محتاط رہ کر تباہی سے بچا جاسکتا ہے

367

ارم: ’’السلام علیکم امی جان۔‘‘
عالیہ: ’’وعلیکم السلام بیٹا! آج جلدی آگئیں!‘‘
ارم: ’’ہاں امی، آج آخری پیریڈ نہیں ہوا، مس صابرہ نہیں آئی تھیں۔‘‘
عالیہ: ’’پھر اکیلی آئی ہو؟‘‘
ارم: ’’نہیں امی! سعدیہ کی طبیعت بھی خراب تھی، اس نے بھی اپنی آخری کلاس چھوڑ دی، اس کے ساتھ ہی میں بھی آگئی۔‘‘
عالیہ: ’’اچھا اچھا صحیح ہے، ظاہر ہے باقی بچیوں کو آخری پیریڈ اٹینڈ کرنا تھا۔‘‘
ارم: ’’معلوم نہیں، ریحانہ تو بہت دن سے ہمارے ساتھ نہیں آرہی ہے۔‘‘
عالیہ: (حیرانی سے بیٹی کی طرف دیکھتے ہوئے) ’’کیوں بیٹا؟‘‘
ارم: ’’معلو م نہیں… آرٹس گروپ کی کوئی نئی لڑکی اس کی دوست بن گئی ہے، شاید اس کی گاڑی میں واپس جاتی ہے۔ (رک کر) اس دوست کی وجہ سے اکثر ریحانہ آخری پیریڈ بھی چھوڑ دیتی ہے۔‘‘
عالیہ: ’’یہ تو غلط بات ہے، اس طرح تو اس کی پڑھائی کا بھی حرج ہوگا۔ ویسے بیٹا، اس کی نئی دوست کیسی ہے؟‘‘
ارم: ’’معلوم نہیں امی! ریحانہ کہہ رہی تھی کہ وہ اس کے گھر سے ذرا آگے ہی رہتی ہے۔ دو دن پہلے تو وہ کالج کے پاس جو مارکیٹ ہے ناں، وہاں بھی دونوں کچھ خریدنے گئی تھیں۔‘‘
عالیہ: (حیرانی سے) ’’بازار…! بیٹا یہ تو غلط بات ہے، گھر سے کالج اور کالج سے گھر… بچیوں کو اِدھر اُدھر کے چکر نہیں لگانے چاہئیں۔‘‘
ارم: ’’جی امی! کچھ لڑکیاں خاص طور پر ہفتے کے دن بازار سے کچھ نہ کچھ خریدنے چلی جاتی ہیں۔ مجھے بھی ایک مرتبہ کہا لیکن میں نے صاف منع کردیا کہ میں نے اپنی والدہ سے وعدہ کیا ہے کہ کالج سے سیدھے گھر آئوں گی، میں ان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچا سکتی۔ امی میں نے صحیح کیا ناں؟‘‘
عالیہ: ’’بالکل صحیح… آپ تعلیم حاصل کرنے جارہے ہیں، اپنے مقصد کی طرف ہی دھیان دینا چاہیے۔ بازار، تفریح… یہ سب اپنی فیملی کے ساتھ ہی اچھا لگتا ہے۔ بیٹا آئندہ بھی احتیاط کرنا۔ عامر بیٹا دیر سے آتا ہے، ورنہ وہ تمہیں کالج سے لیتا ہوا آئے۔‘‘
ارم: ’’امی کالج کون سا بہت دور ہے! جس دن عامر بھائی ہوتے ہیں تو لینے آجاتے ہیں۔‘‘
…٭…
آج بھی مس صابرہ نہیں آئی تھیں، ارم کالج کے گارڈن میں آکر بیٹھ گئی تاکہ اس کی دوست بھی آجائیں تو وہ سب اکٹھی نکلیں۔
ریحانہ: (دور سے آتے ہوئے) ’’ارم! خیریت، کلاس نہیں ہوئی کیا؟‘‘
ارم: ’’ہاں یار! مس صابرہ نہیں آئی ہیں، اس لیے میں سب کا انتظار کررہی تھی۔ سعدیہ وغیرہ کی تو کلاس ہورہی ہے۔‘‘
ریحانہ: (اپنی نئی دوست کی طرف دیکھتے ہوئے) ’’ویسے ہم لوگ بھی نکل ہی رہے تھے، تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔ ثمینہ کے بھائی اور بہن اسے لینے آئے ہیں، کافی گرمی ہے، تمہارا گھر بھی راستے میں ہی ہے، تمہیں چھوڑ کر پھر یہ مجھے چھوڑ دے گی۔‘‘
