قسط نمبر3
اسلامی نظم ِ معیشت اور اُس کے ارکان
اسلام نے اشتراکیت اور سرمایہ داری کے درمیان جو متوسط معاشی نظریہ اختیار کیا ہے اس پر ایک عملی نظام کی عمارت اٹھانے کے لیے وہ اخلاق اور قانون دونوں سے مدد لیتا ہے۔ اپنی اخلاقی تعلیم سے وہ جماعت اور اس کے ہر فرد کی ذہنیت کو اپنے نظام کی رضا کارانہ اطاعت کے لیے تیار کرتا ہے اور اپنی قانون کی طاقت سے وہ ان پر ایسی پابندیاں عائد کرتا ہے جو انہیں اس نظام کی بندش میں رہنے پر مجبور کریں‘ اور اس کے حدود سے نکلنے نہ دیں۔ یہ اخلاقی اصول اور قانونی احکام اس نظمِ معیشت کی قوائم و ارکان ہیں اور اس کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ان پر ایک تفصیلی نظر ڈالیں۔
اکتساب مال کے ذرائع میں جائز اور ناجائز کی تفریق
سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ اسلام اپنے پیروئوں کو دولت کمانے کا عام لائسنس نہیں دیتا بلکہ کمائی کے طریقوں میں اجتماعی مفاد کے لحاظ سے جائز اور ناجائز کا امتیاز قائم کرتا ہے۔ یہ امتیاز اس قاعدۂ کلیہ پر مبنی ہے کہ دولت حاصل کرنے کے تمام وہ طریقے ناجائز ہیں جن میں ایک شخص کا فائدہ دوسرے شخص یا اشخاص کے نقصان پر مبنی ہو اور ہر وہ طریقہ جائز ہے جس میں فوائد کا مبادلہ اشخاص متعلقہ کے درمیان منصفانہ طور پر ہو۔ قرآن مجید میں اس قاعدۂ کلیہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:۔
ترجمہ ’’ اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقوں سے نہ کھایا کرو بجز اس کے کہ تجارت ہو آپس کی رضا مندی سے۔ اور تم خود اپنے آپ کو (یا آپس میں ایک دوسرے کو) ہلاک نہ کرو‘ اللہ تمہارے حال پر مہربان ہے۔ جو کوئی اپنی حد سے تجاوز کرکے ظلم کے ساتھ ایسا کرے گا اس کو ہم آگ میں جھونک دیں گے۔‘‘ (النساء 30, 29)۔
اس آیت میں تجارت سے مراد ہے اشیاء اور خدمات کا تبادلہ بالعوض۔ آپس کی رضامندی کے ساتھ اسے مشروط کرکے تبادلے کی ان تمام صورتوں کو ناجائز کردیا گیا ہے جن مکیں کسی نوعیت کا دبائو شامل ہو‘ یا کوئی دھوکا یا ایسی چال ہو جو اگر دوسرے فریق کے علم میں آجائے تو وہ اس پر راضی نہ ہو پھر مزید تاکید کے لیے فرمایا گیا ہے لاتقتلوا انفسکم اس کے دو مفہوم ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں۔ ایک یہ تم آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک نہ کرو‘ دوسرا یہ کہ تم خود اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنے فائدے کے لیے دوسرے کا نقصان کرتا ہے وہ گویا اس کا خون پیتا ہے اور مالِ کار میں خود اپنی تباہی کا راستہ کھولتا ہے۔
اسی اصولی حکم کے علاوہ مختلف مقامات پر قرآن مجید میں اکتساب مال کی جن صورتوں کو حرام کیا گیا ہے وہ یہ ہیں۔
رشوت اور غصب۔ (البقرہ۔ آیت 18)۔
خیانت‘ خواہ افراد کے مال میں ہویا پبلک کے مال میں۔ (البقرہ۔ 283‘ آل عمران۔ 161)۔
چوری۔ (المائدہ 38)۔
مالِ یتیم میں بے جا تصرف۔ (النساء: 10)۔
ناپ تول میں کمی۔ (المطففین۔ 3)۔
فحش پھیلانے والے ذرائع کا کاروبار۔ (النور: 19)۔
قحبہ گری اور زنا کی آمدنی۔ (النور 33-2)۔
شراب کی صنعت‘ اس کی بیع اور اس حمل و نقل۔ (المائدہ۔90)۔
جوا اور تمام ذرائع جن سے کچھ لوگوں کا مال دوسرے لوگوں کی طرف منتقل ہونا محض بخت و اتفاق پر مبنی ہو۔ (المائدہ۔ 90)۔
بُت گری‘ بُت فروشی اور بُت خانوں کی خدمات۔ (المائدہ:90)۔
سود خواری۔ (البقرہ: 278-275‘ آل عمران 130)۔
-2 مال جمع کرنے کی ممانعت
