دنیا میں انسان کا امتیاز و امتحان یہی ہے کہ اس کو آزادی اور اختیار کا عطیہ دیا گیا ہے۔ اس کو نیکی اور بدی کی پہچان دی گئی ہے، اور وہ ان میں سے جس کو چاہے اپنا سکتا ہے۔ شکر کا راستہ اس کو اخلاق کی انتہائی معراج تک پہنچا دیتا ہے، کفر کا راستہ اختیار کرکے وہ پستی میں جا گرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ اور فکر و عمل کی آزادی دے کراسے اس کے حال پر نہیں چھوڑا بلکہ اپنے نبیوں، پیغمبروں اور رسولوں کے ذریعے اس کو صراطِ مستقیم دکھاتا رہا۔ نبی آخر الزماں سید المرسلین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی وہ کامل ترین شخصیت ہیں جن کی مثال قیامت تک ملنی ناممکن ہے۔ آپؐ کا خاندان عرب کا سب سے معزز خاندان تھا اور کعبہ کے متولی ہونے کی وجہ سے اس کو معاشرتی اور مذہبی فوقیت حاصل تھی۔ آپؐ کے والد آپؐ کی پیدائش سے چند ماہ قبل ہی انتقال کرچکے تھے۔ چھ سال کی عمر میں والدہ کا ساتھ بھی چھوٹ گیا۔ اب آپؐ کی پرورش کی ذمہ داری دادا کے سپرد تھی، لیکن یہ ولایت دو سال ہی رہی اور دادا کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ قدرت کو صرف یہ دکھانا مقصود تھا کہ اس کے پالنے والے اس کے رشتے دار، عزیز و اقارب نہیں بلکہ قدرتِ الٰہی ہے۔ چچا ابو طالب کثیر اولاد رکھتے تھے مگر انہوں نے سرپرستی کا فرض اپنے ذمے لے لیا۔ آپؐ نے تجارت کے سلسلے میں چچا کے ساتھ شام کے کئی سفر کیے۔ دل کی آنکھیں تو قدرت نے ابتدا سے ہی روشن کردی تھیں، ظاہر آنکھوں سے انسان کی گمراہی اور زوال کو دیکھ کر دلی تکلیف ہوئی اور وہ سوچ بیدار ہوئی جو معلمینِ اخلاق اور انسان کے ہادیوں کے حصے میں آتی ہے کہ انسان کی زندگی میں کس طرح پاکیزگی اور شرافت پیدا کی جائے۔
آپؐ کے لیے یہ زمانہ سیرت کے نقوش کی تیاری اور تربیت کا تھا۔ دنیا کو دیکھنے اور برتنے کا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا۔ نوجوانی ہی میں آپؐ کی دیانت، امانت اور صداقت کا شہرہ پھیل چکا تھا۔ اس شہرت سے متاثر ہوکر عرب کی ایک شریف بیوہ خاتون نے اپنی تجارت کا انتظام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کردیا۔ آپؐ نے یہ فرض اتنی ایمان داری، سلیقے اور دیانت کے ساتھ انجام دیا کہ ان محترم خاتون بی بی خدیجہؓ نے اپنی طرف سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا، اور یہ مبارک و مقدس رشتہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی وفات تک قائم رہا۔ اس طرح انہیں خاندانی زندگی کے آداب کو برتنے اور دنیا کے سامنے خانگی زندگی کو پیش کرنے کا عملی موقع ملا۔
اطمینان دل کی تسکین اور روح کی مسرت سے حاصل ہوتا ہے جو صرف اور صرف معرفتِ الٰہی اور خدمتِ خلق کی وجہ سے نصیب ہوتا ہے۔ آپؐ معرفتِ الٰہی کی تلاش میں کئی کئی دن غارِ حرا میں مصروفِ عبادت رہتے۔ چالیس سال کی عمر میں جب آپؐ غارِ حرا میں عبادت میں مشغول تھے کہ اس نورِ حقیقت نے آپؐ کے قلبِصافی پر جلوہ کیا اور بشارت دی کہ انہیں اللہ نے اپنا رسول بناکر دنیا میں بھیجا ہے تاکہ بھٹکے ہوئے انسانوں کو ہدایت کا راستہ دکھائیں۔ سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیات پہلی وحی کی صورت میں آپؐ پر نازل ہوئیں ’’(اے رسول) پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے ساری کائنات بنائی ہے، جس نے انسان کو خون کی ایک پھٹکی سے بنایا۔ پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا صاحب ِ کرامت ہے، اسی نے قلم کے ذریعے (انسان کو) علم سکھایا، وہ سب کچھ سکھایا جسے وہ نہ جانتا تھا۔‘‘
