ایک بار پھر ٹرمپ

601

اگر کسی شخص کے وہم و گمان میں بھی یہ بات ہے کہ دنیا کے جمہوری ممالک میں الیکشن آزادانہ اور منصفانہ ہوتے ہیں تواس غلط فہمی کو اسے دل سے نکال دینا چاہیے۔ ہر ملک کے انتخابات پر اثرانداز ہونے والی قوتیں اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے مخصوص قیادت کو سامنے لاتی ہیں، اور پھر اس کے جیتنے کے لیے ایک سازگار ماحول تخلیق کیا جاتا ہے۔
’’سرمایہ‘‘ اور’’میڈیا‘‘ یہ دو ایسے ہتھیار ہیں جو الیکشن کے دوران پوری منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔ ’’جمہوریت‘‘ کا یہ سارا کھیل اس قدر منظم ہے کہ ایک عام ووٹر کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوپاتا کہ اس نے یہ قیادت کیوں اور کس وجہ سے منتخب کی ہے۔ وہ اسی بات میں سرخوش و سرمست رہتا ہے کہ اس کے ووٹ سے حکومتیں بنتی ہیں اور قیادتیں تبدیل ہوتی ہیں۔
’’امریکی الیکشن‘‘ ان پسِ پردہ قوتوں کی منصوبہ بندی اور چال بازی کی بہترین مثال ہے۔ ویسے بھی امریکی نظامِ حکومت کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ اس میں کسی بھی قسم کے انقلاب، تبدیلی اور سسٹم کے خاتمے کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں ہے۔ امریکی آئین ایک مختصر سی دستاویز ہے جو 17ستمبر 1781ء کو تحریر ہوا، 28 ستمبر 1787ء کو پیش کیا گیا،21 جون 1788ء کو اسے منظور کرلیا گیا اور 4 مارچ 1789ء سے یہ نافذالعمل ہے۔ اپنے نافذ ہونے سے اب تک یعنی 231 برسوں میں، اس میں صرف 27 ترامیم ہوئی ہیں۔ یہ آئین امریکی معاشرے کا ’’سپریم قانون‘‘ ہے۔ تمام تر نظامِ حکومت و اقتدار اس کے مطابق گھمایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا میں نہ کسی قسم کے کمیونسٹ انقلاب کے خواب سوچے جا سکتے ہیں اور نہ ہی اسلامی حکومت کے قیام کی جدوجہد ثمرآور ہوسکتی ہے، کیوں کہ کمیونزم مزدوروں کی آمریت قائم کرنا چاہتا ہے اوراسلام اللہ کی حاکمیت… جب کہ امریکی آئین اور دستوری ڈھانچہ بظاہر جمہوری ہے، جو اس دکھاوے پر قائم ہے کہ یہاں عوام کی حاکمیت کے سوا کسی اور کی گنجائش نہیں۔
دو بڑی پارٹیوں میں امریکی عوام کو اس بری طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ پارٹی تبدیل کرنا عوامی سطح پر ایسا ہی ہے جیسے ’’مذہب‘‘ تبدیل کرنا۔ پارٹی سے وابستگی کو دین و دنیا کی سب سے بڑی ’’اخلاقی قدر‘‘ تصور کیا جاتا ہے، اور اب تو اسے ہر جمہوری معاشرے کی ایک علامت بنا دیا گیا ہے۔ ایسا اس لیے کیا گیا ہے تاکہ مٹھی بھر پارٹی قیادت کو پسِ پردہ قوتیں یرغمال بنا لیں، انہیں سرمائے سے خریدیں یا دھونس سے ساتھ ملائیں، پھر انہیں جیسے چاہیں سدھا لیں۔ اس کے بعد آپ سرمائے کو میڈیا اور دیگر ذرائع سے لوگوں کی رائے بدلنے پر لگا دیں۔
نوم چومسکی نے اپنی مشہور کتاب ’’راضی کرنے کی ترکیب‘‘ (Manufacturing the Consent) میں وہ طریقے بتائے ہیں کہ کیسے میڈیا اور سوشل کمپئین کے ذریعے لوگوں کو کسی ایک خاص شخص، خاص پارٹی اور خاص مؤقف کے لیے ووٹ دینے کے لیے راضی کیا جاتا ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب کمیونسٹ دنیا سے سرد جنگ کا معاملہ تھا تو کیسے کیسے ’’رجعت پسند‘‘ لیڈروں کو ہیرو بناکر صدر منتخب کروایا گیا۔ افغان جنگ کے دوران رونالڈ ریگن جیسا شخص برسراقتدار آیا، جس نے داڑھیوں، پگڑیوں اور عماموں والے افغان مجاہدین کو امریکی قوم کے ’’سات آباء‘‘(Fathers of the nation)کے ہم پلہ قرار دیا اور پوری قوم نے اس پر تالیاں بجائیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ ابھی افغان جنگ شروع ہی نہیں ہوئی تھی کہ ریگن جیسا صدر برسر اقتدار آگیا۔
جیسے ہی کمیونسٹ روس کا خاتمہ ہوا اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک اور دشمن کی تخلیق ضروری ہوگئی تو جارج بش 20 جنوری 2001ء کو امریکا کا صدر بنا، اور ٹھیک نو مہینے بعد نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر 11 ستمبرکو دو جہاز ٹکرائے اور پوری ’’اُمتِ مسلمہ‘‘ کے ساتھ جنگ کا آغاز ہوگیا۔ جنگ کا پسِ پردہ مقصد یہ تھا کہ جب تک کسی بڑے، خوف ناک اور ہیبت ناک دشمن کا خوف امریکی عوام پر مسلط نہ کیا جائے، امریکی قوم کو یک جان اور متحد رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ آپ رونالڈ ریگن اور جارج بش دونوں کی شخصیتوں کا مطالعہ کیجیے، آپ کو ان میں کسی بھی قسم کا کوئی فرق محسوس نہیں ہوگا۔