ثمینہ: ’’بھئی چلو، آپی گاڑی میں ہمارا انتظار کررہی ہوں گی۔‘‘
(ارم نے سوچا ریحانہ سے اس کی خاصی جان پہچان ہے اور امی بھی اس کے گھر والوں سے دو، تین مرتبہ مل چکی ہیں، پوری فیملی شریف لگتی ہے، اس کے ساتھ جانے میں کوئی حرج نہیں) ’’ٹھیک ہے، لیکن سعدیہ کو میں نے کہا تھا کہ میں تمہارا انتظار کروں گی، وہ پریشان ہوجائے گی۔‘‘
ریحانہ: (اس کا ہاتھ پکڑ کر) ’’چلو یار! وہ تمہیں نہیں دیکھے گی تو خود ہی سمجھ جائے گی۔‘‘
ارم: ’’اچھا تم لوگ باہر نکلو، میں سامنے لائبریری میں خالدہ کو بتا کر آرہی ہوں۔‘‘ (ریحانہ اور اس کی دوست خوش ہوگئیں)
ارم خالدہ کو بتاکر کالج کے گیٹ سے نکلی تو اس کی نظر سامنے کھڑی گاڑی پر گئی، جہاں آگے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے لڑکے کے ساتھ ریحانہ بیٹھ گئی، پچھلی سیٹ پر دو لڑکے تھے، ان کے ساتھ ریحانہ کی دوست بیٹھ گئی۔ ارم کو بڑی حیرانی ہوئی کہ ریحانہ کی دوست کی بہنیں تو گاڑی میں نہیں اور ریحانہ کا بھائی گاڑی ڈرائیو کررہا ہے تو اس کے ساتھ آگے ریحانہ کی دوست کو بیٹھنا چاہیے، پیچھے دو لڑکے ان کے ساتھ یہ اس کی دوست، اور مجھے بھی چلنے کی دعوت (زبردستی) دی گئی ہے۔ فوراً اس کا ماتھا ٹھنکا اور وہ بات کی تہ تک پہنچ گئی۔ امی کی بات اس کے ذہن کے دریچوں پر دستک دے رہی تھی کہ محتاط رہنا۔ وہ فوراً پلٹی اور کالج میں اندر داخل ہوگئی۔ پیچھے ریحانہ کی آواز آئی ’’یار کہاں جارہی ہو، ہم تمہارا انتظار کررہے ہیں۔‘‘
ارم نے کہا ’’نہیں مجھے لائبریری میں تھوڑا سا کام ہے لہٰذا تم لوگ جائو۔‘‘ اس کے جواب سے ریحانہ اور اس کی دوست بھنا گئی کہ شکار ہاتھ سے نکل گیا۔ غصے سے گاڑی کا دروازہ بند کردیا۔ ارم نے شکر ادا کیا کہ اسے امی کی نصیحتوں کی وجہ سے بروقت یہ خیال آگیا۔ گھر آکر اس نے امی کو بھی ساری بات بتائی۔ امی نے بیٹی کو مسکرا کر کہا ’’بیٹا! بری صحبت سے بچنا چاہیے اور اچھی بات ہے کہ تم نے تمام صورتِ حال سے مجھے آگاہ کیا۔‘‘
…٭…
سیرت بہت سمجھ دار اور ذہین بچی تھی، اکثر اس کی والدہ بچوں کے ساتھ گپ شپ کرتے کوئی نصیحت آموز بات اور واقعہ بچوں کو ضرور بتاتی رہتیں، خصوصاً بیٹیوں کو وہ ہر معاملے میں محتاط رہنے کی تلقین کرتیں۔ جب سیرت میٹرک کے بعد کالج میں داخل ہوئی تو امی کو اس کی زیادہ فکر رہنے لگی۔ اکثر اس سے کہتیں ’’بیٹا! سلام دعا سب لڑکیوں سے رکھنا لیکن دوستی کے معاملے میں احتیاط کرنا۔‘‘
سیرت نے جب امی کو بتایا کہ ’’اسکول کی تینوں ہم جماعت لڑکیوں نے بھی میرے کالج میں داخلہ لیا ہے اور میری انہی سے دوستی ہے تو امی کو کچھ اطمینان ہوا، کیوں کہ یہ تینوں لڑکیاں اچھے گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں، بلکہ امی ان کی مائوں سے کئی مرتبہ مل بھی چکی تھیں۔