دوسرا اہم حکم یہ ہے کہ جائز طریقوں سے جو دولت کمائی جائے اس کو جمع نہ کیا جائے‘ کیوں کہ اس سے دولت کی گردش رک جاتی ہے اور تقسیم دولت میں توازن برقرار نہیں رہتا۔ دولت سمیٹ سمیٹ کر جمع کرنے والا نہ صرف خود بدترین اخلاقی امراض میں مبتلا ہوتا ہے بلکہ درحقیقت وہ پوری جماعت کے خلاف ایک شدید جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کا نتیجہ آخر کار خود اس کے اپنے لیے بھی برا ہے۔ اسی لیے قرآن مجید بخل اور قارونیت کا سخت مخالف ہے‘ وہ کہتا ہے:۔
(ترجمہ) ’’جو لوگ اللہ کے دیے ہوئے فضل میں بخل کرتے ہیں وہ یہ گمان نہ کریں کہ یہ فعل ان کے لیے اچھا ہے‘ بلکہ درحقیقت یہ ان کے لیے برا ہے۔‘‘ (ال عمران: 180)۔
اور جو لوفگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو عذاب الیم کی خبر دے دو۔یہ چیز سرمایہ داری کی بنیاد پر ضرب لگاتی ہے‘ بچت کو جمع کرنا اور جمع شدہ دولت کو مزید دولت پیدا کرنے میں لگانا‘ یہی دراصل سرمایہ داری کی جڑ ہے۔ مگر اسلام سرے سے اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی اپنی ضرورت سے زائد دولت کو جمع کرکے رکھے۔
-3 خرچ کرنے کا حکم
جمع کرنے کے بجائے اسلام خرچ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ مگر خرچ کرنے سے اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ عیش و آرام اور گلچھرے اڑانے میں دولت لٹائیں۔ بلکہ وہ خرچ کرنے کا حکم فی سبیل اللہ کی قید کے ساتھ دیتا ہے یعنی آپ کے پاس اپنی ضروریات سے جو کچھ بچ جائے اس کو جماعت کی بھلائی کے کاموں میں خرچ خر دیں کہ یہی سبیل اللہ ہے۔
’’اور وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں کہو کہ جو ضرورت سے بچ رہے۔‘‘ (البقرہ: 219)۔
’’اور احسان کرو اپنے ماں باپ کے ساتھ اور اپنے رشتے داروں اور نادار مسکینوں اور قرابت دار پڑوسیوں اور اجنبی ہمسایوں اور اپنے ملنے جلنے والے دوستوں اور مسافروں اور لونڈی غلاموں کے ساتھ۔‘‘ (النساء: 36)۔
’’اور ان کے مالوں میں سائل اور نادار کا حق ہے۔‘‘ (الذاریات: 19)۔
یہاں پہنچ کر اسلام کا نقطۂ نظر سرمایہ داری کے نقطۂ نظر سے بالکل مختلف ہو جاتا ہے۔ سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ خرچ کرنے سے مفلس ہو جائوں گا اور جمع کرنے سے مال دار بنوں گا۔ اسلام کہتا ہے خرچ کرنے سے برکت ہوگی‘ تیری دولت گھٹے گی نہیں بلکہ اور بڑھے گی۔
’’شیطان تم کو ناداری کا خوف دلاتا ہے اور بخل جیسی شرمناک بات کا حکم دیتا ہے‘ مگر اللہ تم سے بخشش اور مزید عطا کا وعدہ کرتا ہے۔‘‘ (البقرہ: 268)۔
سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ جو کچھ خرچ کر دیا وہ کھو گیا‘ اسلام کہتا ہے کہ نہیں‘ وہ کھویا نہیں گیا بلکہ اس کا بہتر فائدہ تمہاری طرف پھر پلٹ کر آئے گا۔
’’اور تم نییک کاموں میں جو کچھ خرچ کرو گے وہ تم کو پورا پورا واپس ملے گا اور تم پر ہرگز ظلم نہ ہوگا۔‘‘ (البقرہ: 272)۔
’’اور جن لوگوں نے ہمارے بخشے ہوئے رزق میں سے کھلے اور چھپے طریقے سے خرچ کیا وہ ایک ایسی تجارت کی امید رکھتے ہیں جس میں گھاٹا ہرگز نہیں ہے۔ اللہ ان کے بدلے ان کو پورے پورے اجر دے گا بلکہ اپنے فضل سے کچھ زیادہ ہی عنایت کرے گا۔‘‘ (فاطر: 30)۔
سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ دولت کو جمع کرکے اس کو سود پر چلانے سے دولت بڑھتی ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ نہیں‘ سود سے تو دولت گھٹ جاتی ہے۔ دولت بڑھانے کا ذریعہ نیک کاموں میں اسے خرچ کرنا ہے۔
’’اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے۔‘‘ (البقرہ : 276)۔
