ دیا۔ فضلو نے صحن میں لگے ہینڈ پمپ سے ہاتھ دھوئے اور ناشتا کرنے لگا۔ ابھی آخری نوالہ منہ میں ڈال کر فارغ ہوا تھا کہ کھیتوں کے درمیان پگڈنڈی پر ماسٹر شکیل آتے ہوئے نظر آئے۔
’’سلام ماسٹر صاحب۔ آپ…صبح ہی صبح؟ خیریت تو ہے ناں…مجھے بلوا لیا ہوتا۔ عبداللہ کی کوئی شکایت تو نہیں لے کر آئے؟‘‘
’’ارے نہیں فضل احمد! میں تو اس وقت تمہیں مبارک باد دینے آیا ہوں۔ تمہیں پتا ہے تمہارا بیٹا میٹرک کے امتحان میں اوّل آیا ہے۔ پورے ضلع میں اوّل پوزیشن آئی ہے، اور حساب میں تو اس نے پورے سو نمبر لیے ہیں۔ تمہیں بہت بہت مبارک ہو۔‘‘
’’یہ تو کمال ہوگیا جی، اللہ سائیں کی مہربانی ہے۔‘‘
’’اوراس کو اسکالرشپ بھی ملا ہے۔ میرا مطلب ہے آگے پڑھنے کے لیے وظیفہ بھی ملے گا، تم کو بہت بہت مبارک ہو۔‘‘
’’خیر مبارک جی۔ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ پورے ضلع میں اوّل آیا ہے؟ ماشاء اللہ۔ اب اس کو آگے پڑھنے کے لیے سرکاری وظیفہ بھی ملے گا ؟ اچھا اچھا… یہ تو کمال ہی ہوگیا جی۔ عبداللہ! اوئے عبداللہ… ادھر آ پتر! دیکھ ماسٹر صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔‘‘
عبداللہ آنکھیں مَلتا ہوا باہر آیا۔ ’’جی ابا جی… سلام ماسٹر صاحب۔‘‘
’’بیٹا! تم نے ضلع بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کی ہے، ماشاء اللہ۔‘‘ انہوں نے اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
’’سچ ماسٹر صاحب؟‘‘ اس کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھی تھیں، چہرہ کِھل گیا تھا۔
’’ماسٹر صاحب! یہ سب تو آپ کی مہربانی ہے۔ آپ نے اس کو اتنا اچھا پڑھایا ہے۔‘‘
’’ارے نہیں بھائی! عبداللہ تو خود ہی بہت ذہین لڑکا ہے۔ اب تم نے اس کو آگے ضرور پڑھانا ہے۔‘‘
’’جی جی ماسٹر صاحب! ہم بھی تو اس کو پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے شہر جانا پڑے گا، کالج میں داخلہ ملنا مشکل ہے۔‘‘
’’ارے نہیں میرے بھائی! تمہیں پتا ہے اس کا شہر کے کالج میں داخلہ بھی مفت ہوگا۔ بس تمہیں اس کے وہاں رہنے کا بندوبست کرنا ہوگا۔ اگر تم چاہو تو داخلے کے لیے میں ساتھ چل سکتا ہوں۔ مجھے بتا دینا جب چلنا ہو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ماسٹر صاحب نے چائے کی پیالی نیچے رکھی اور کھڑے ہوگئے۔
’’اللہ حافظ ماسٹر صاحب! بہت شکریہ، بڑی مہربانی آپ کی۔‘‘
’’اللہ حافظ جی۔‘‘
ان کے جاتے ہی سکینہ باہر آگئی۔ اس کا چہرہ خوشی سے کھلا ہوا تھا اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ ’’یا اللہ تیرا شکر ہے، میرے عبداللہ نے تو خاندان کے ساتھ ساتھ پورے گاؤں کا نام بھی روشن کردیا۔ ہم اس کو ضرور آگے پڑھائیںگے۔ بڑا آدمی بنائیں گے۔