یہ بڑا سخت اور مشکل وقت تھا، آپؐ نے چالیس سال اپنی قوم کے سامنے بے داغ و بے لوث زندگی بسر کی تھی۔ اب اسی قوم کو اُن کی گمراہی پر تنبیہ اور سرزنش کرنی تھی۔ گمراہی جس کی جڑیں ان لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں شامل ہوگئی تھی، سچ کی خاطر اپنی عمر بھر کی نیک کمائی کو قربان کرکے ہر قسم کی مخالفتوں اور دشمنی کو مول لینا اپنی جان جوکھوں میں ڈالنا تھا۔ آپؐ کو اندازہ تھا کہ آپؐ کے سامنے ایک میدانِ خارزار ہے۔ آپؐ نے حضرت خدیجہؓ سے جو آپؐ کی محرم راز تھیں، اس بات کا تذکرہ کیا۔ وہ اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو ایک صاحب ِ بصیرت عیسائی عالم تھے۔ انہوں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ناموسِ اکبر کہا اور کہا: ’’بے شک یہ خدا کا پیغام ہے جو آپؐ پر نازل ہوا ہے، یہ وہی پیغام ہے جو آپؐ سے پہلے دوسرے بہت سے نبیوں پر اس ناموسِ اکبر کے ذریعے نازل ہوا۔ میری نظریں اس مستقبل کو دیکھ رہی ہیں جو آپ کا انتظار کر رہا ہے، کاش! میں اُس وقت زندہ ہوتا جب قوم آپؐ کو وطن سے نکال دے گی اور اس وقت آپؐ کی کچھ خدمت کرسکتا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ’’کیا قوم مجھے مکہ سے نکال دے گی؟‘‘ورقہ بن نوفل نے کہا ’’ہاں اس دنیا میں جس کسی نے ایسی انقلابی تعلیم پیش کی ہے اُس کو یہی صورتِ حال پیش آئی ہے، اور ہر قسم کی مخالفتیں جھیلنا پڑی ہیں۔‘‘ آپؐ نے اپنے اطراف پر نظر ڈالی، ہر طرف بت پرستی کا دور دورہ تھا۔ لوگوں نے خدائے واحد کو بھلا کر اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے ہوئے معبودوں کی پرستش شروع کردی تھی۔ تباہی و تعصب اپنے شباب پر تھے۔ عرب میں اس وقت کوئی منظم حکومت نہ تھی، نہ قانون کی کارفرمائی، نہ سماج میں انصاف اور مساوات کا احترام تھا۔ سوائے فنِ خطابت، آدابِ شجاعت اور مہمان نوازی کے تہذیب کے کوئی مثبت عناصر باقی نہیں رہے تھے۔ جہالت عام تھی، لوگ بے شمار قبائل میں منقسم تھے جن کے الگ الگ خدا تھے۔ ان قبائل کی آپس کی دشمنی کا یہ حال تھا کہ ذرا سی بات پر لڑائی کی آگ بھڑک اٹھتی اور نسل در نسل بھڑکتی رہتی۔ کشت و خون کا بازار گرم رہتا۔
خانہ کعبہ، جس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کا گھر بنایا تھا، تین سو ساٹھ بتوں کا مسکن تھا۔ توحید ِ الٰہی اور انسانی وحدت کا تصور ختم ہوچکا تھا۔
شراب خوری، قمار بازی، بے شرمی کے بے شمار مظاہر ان کی زندگی کا جزو بن گئے تھے اور ہر اعتبار سے تہذیب و تمدن کی بنیاد کھوکھلی ہوچکی تھی۔