’’اور جو تم سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہو تو اللہ کے نزدیک وہ ہرگز نہیں بڑھتا‘ بڑھوتری تو ان اموال کو نصیب ہوتی ہے جو تم اللہ کے لیے زکوٰۃ میں دیتے ہو۔‘‘ (الروم۔39)۔
یہ ایک نیا نظریہ ہے جو سرمایہ داری کے نظریہ کے بالکل ضد ہے۔ خرچ کرنے سے دولت کا بڑھنا اور خرچ کیے ہوئے مال کا ضائع نہ ہونا بلکہ اس کا پورا بدل کچھ زائد فائدے کے ساتھ واپس آنا‘ سود سے دولت میں اضافہ ہونے کے بجائے الٹا گھاٹا ہونا‘ زکوٰۃ و صدقات سے دولت میں کمی واقع ہونے کے بجائے اضافہ ہونا‘ یہ ایسے نظریات ہیں جو بظاہر عجیب معلوم ہوتے ہیں۔ سننے والا سمجھتا ہے کہ شاید ان سب باتوں کا تعلق محض ثواب آخرت سے ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ ان باتوں کا تعلق ثواب آخرت سے بھی ہے اور اسلام کی نگاہ میں اصلی اہمیت اسی کی ہے‘ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس دنیا میں بھی معاشی حیثیت سے یہ نظریات ایک نہایت مضبوط بنیاد پر قائم ہیں۔دولت کو جمع کرنے اور اس کو سود پر چلانے کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ دولت سمٹ سمٹ کر چند افراد کے پاس اکٹھی ہو جائے۔ جمہور کی قوت خرید (Purchasing Power) روز بہ روز گھٹتی چلی جائے۔ صنعت اور تجارت اور زراعت میں کساد بازاری رونما ہو‘ قوم کی معاشی زندگی تباہی کی سرے پر جا پہنچے اور آخر کار خود سرمایہ دارانہ افراد کے لیے بھی اپنی جمع شدہ دولت کو افزائش دولت کے کاموں میں لگانے کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔ بخلاف اس کے خرچ کرنے اور زکوٰۃ و صدقات دینے کا مال یہ ہے کہ قوم کے تمام افراد تک دولت پھیل جائے‘ ہر ہر شخص کو کافی قوتِ خرید حاصل ہو‘ صنعتیں پرورش پائیں‘ کھیتیاں سرسبز ہوں‘ تجارت کو خوب فروغ ہو اور چاہے کوئی لکھ پتی اور کروڑ پتی نہ ہو‘ مگر سب خوش حال و فارغ البال ہوں۔ اس مال اندیشانہ معاشی نظریہ کی صداقت اگر دیکھنی ہو تو امریکا کے موجودہ معاشی حالات کو دیکھے جہاں سود ہی کی وجہ سے تقسیم ثروت کا توازن بگڑ گیا ہے اور صنعت و تجارت کی کساد بازاری نے قوم کی معاشی زندگی کو تباہی کے سرے پر پہنچا دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں ابتدائے عہد اسلامی کی حالت کو دیکھیے کہ جب اسی معاشی نظریہ کو پوری شان کے ساتھ عملی جامہ پہنایا گیا تو چند سال کے اندر قوم کی خوش حالی اس مرتبہ کو پہنچ گئی کہ لوگ زکوٰۃ کے مستحقین کو ڈھونڈتے پھرتے تھے اور مشکل ہی سے کوئی ایسا شخص ملتا جو خود صاحب نصاب نہ ہو۔ ان دونوں حالتوں کا موازنہ کرنے سے معلوم ہو جائے گاکہ اللہ کس طرح سود کا مٹھ مارتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے۔
پھر اسلام جو ذہنیت پیدا کرتا ہے وہ بھی سرمایہ دارانہ ذہنیت سے بالکل مختلف ہے۔ سرمایہ دار کے ذہن میں کس طرح یہ تصور سما ہی نہیں سکتا کہ ایک شخص اپنا روپیہ دوسرے کو سود کے بغیر کیسے دے سکتا ہے۔ وہ قرض پر نہ صرف سود لیتا ہے بلکہ اپنے راس المال اور سود کی بازیافت کے لیے قرض دار کے کپڑے اور گھر کے برتن تک قرق کرا لیتا ہے۔ مگر اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ حاجت مند کو صرف قرض ہی نہ دو بلکہ اگر وہ تنگ دست ہو تو اس پر تقاضے میں سختی بھی نہ کرو حتیٰ کہ اگر اس میں دینے کی استطاعت نہ ہو تو معاف کردو۔
’’اگر قرض دار تنگ دست ہو تو اس کی حالت درست ہونے تک اسے مہلت دے دو اور اگر معاف کردو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اس کا فائدہ تم سمجھ سکتے ہو اگر کچھ علم رکھتے ہو۔‘‘ (البقرہ: 280)۔
(جاری ہے)