کئی دن سے میرا ایک قریبی دوست سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا، متعدد بار کوشش کے باوجود ناکامی کا سامنا رہا۔ ایسا کبھی نہ ہوا تھا کہ وہ مجھ سے دوبارہ رابطہ نہ کریں، سو یہی وجہ کچھ میری زائد فکر کی بھی تھی۔ اسی پریشانی کے سبب میں نے ملاقات کا سوچا اور ان کے گھر کی راہ لی۔ دورانِ ملاقات میں نے ان سے جب رابطہ نہ کرنے کی شکایت کی تو جواباً اُن کی بات میرے لیے لمحہ فکر بھی تھی اور شاید سوچ کے نئے در بھی وا کر گئی۔ کراچی میں روز بہ روز بڑھتی گندگی اور غلاظت اُن کا موضوعِ گفتگو تھا۔ یہ صورتِ حال میرے لیے بھی تشویش ناک اور پریشان کن تھی۔ کراچی کے باسی کی حیثیت سے ان مسائل کا سامنا اکثر رہتا۔ سو میں نے بھی دل کے پھپھولے پھوڑنے میں لمحہ بھر کی بھی تاخیر نہ کی اور ان سب مسائل کی جڑ اربابِ اختیار کو قرار دے دیا۔ مگر دوست کی کہی گئی بات مجھے جھنجھوڑنے کے لیے کافی تھی:
’’ذمہ دار رویّے ہی زندہ قوموں کی پہچان ہوتے ہیں‘‘۔ اُن کا یہ جملہ ذہن میں پیوست ہوگیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اربابِ اختیار کی ذمے داری اپنی جگہ، مگر بہ حیثیت شہری ہم قطعی بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ وہ اس بات پر قائم تھیں کہ آج کراچی جس نہج پر ہے،کہیں نہ کہیں اس کا کچھ ملبہ ہم پر بھی آتا ہے۔ خوش کن پہلو یہ تھا کہ اس ذمے داری کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ’’کلین کراچی‘‘ کی مہم شروع کی ہے۔ ازحد ضرورت کے پیش نظر اپنے تئیں فلاحی تنطیم بھی قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں جس میں ان کی امید کے برعکس بڑی تعداد میں لوگوں کا ساتھ ملا۔ ان کی یہ حب الوطنی اور سنجیدگی میرے لیے بھی قابلِ رشک تھی۔ میں نے بھی اس کارِخیر میں حتی الوسع حصہ ڈالنے کی یقین دہانی کرائی اور رخصت چاہی۔
The Nation Builders (TNB) کا قیام بنیادی طور پر ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ کے فلسفے پر مبنی ہے، جس کا مقصد ہر شہری تک شعور اور آگہی کی فراہمی اور وہ بالغ نظری دینا ہے جس کے تحت عام شہری بھی اپنے فرائض محسوس کرے اور انہیں بہ حسن و خوبی نبھا سکے۔ یہ تنظیم کراچی سے کشمور تک شفاف ماحول کی خواہاں ہے، اسی لیے کراچی کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی اس مہم کو پھیلانے کا مصمم ارادہ رکھتی ہے۔ آنے والی نسلوں کو صحت مند ماحول فراہم کرنا TNB کی ترجیحات میں شامل ہے۔
TNBمکمل طور پر فلاحی ادارہ ہے اور اس کی شروعات ابتدائی طور پر محض خاندان کے چند افراد اور کچھ احباب کے ساتھ مل کر کی گئی جو کہ اب وسیع حلقہ بن چکا ہے۔ چوں کہ گزشتہ کچھ برسوں سے کراچی کی گندگی کی بازگشت ہر طرف سنائی دے رہی تھی اور معاملہ گمبھیر ہورہا تھا، صورتِ حال ابتر ہوئی تو احساسِ ندامت نے سر اٹھایا کہ آخر کب تک مسیحا کے منتظر رہیں گے؟ مشکلات کو مل کر زیر کرنے سے ہی قومیں وجود پذیر ہوتی ہیں۔ TNB کا نام بھی اسی نظریے کے تحت تجویز کیا گیا۔
یہ تنظیم نہایت منظم طریق کار کے تحت کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ کراچی میں کچرے کا بیشتر حصہ کاغذ یا گتے پر مشتمل ہے۔ آج کے دور میں ہر چیز پیکنگ میں میسر ہے اور استعمال شدہ ڈبے کچرے کی زینت بن جاتے ہیں جو کہ بعد میں گیلا ہونے کے باعث بدبو اور بیماری کا موجب ہوتے ہیں۔ حالانکہ استعمال شدہ کاغذ، گتا، خالی کارٹن دوبارہ کارآمد بناکر مارکیٹ میں بھی دستیاب بنایا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر میں اسی طرح کوڑے کو کارآمد بنایا جاتا ہے۔TNB اسی مقصد کے تحت قائم کیا گیا۔ کاغذ یا اس سے منسلک کچرے کی خراب ہونے اور گلنے سڑنے سے ممکنہ حفاظت اور اسے قابلِ استعمال بنانا ہی تنظیم کا مشن ہے۔ اس مقصد کے لیے ری سائیکلنگ کمپنی سے باقاعدہ معاہدہ کیا گیا ہے۔ کراچی کے مختلف علاقوں سے کچرا جمع کیا جاتا ہے اور متعلقہ کمپنی تک پہنچایا جاتا ہے، اس کے لیے آن لائن گروپ بھی تشکیل دیا گیا ہے جس میں کارواں سے منسلک افراد اپنی سہولت کے پیش نظر کچرا اٹھانے کی درخواست کرتے ہیں۔ ہفتے کے دو دن کچرا جمع کرنے کے لیے مختص کیے گئے ہیں، جس میں کراچی کے تقریباً تمام علاقے شامل ہیں۔ اس تنظیم کی سنجیدگی اور لگن کا عالم یہ ہے کہ شہریوں کی سہولت کے پیش نظر رائیڈرز کی مفت سہولت فراہم کی گئی ہے جو درخواست کنندگان کی دہلیز سے کچرا اٹھانے کے پابند ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اسلامی مواد کی حرمت کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔
یہ TNB کی محنت اور لگن کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ نہایت قلیل عرصے میں تنظیم نے گھریلو سطح پر ہی نہیں بلکہ کمرشل طور پر بھی رسائی حاصل کی ہے۔ بہت سے نامور ادارے جن کا ماہانہ ٹنوں کے حساب سے کارٹن کچرے کی نذر ہوتا تھا، آج TNB کے شانہ بشانہ اور متفق ہیں۔ اسکولوں، کالجوں سمیت چھوٹی بڑی دکانیں بھی اس پراجیکٹ کا حصہ ہیں اور یہی TNB کی بڑی کامیابی ہے۔ تنظیم اپنے اس کارِِ خیر کو وسیع کرنے کے لیے نہایت فعال ہے اور مخلصانہ کاوشیں کررہی ہے۔ TNB نے اپنی باصلاحیت ٹیم کی مدد سے مختلف تعلیمی اداروں میں ورکشاپ منعقد کروائیں جس کا مقصد بڑوں اور بچوں میں شعور، ذمے داری اور صفائی کی اہمیت اجاگر کرنا ہے۔ یہ بات قابلِ تحسین ہے کہ TNB نے مختلف مکاتبِ فکر کے افراد کو خود آگاہی اور بیداری سے نہ صرف ہم کنار کیا بلکہ یکجا کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے، اسی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے تنظیم نے اپنے طور پر خصوصی کوڑے دان تیار کرکے مختلف علاقوں میں تقسیم کیے۔
پلاسٹک کا بے جا استعمال جہاں گندگی اور غلاظت بڑھانے کا اہم سبب ہے وہیں بڑی بیماریوں کا پیش خیمہ بھی ہے۔TNB کی جانب سے پلاسٹک کی روک تھام کے لیے نہایت سنجیدگی سے اقدام لیا گیا اور خاص طور پر ’’ٹریش بیگ‘‘ بھی متعارف کرائے گئے جوکہ بلاشبہ قابلِ تعریف ہے۔
پراجیکٹ کے حوالے سے ایک خاتون سے ان کی رائے معلوم کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ دنیا میں کوئی بھی چیز بے کار نہیں، ذرا سی محنت اسے مفید اور کارآمد بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ سو اس تنظیم سے جڑ کر آلودگی سے پاک ماحول کے لیے ادنیٰ سی کوشش ہے، اسی میں ہماری نسلوں، بچوں کی بقا بھی پوشیدہ ہے۔موقع پر موجود ایک اور خاتون نے تنظیم کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس تنظیم کی بہ دولت وہ شہر کے موجودہ مسائل کو تخلیقی پیرائے میں دیکھنے کے قابل ہوئیں، اس سے قبل وہ بھی دیگر لوگوں کی طرح کاغذی کچرا دوسرے کچرے کے ساتھ پھینک کر مطمئن ہوجاتی تھیں، مگر TNB کی بدولت انہیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ بھی اپنے ملک کے لیے کچھ کرسکتی ہیں۔
شہرِ قائد پاکستان کی شہ رگ ہے۔ پاکستان کی ترقی دراصل کراچی کی ترقی سے منسوب ہے۔ اس کی تنزلی گویا پاکستان کی تنزلی ہے۔ آیئے اس شہر کو پھر سے ہرا بھرا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، اور اس کے لیے TNB اور اس جیسے دیگر فلاحی اداروں کے ساتھ ازخود جڑ جائیں، کیوں کہ خودمختار کراچی ہی خودمختار پاکستان کی ضمانت ہے۔