…٭…
آج سیرت کی تینوں ہم جماعت سہیلیاں اتفاقاً کالج نہیں آئی تھیں، اس کا تین پیریڈ کے بعد چوتھا پیریڈ خالی (فری) تھا، آخری پیریڈ فزکس کا تھا، لہٰذا وہ فزکس کے کلاس رو م میں آگئی جہاں سات، آٹھ اور بھی لڑکیاں اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھیں۔ وہ بھی ایک خالی بینچ پر بیٹھ گئی اور کچھ نوٹس بنانے میں لگ گئی۔ اچانک ایک لڑکی اس کے برابر آکر بیٹھ گئی اور اس سے مخاطب ہوئی ’’آج تمہاری دوست نظر نہیں آرہیں!‘‘ یہ کہہ کر وہ اس کے مزید قریب آگئی۔ اس کے اتنے قریب آنے سے سیرت ذرا سرک کر آگے ہوگئی اور کہا ’’ہاں اتفاق ہے کہ آج تینوں نہیں آئی ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر سیرت دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔ اچانک اس لڑکی نے سیرت کا ہاتھ پکڑا اور سہلانے لگی اور کہنے لگی ’’سیرت! تمہاری آنکھیں تو بڑی خوب صورت ہیں، ان میں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے۔‘‘ سیرت کو اس بات سے جیسے کرنٹ لگا، وہ جھٹکے سے اٹھی اور اپنی چیزیں سمیٹ کر اس سے کہا ’’مجھے مس شازیہ سے ضروری بات کرنی ہے… میں چلتی ہوں۔‘‘
…٭…
سیرت: امی! مجھے تو اُس لڑکی (نورین) سے وحشت ہونے لگی، میں فوراً وہاں سے بہانہ بنا کر اٹھ گئی۔ کیا اس طرح بھی ہوسکتا ہے! یہ تو آپ کی نصحیتیں تھیں جو میں محتاط ہوگئی۔
امی: ’’بیٹا! ایسے ہی لوگوں کی بہ دولت تعلیمی ادارے بدنام ہوتے ہیں اور بے حیائی پھیلتی ہے، ایسے لوگوں کی صحبت سے بچنا لازمی امر ہے۔ آپ کے آس پاس بہت گندگی ہے، آپ کو اس سے خود کو بچانا ہے، یہی اصل فلاح و کامیابی ہے۔
…٭…
یہ دو حقیقی واقعات ہیں جو متعلقہ لوگوں نے مجھے سنائے تو میں نے ضروری سمجھا کہ انہیں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کروں۔ آج کے اس دور میں مائوں کی ذمے داری بہت بڑھ گئی ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کرتے ہوئے انہیں آس پاس پیش آنے والے واقعات کے مطابق نصیحت کریں، ان کی روزمرہ کی سرگرمیوں پر مثبت طریقے سے نظر رکھیں اور مثبت طریقے سے نصیحت کریں، اور اس طرح دنیا کی ان خرابیوں سے خبردار کرائیں کہ وہ خوف زدہ نہ ہوں لیکن محتاط ضرور رہیں۔