فضلو! میری بات سنو، شہر میں خالہ جی کا بیٹا شاہد رہتا ہے ناں۔ اس کی بیوی بھی میری ماموں کی بیٹی ہی ہے۔ عبداللہ اس کے گھر میں رہ لے گا۔ کیا خیال ہے؟ اس کے بدلے ان کا کچھ کام کردیا کرے گا۔‘‘
’’ہاں… ہاں، بھئی ہاں۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے بولا ’’ذرا صبر۔ کچھ سوچنے سمجھنے دے۔ تُو نے تو سارے فیصلے کر بھی لیے۔ چل اس کے بارے میں بعد میں بات کریں گے۔ ابھی میں کھیتوں میں کچھ کام نمٹا کر آتا ہوں۔ واپسی میں بشیر حلوائی سے مٹھائی بھی لیتا آؤں گا۔‘‘
پھر سب پاس پڑوس میں، اسکول میں، مسجد میں مٹھائی بانٹی گئی اور سب لوگوں سے مبارک باد وصول کرتے کرتے شام ہوگئی۔ رات سارے بچے سو چکے تھے۔ لیکن سکینہ اور فضلو کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ دونوں دیر تک عبداللہ کے مستقبل کے بارے میں باتیں کرتے رہے تھے۔
سکینہ نے یاد دلایا کہ ’’صبح چودھری صاحب کے پاس مٹھائی لے کر جانا ہے۔ وہ بڑے خوش ہوں گے۔ اور ان سے شہر جانے کی اجازت بھی لے لینا۔‘‘
’’اری نیک بخت! جانا تو ہے۔ لیکن مجھے تو کچھ خوف محسوس ہورہا ہے چودھری صاحب سے بات کرتے ہوئے۔ کیوں کہ آج تک گاؤں کا کوئی بچہ شہر نہیں پڑھنے گیا سوائے چودھری صاحب کے بیٹے کے۔ پتا نہیں وہ کیا کہتے ہیں!‘‘
’’نہیں نہیں، فکر کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہیں یاد نہیں ہے کیا، جب چودھری صاحب حج پر گئے تھے تو ان کے انجینئر بیٹے نے حویلی کے سامنے کا حصہ توڑ کر کچھ ردوبدل کرکے بالکل تبدیل کردیا تھا۔ سارے گاؤں والے ڈر رہے تھے کہ چودھری صاحب جب واپس آئیں گے تو بہت ناراض ہوں گے کہ آبا واجداد کی نشانی کو بدل دیا، لیکن جب وہ آئے تو دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے اور اپنے کھلے دل کا ثبوت دیا تھا اور کہا تھا کہ ’’دیکھا تعلیم بہت ضروری ہے، میرے انجینئر بیٹے نے حویلی کو تبدیل کرکے بالکل بنگلہ بنا دیا۔‘‘
’’ہاں مجھے یاد تو ہے، لیکن دل میں کچھ خوف محسوس ہورہا ہے… چلو خیر ہے، اب سو جاتے ہیں۔‘‘
صبح سکینہ نے صاف ستھرا جوڑا نکال کر عبداللہ کو دیا ’’جا پتر! جلدی سے نہا کر تیار ہوجا۔ چودھری صاحب کے پاس جانا ہے ناں۔‘‘
دونوں باپ بیٹے ناشتا کرکے، مٹھائی لے کر خوشی خوشی حویلی کی طرف چل دیے۔ فضلو کے قدم زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ تیز تیز چلتے ہوئے وہ حویلی پہنچے جو اب ایک جدید طرز کے بنگلے میں تبدیل ہوچکی تھی۔ چودھری صاحب اپنے صحن میں آرام کرسی پر بیٹھ کر حقہ پی رہے تھے اور ساتھ ہی منشی بیٹھا کچھ حساب کتاب کررہا تھا۔
’’سلام سرکار…!‘‘
’’وعلیکم السلام فضلو… واہ بھائی کل سے گاؤں بھر میں مٹھائیاں بانٹتا پھر رہا ہے اور ہمارے پاس آج آیا ہے۔ تیرا پتر پاس ہوا ہے ناں۔‘‘