رسول اکرمؐ جانتے تھے کہ دلوں اور دماغوںکو بدلنے کے لیے ان کو کس قسم کی جانفشانی سے کام لینا پڑے گا۔ ایک مصلح کو یہ کام محبت، ہمدردی، دل سوزی، صبر اور نفسیاتی سوجھ بوجھ کے ذریعے کرنا پڑتا ہے۔ ابدی صداقت کے حسین چہرے پر سے صدیوں کی جمی ہوئی دھول کو ہٹانا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ یہ معاشرے کی پوری قوم کے خلاف فردِ واحد کا جہاد تھا۔ کوئی مصلحت اندیشی اس جذبے کو سرد نہیں کرسکتی تھی۔ خلوص اور ایمان کی بے پناہ قوت نے آپؐ کے اس جذبے کو مہمیز دیے رکھی۔ گلی گلی، کوچے کوچے میں اللہ کی واحدنیت کا پیغام پہنچایا۔ میلوں اور منڈیوں میں جاکر اس پیغام کی اشاعت کی۔ خود بھی زبان سے اقرار کرکے دل سے اس کی تصدیق کی اور عمل سے اس کا اظہار کیا۔ وہی لوگ جو آپؐ کو ’’امین‘‘ اور ’’صادق‘‘ کہتے تھے، انہوں نے آپؐ کے اس پیغام کا مذاق بھی اڑایا اور ہر طرح سے ذہنی اور جسمانی اذیتیں بھی دیں، کیوں کہ وہ زندگی کو عیش و عشرت اور نفس پرستی میں گزارنا چاہتے تھے۔ پیغمبر خدا کی تعلیم و تبلیغ کا سارا زور اخلاق اور شرافت پر تھا۔ آپؐ لوگوں کو وحدانیت کی تعلیم کے ساتھ اللہ کے سامنے اپنے ہر عمل کی جواب دہی کا یقین دلاتے تھے۔ وہ اخوتِ امت اور مساوات کے پیغمبر تھے۔ انسانوں میں افضلیت کا معیار تقویٰ اور پرہیزگاری پر قائم کرتے تھے اور ایک حبشی غلام جو متقی اور پرہیزگار ہو، وہ قریشی سید زادے سے برتر قرار پاتا تھا جو ان صفات سے محروم ہو۔ آپؐ کی صداقت پر ایمان وہی لوگ لائے جو آپؐ کے سب سے زیادہ قریب تھے۔ زوجہ محترمہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ، نوعمر چچا زاد بھائی علیؓ، آپؐ کے قریبی دوست حضرت ابوبکر صدیقؓ، آپؐ کے متبنیٰ زید بن حارثؓ، ایک حبشی غلام حضرت بلالؓ جو اسلام کے سب سے پہلے مؤذن قرار پائے۔ اہلِ قریش اس تبلیغ سے پریشان ہوکر نئے نئے حربے اختیار کرتے گئے۔ ایک دولت مند سردار عقبہ کو آپؐ کو سمجھانے کے لیے بھیجا گیا۔ اس نے کہا ’’اے میرے عزیز! تم کیوں یہ سب حرکتیں کررہے ہو؟ کیوں ہمارے معبودوں کو نہیں مانتے؟ اور ان کے بجائے ایک اَن دیکھے اور اَن جانے خدا کے وکیل بنے ہوئے ہو؟ کیوں ہمارے پرانے طور طریقوں کو رد کرتے ہو؟ اگر ان تمام باتوں سے تمہارا مقصد مال اور دولت جمع کرنا ہے تو ہم تمہیں تمہاری خواہش سے زیادہ مالامال کردیں گے۔ اگر عزت چاہتے ہو تو اپنا رئیس اور سردار مان لیں گے، اگر حکومت کی آرزو ہے تو تمہیں عرب کا بادشاہ تسلیم کرنے کو تیار ہیں، اگر تمہارا یہ سب دھندا خلل دماغ کا نتیجہ ہے تو ہم تمہارے علاج کا بہترین انتظام کرا دیں گے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ کو بڑی نرمی مگر یقین کے ساتھ جواب دیا ’’آپ کا خیال صحیح نہیں ہے، مجھے نہ مال و دولت چاہیے، نہ دنیاوی عزت و حکومت، نہ میرے دماغ میں کوئی خلل ہے۔ میں تو خدا کا ایک سیدھا سادہ اور سچا پیغام لے کر آیا ہوں۔ اس میں بشارت ہے اُن لوگوں کے لیے جو اس کے فرمان کو مانیں، اور تنبیہ ہے اُن کے لیے جو اس سے انکار کریں۔ میں بھی آپ سب کی طرح ایک بندہ ہوں، بس اتنی سی بات ہے کہ مجھ پر اس نے اپنی رحمت سے وحی کے ذریعے سچائی کو واضح کردیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تمام انسانوں کا معبود ایک خدا ہے، اسی سے لو لگانی چاہیے، اسی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔ جو لوگ شرک کرتے ہیں، خیرات نہیں دیتے، آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ بہت گھاٹے میں ہیں، برخلاف اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک کام کرتے ہیں ان کے لیے آخرت میں بڑا اجر ہے۔‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جواب نے عقبہ پر ایک محویت کا عالم طاری کردیا۔اس نے واپس جاکر لوگوں سے کہا ’’میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے باتیں کیں اور اس کا کلام سنا۔ اس میں نہ شعر ہے، نہ جادو، نہ منتر، بلکہ محض عقیدے اور دل کی بات کا اظہار ہے، اس لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ تم اسے اس کے حال پر چھوڑ دو‘ اس کی مخالفت نہ کرو۔‘‘
عقبہ کے جواب کے بعد قریش نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو پیغام بھیجا کہ ہم آپ کی بزرگی کی وجہ سے اب تک چپ ہیں۔ اپنے بھتیجے کو سمجھا لیجیے کہ وہ اس کام سے باز آئے۔ چچا نے سمجھانے کی کوشش کی تو جواب میں آپؐ نے فرمایا ’’اگر یہ لوگ سورج کو میرے داہنے ہاتھ پر لاکر رکھ یںاور چاند کو بائیں ہاتھ پر، تب بھی میں اپنے کام سے نہیں ہٹوں گا، اور خدا کے حکم میں ایک حرف کی کمی بیشی نہیں کروں گا خواہ اس کوشش میں میری جان ہی جاتی رہے۔‘‘
سمجھوتے کی کوئی صورت نہ دیکھ کر اہلِ قریش نے ایذا رسانی پر کمر باندھ لی۔ لوگ فرداً فرداً ٹولیاں بناکر کوڑا پھینکتے، پتھر مارتے، راستے میں کانٹے بچھادیتے، کھانا پانی بند کردیتے، وعظ کے دوران زبان بندی کی کوشش کرتے، لعن طعن کرتے، ان کو دیوانہ کہتے، قتل کے منصوبے بناتے۔ لیکن ان کی زبان سے اپنے بدترین دشمنوںکے لیے بھی کوئی سخت کلمہ نہ نکلا اور ہمیشہ یہی فرمایا ’’یااللہ ان لوگوں کو معاف کردے، یہ نہیں جانتے کہ کیا کررہے ہیں۔‘‘ غزوۂ احد میں جب آپؐ شدید زخمی ہوئے تو آپؐ کے احباب نے کہا کہ آپؐ ان لوگوں کے لیے بددعا کیوں نہیں کرتے؟ آپؐ نے جواب میں فرمایا ’’میں لعنت کرنے کے لیے نبی نہیں بنایا گیا، مجھے تو خدا کی طرف بلانے والا سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اے خدا! میری اس گمراہ قوم کو ہدایت فرما، کیوں کہ وہ جاہل اور بے خبر ہیں۔‘‘ آپؐ نے ایک موقع پر فرمایا ’’مجھ سے نہ ڈرو، میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں، قریش کی ایک غریب عورت کا بیٹا ہوں، جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی۔‘‘
آپؐ کی روزمرہ زندگی غریبوں اور مسکینوں کی سی تھی۔ انہی کے ساتھ آپؐ کو محبت تھی۔ ہر قسم کا کام خود کرتے تھے اور کبھی کوئی عار محسوس نہ فرماتے۔ مویشیوں کو چارہ ڈالتے، بازار سے سودا سلف خریدتے، پھٹے کپڑوں میں پیوند لگاتے، ٹوٹے جوتے کی مرمت کرلیتے، نوکروں اور خادموں کے ساتھ کھانا کھاتے۔ بعض دفعہ کچھ بھی کھانے کو میسر نہ ہوتا تو خدا کا شکر کرتے اور بھوکے ہی سو جاتے۔ کبھی کئی کئی ہفتے چولہے میں آگ نہ جلتی اور پانی اور کھجوروں پر گزارا ہوتا۔ یہ اُس زمانے کی حالت تھی جب مدینہ میں وہ سربراہِ مملکت تھے اور دنیاوی حیثیت سے ایک بادشاہ کا مقام رکھتے تھے، مگر خود اپنی دولت اور جو دولت بیت المال میں آتی سب ضرورت مندوں اور غریبوں میں تقسیم فرما دیتے تھے۔ کوئی غریب ان کے دربار میں چھوٹا نہ تھا اور کوئی دولت مند کسی امتیازی سلوک کا مستحق نہ تھا۔ سلام میں ہمیشہ پہل فرماتے، بچوں سے شفقت اور عورت کی عزت فرماتے۔ آپؐ نے کبھی کسی انسان کی دل شکنی نہ کی، کبھی کسی کو ذلیل نہیں کیا۔ ہر کسی کو عزت دیتے، نرم اور شیریں لہجے میں بات کرتے، رحم دلی کا سلوک کرتے۔ جو آپؐ کے ساتھ برائی کرتا اس کے ساتھ بھی ہمیشہ نیک سلوک کرتے۔ اگر بھولے سے بھی کسی کے ساتھ زیادتی ہوجاتی تو اس سے معافی مانگنے میں اتنی ہی عجلت فرماتے جس قدر دوسروں کی زیادتیاں معاف کرنے میں عجلت فرماتے۔ انتقام کا جذبہ کبھی قلبِِ اطہر میں پیدا نہ ہوا۔ مکہ کے شقی القلب کفار کو فتح مکہ کے موقع پر معاف کرکے عفو و درگزر کی نئی مثال قائم کی۔ جس وقت آپؐ فاتح مکہ کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو اپنی فوج کو احکام دیے:۔
٭ جو شخص ہتھیار پھینک دے اس کو قتل نہ کیا جائے۔
٭ جو شخص خانہ کعبہ میں داخل ہوجائے اس کو قتل نہ کیا جائے۔
٭ زخمی کو قتل نہ کیا جائے۔
٭ اسیر کو قتل نہ کیا جائے۔
٭ بھاگ جانے والے کا پیچھا نہ کیا جائے۔
٭ابوسفیان کے گھر پناہ لینے والا پناہ میں ہوگا۔
آپؐ نے اسلامی اخوت اور بھائی چارے کے لیے مسلمانوں کو حکم دیا کہ:۔
-1 مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (حدیث)۔
-2 تم میں سے کوئی مومن نہیں بن سکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (حدیث)۔
-3 خبردار! بدگمانی کو اپنی عادت نہ بنائو کہ وہ جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔ بے بنیاد باتوں پر کان نہ لگائو، اے اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بن کر رہو۔ (حدیث)۔
-4 دوسروں کے عیب تلاش نہ کرو اور آپس میں بغض اور نفرت نہ رکھو، کسی انسان سے منہ نہ موڑو۔ (حدیث)۔
-5 جو شخص خدا اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے لازم ہے کہ وہ اپنے ہمسائے کو ایذا نہ پہنچائے، اپنے مہمان کی عزت کرے، بات کہے تو اچھی کہے ورنہ خاموش رہے۔ (حدیث)
-6 قیامت کے دن خدا کا سایہ ہوگا اُس شخص پر جو چھپ کر خیرات کرتا ہے کہ دائیں ہاتھ کی بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ (حدیث)۔
یہ ہیں وہ قدریں جو ذاتی اور اجتماعی زندگی کی صالح تشکیل کے لیے ضروری ہیں۔ یہی رحم دلی، ہمدردی، محبت، امن پسندی اس پیغمبرِ امن کی سیرت کی مرکزی صفات تھیں۔ آپؐ کی دعوت پر جبر کی کوئی پرچھائیں نہ تھی، مرد اور عورت اللہ کی عبادت میں یکساں جزا کے مستحق قرار پائے۔ عورت پر تعلیم کے دروازے کھولے، والدین کی جائداد میں ان کا حصہ تسلیم کیا گیا، شوہر کی طرف سے مہر کا ادارہ قائم کیا، بیوائوں کی شادی کو جائز قرار دیا، غلاموں کے ساتھ سلوک اور احسان کی ایسی سنت قائم کی کہ رسولؐ کے گھر میں آقا اور غلام کی تمیز اٹھ گئی۔ حضرت فاطمہؓ کو جب ایک خادمہ فضہ ہاتھ بٹانے کے لیے میسر آئیں تو معمول یہ بنا کہ ایک دن سارا کام فاطمہؓ کرتیں اور دوسرے دن فضہ کی باری آتی۔ حضرت بلالؓ کا نام آج تک منارۂ عظمت کی زینت ہے۔ آپؐ نے اخوت و مساوات کو اجتماعی زندگی کا بنیادی اصول قرار دیا۔ اس کے اثر سے وہ لوگ جو ہمیشہ برسر پیکار رہتے تھے، محبت کے انمول جذبات میں گندھ گئے۔ اتحاد اور خیر سگالی کے جذبے سے ان کے دل معمور ہوگئے۔ آج اس پیغام محبت اور تصورِ انسانیت کو اور زیادہ پھیلانے کی ضرورت ہے۔