دونوں اپنی ذہنی استعداد اور صلاحیت کے اعتبار سے بہترین ’’روبوٹ‘‘ تھے۔ روٹین امریکی صدر، اشاروں پر ناچنے والے۔ جس طرح امریکی تاریخ میں 11 ستمبر کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر جیسے حملے کی کوئی مثال نہیں ملتی، ویسے ہی امریکی الیکشنوں میں تمام تر جائزوں کے برعکس اور میڈیا کی مکمل مخالفت کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے کی بھی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ جیسے پوری دنیا سے الگ تھلگ امریکی سرزمین بہت محفوظ سمجھی جاتی تھی اور کوئی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ اس پر کسی جنگجو کے قدم پڑیں گے، ویسے ہی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ہلیری کلنٹن، جس پر سرمایہ اور میڈیا دونوں مہربان تھے اور مدد فراہم کررہے تھے، وہ اس بری طرح ہار جائے گی۔
جس طرح 11 ستمبر کا حملہ ان بالادست پسِ پردہ قوتوں کی کارروائی ہے، جس کا علم تو امریکی اسٹیبلشمنٹ کے بڑے بڑے چہروں کو بھی نہ تھا، ویسے ہی ٹرمپ کا جیتنا بھی گزشتہ دو سو سال کے الیکشن کے کھیل پر چھائے ہوئے مہروں کی لاعلمی کا اظہار ہے۔ یہ قوتیں کون سی ہیں، کیا چاہتی ہیں اور ٹرمپ کا اس سارے معاملے میں کردار کیا ہے؟ ٹرمپ کو جس مشن کے لیے امریکی صدارت پر بٹھایا گیا تھا اُسے اس کی اسی مدتِ صدارت میں پورا ہوجانا تھا۔ عالمی صہیونیت جو گزشتہ ایک سو سال سے اس دنیا کے ایسے نقشے کی ازسرنو ترتیب کے لیے سرگرم عمل ہے، جس کا مرکزی اقتدار یروشلم میں ’’تختِ دائود‘‘ پر بیٹھا ہوا مسیحا ہوگا اور اس کی اس عالمی حکومت کے سامنے کسی دوسری عالمی طاقت کا وجود ختم کرنا بہت ضروری ہے۔
ٹرمپ کے آخری سالِ صدارت میں اس جانب پیش قدمی ہوجانا تھی، مگر کورونا وائرس نے اسے تھوڑا مؤخر کردیا۔ اس سفر کا آغاز 23 اکتوبر 1995ء کو ایک ایکٹ کے ذریعے ہوا تھا، جب امریکی حکومت نے یروشلم کو تل ابیب کی جگہ اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیا تھا۔ لیکن اس پر عمل درآمد 25 سال تک رکا رہا، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر اس بات کا اعلان کردیا اور اپنی ایمبیسی وہاں منتقل کر ی۔ یہ ہے وہ آغاز جس کی اطلاع رسول اکرمؐ نے بھی دی تھی، ’’بیت المقدس کی آبادی، مدینہ کی ویرانی اور بڑی جنگ کا ظہور۔‘‘ (مسند احمد، ابودائود، طبرانی) ۔
دارالحکومت کی اس منتقلی سے پہلے اسرائیل نے خود کو اس قدر مضبوط کرلیا تھا کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ پیدا کرنے والا ملک بن چکا تھا۔ 85 فیصد ڈرون وہاں بنتے تھے اور دنیا کی ہر بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کا ہیڈ کوارٹر وہاں موجود تھا۔ صرف وال اسٹریٹ کے دفاتر بند کرکے یروشلم میں کمپیوٹر کھولنے کی دیر تھی کہ یروشلم دنیا کا معاشی دارالحکومت بھی بن جاتا۔ لیکن اس کے ساتھ ایک بہت بڑی عالمگیر جنگ کی منصوبہ بندی تھی جو امریکا، چین، روس اور بھارت جیسے ملکوں کو بے کار، ناکارہ اور ایسا تباہ حال بنادے جیسے سوویت یونین دنیا کے نقشے سے عالمی طاقت کے طور پر ختم ہوگیا تھا۔
آج سے تین سال قبل ایک کتاب مارکیٹ میں آئی تھی جس کو پال کورنش (Paul Cornish) اور کنگسلے ڈونلڈسن (Kingsley Donaldson) نے تحریر کیا تھا۔ اس کتاب کا نام تھا 2020 World of war۔ اس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے نومبر کے الیکشن کے آس پاس کی صورت حال ایسی دکھائی گئی تھی جس میں ’’امریکا اور یورپ میں نسل پرستی اپنے عروج پر ہوگی، چین اپنا دو سو سال پرانا عروج حاصل کرنے کے لیے لڑ رہا ہوگا، دنیا کی معیشت تباہ ہوچکی ہوگی اور پاکستان کی فوج اور عوام مکمل طور پر ایک جہادی روپ میں ڈھل چکے ہوں گے۔‘‘
یہ کتاب ٹرمپ کے اس کردار پر مفصل روشنی ڈالتی ہے جو اس نے ابھی تک ادا نہیں کیا۔ اس کردار کو ادا کرنے کے لیے ابھی بھی اس کی ضرورت ہے۔ اس لیے یہ بات طے ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ سے بھی بالا صہیونی اسٹیبلشمنٹ ایک دفعہ پھر ٹرمپ کو وائٹ ہائوس میں ضرور بٹھائے گی۔ اگر وہ نہ بیٹھا تو پھر ایسی جنگ شروع ہوگی کہ وہاں کوئی اور بھی نہیں بیٹھ سکے گا۔

حصہ