مذکورہ بالا واقعات سے یہ واضح ہورہا ہے کہ جو مائیں متوازن طریقے سے بچیوں کو سمجھاتی ہیں اور دوستانہ ماحول رکھتی ہیں وہ بچیاں اپنے ساتھ یا آس پاس ہونے والے کسی بھی انہونے واقعے کو ماں سے ضرور شیئر کرتی ہیں۔ اس طرح انہیں بروقت سنبھلنے کا موقع بھی مل جاتا ہے اور آگے زندگی میں محتاط قدم اٹھانے کی تربیت بھی ملتی ہے۔ بعض لوگ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم تو بچوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں، مجال نہیں کہ وہ برائی کی طرف جائیں۔ یہ طریقہ کار بھی غلط ہے۔ ہر وقت کی روک ٹوک، سختی اور نصیحت بچوں کو آپ سے دور لے جاتی ہے۔ میں بار بار یہی کہتی ہوں کہ مثبت طریقے سے ابتدا میں ہی بچوں کو اچھائی اور برائی کے بارے میں آگہی پہنچائیں۔ اگر وہ آپ کی اس نصیحت کو سمجھ جائیں تو یہ سب سے بڑی کامیابی ہے، والدین کے لیے اور اولاد کے لیے بھی… اچھائی اور برائی کی پہچان سے واقف ہونے پر اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کے سامنے اس چیز کو اجاگر کریں کہ برائی کے دنیاوی اور آخرت کے کیا نتائج سامنے آئیں گے، اور اچھائی کو اپنانے سے کس طرح دنیا بھی روشن ہوسکتی ہے اور آخرت بھی۔
…٭…
مذکورہ دونوں واقعات سے ظاہر ہے کہ صحبت انسان کے اوپر کیا اثرات مرتب کرسکتی ہے۔ دینِ اسلام نے اسی لیے اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی تلقین کی ہے، کیوں کہ ہر مجلس و صحبت کے اثرات ہوتے ہیں۔ بری صحبت کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ شخصیت میں بگاڑ بری صحبت سے ہی وارد ہوتا ہے، جب کہ اچھی صحبت اور مجلس انسان کو سنوارتی ہے، اللہ کے قریب کردیتی ہے۔
جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور (عمل میں) سچوں کے ساتھ رہو۔‘‘
اسی طرح قرآن پاک میں ایک جگہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں: ’’اور ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کش رہ جنہوں نے اپنے دین کو لہو و لعب بنا رکھا ہے اور دنیوی زندگی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔‘‘
اس مذکورہ بالا ارشادِ ربانی سے واضح ہے کہ ایسی صحبت اور مجالس سے بچنا چاہیے جہاں دین کے خلاف کام ہوں اور جہاں انسان کے اعمال، اخلاق اور کردار کے بگڑنے کا خدشہ ہو۔
غرضیکہ صحبت انسان کے کردار و عمل کو بگاڑنے اور سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، بلکہ اس کی وجہ سے دنیا و آخرت کے بگڑنے و سنورنے کا بھی انحصار ہے۔ اس لیے والدین سے التماس ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کرتے وقت انہیں اچھی صحبت اختیار کرنے کی بھی تلقین کریں اور بہانے بہانے سے ان کے دوستوں کے بارے میں بھی خبر رکھیں۔
اوپر بیان کردہ دونوں حقیقی واقعات میں مائوں کی تربیت اور بچیوں کو اچھائی، برائی کی آگہی پہنچانے کی وجہ سے اللہ رب العزت نے انہیں تباہی اور غلاظت سے محفوظ رکھا۔
اللہ رب العالمین ہم سب کو اپنی اولاد کی صحیح رہنمائی اور صحیح تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

حصہ