’’سرکار میں معافی چاہتا ہوں۔ بس جی کل سارا دن لوگ گھر پر آتے رہے مبارک دینے تو شام ہوگئی تھی۔ میں بس اسی لیے آج سویرے سویرے ہی چلا آیا ہوں۔ یہ عبداللہ بھی ساتھ ہی ہے۔‘‘
’’اچھا اچھا، چل تجھے مبارک ہو۔ یہ لے پتر…‘‘ یہ کہتے ہوئے چودھری صاحب نے جیب سے کڑکتا ہوا سو روپے کا نوٹ نکال کر عبداللہ کو پکڑایا۔ عبداللہ نے جھجکتے ہوئے پہلے اپنے ابا کی طرف دیکھا اور پھر نوٹ لے لیا۔
’’سرکار بڑی مہربانی ہے آپ کی۔ اس کو حساب میں پورے سو نمبر ملے ہیں اور سرکار نے عبداللہ کو آگے پڑھنے کے لیے وظیفہ بھی دیا ہے۔‘‘
’’اچھا، یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ لیکن گاؤں میں تو آگے کالج ہے نہیں۔‘‘
’’جی، میں سوچ رہا ہوں، اس کو شہر میں پڑھنے بھیج دوں۔ میری خالہ کا لڑکا رہتا ہے وہاں۔ اس کے گھر رکھ دوں گا اور یہ مہینے پندرہ دن بعد آکر مل جایا کرے گا، یا کبھی میں چلا جاؤں گا۔‘‘
’’اچھا اچھا تو تُو نے سارا کچھ پہلے ہی سوچ رکھا ہے۔‘‘ چودھری صاحب کا لہجہ کچھ بدلا ہوا محسوس ہوا تو فضلو نے سر اٹھا کر سہم کر ان کی طرف دیکھا۔
’’جی سرکار…!‘‘
’‘کوئی ضرورت نہیں ہے شہر بھیجنے کی۔ بے کار ہے۔ لڑکے بگڑ ہی جاتے ہیں گھر سے دور رہ کر۔ بس دس جماعتیں کافی ہیں۔ مجھے بھی یہاں آموں اور کینو کے باغوں کے حساب کتاب کے لیے ایک ہوشیار آدمی کی ضرورت ہے۔ تُو کہہ رہا ہے ناں کہ حساب میں پورے سو نمبر ملے ہیں۔‘‘
’’لیکن سرکار…‘‘
’’ چل کچھ تنخواہ بھی باندھ دوں گا اس کی۔ ارے فضلو، پیسے کام آئیں گے تیرے۔‘‘
’’نہیں… نہیں سرکار! اس کو آگے پڑھنے کا بڑا شوق ہے اور ہم کو بھی بڑا ارمان ہے اس کو پڑھانے لکھانے کا، بڑا آدمی بنانے کا۔ پڑھ لکھ کر بھی تو یہ آپ ہی کی خدمت کرے گا ناں۔ بس کچھ سال کی بات ہے۔ پھر تو اس نے واپس یہیں آنا ہے۔ مائی باپ ہم تو آپ کے جدی پشتی غلام ہیں، آپ ہی کی خدمت کریں گے۔ ہم نے کہاں جانا ہے جی! بس آپ اپنا یہ حکم واپس لے لیں۔‘‘
’’بس تجھے ایک دفعہ کہہ دیا ناں، بہت ہوگئی پڑھائی وڑھائی۔ تیرے دماغ میں یہ بات نہیں آرہی کیا؟ چلا ہے بڑا آدمی بنانے۔ کیوں اس کو سر پر چڑھا رہا ہے؟ کل سے میرے پاس بھیج دے اس کو، اور اب جا، مجھے کچھ کام کرنے دے۔ دماغ خراب کردیا صبح صبح۔‘‘
’’سرکار! یہ تو بڑا ظلم ہوجائے گا جی۔‘‘
’’کیا کہا …؟‘‘ چودھری صاحب کی آنکھیں غصے سے سرخ ہوگئیں۔ وہ زور زور سے حقے کے کش لینے لگے۔ پھر زور سے دھاڑے ’’دفع ہوجا یہاں سے۔‘‘
فضلو سر جھکا کر خاموشی سے اٹھ کھڑا ہوا اور عبداللہ کا ہاتھ پکڑ کر واپسی کے لیے مڑ گیا۔ جو قدم آتے وقت زمین پر نہیں ٹک رہے تھے وہ اب من من بھر کے ہو رہے تھے۔ وہ مرے مرے قدموں سے گھر کی طرف روانہ ہوا اور سارے راستے سوچتا رہا کہ کیا ہماری نسل در نسل خدمتوں اور غلامی کا یہی صلہ ہے؟