’’ہانی ویلفیئر آرگنائزیشن ایک سماجی ادارہ ہے جو کہ خدمتِ خلق کے حوالے سے اپنی شناخت رکھتا ہے، اس کا ہیڈ آفس ریڑھی گوٹھ لانڈھی میں ہے جہاں اس آرگنائزیشن کے تحت اسکول، مدرسہ اور اسپتال کام کررہے ہیں، اس کے علاوہ سندھ کے پس ماندہ علاقوں میں بھی اس ادارے کی خدمات جاری ہیں۔ ادارے کے روحِِ رواں مظہر ہانی چونکہ شاعر بھی ہیں اس لیے وہ بڑے تسلسل کے ساتھ ادبی پروگرام منعقد کررہے ہیں جو کہ خوش آئند اقدام ہے‘‘۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے سیدہ اشتیاق بانو میموریل ویلفیئر اسکول موسانی محلہ ریڑھی گوٹھ میں رشید خان رشید کے تعزیتی اجلاس اور مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’جس قوم کا بیانیہ نہیں ہوتا اُس کا مستقبل تاریک ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنی زمین سے جڑے ہوتے ہیں وہ ’’تاریک عہد‘‘ سے نکل جاتے ہیں۔ ہم نے ابھی تک اپنا بیانیہ نہیں بنایا۔ اس زمانے میں لوگ ڈگری یافتہ ہوگئے ہیں، علم یافتہ نہیں ہورہے۔ ہمارا معاشرہ روبہ زوال ہے، ہمارا ایجوکیشن سسٹم تباہ ہورہا ہے، ہمیں ان مسائل کی طرف توجہ کی ضرورت ہے‘‘۔ صاحبِ صدر نے رشید خان کے بارے میں کہا کہ ’’میں انہیں اُس وقت سے جانتا ہوں جب وہ شکیل احمد ضیا کے شاگرد تھے، اُس وقت وہ اپنی سمت متعین کررہے تھے، پھر رشید خان نے ڈاکٹر یوسف جاوید کی شاگردی اختیار کی اور نور احمد میرٹھی کی صحبتیں بھی حاصل کیں۔ رشید خان نے سماجی خدمات بھی انجام دیں، وہ بنیادی طور پر معلم تھے، انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ جہالت کے اندھیروں سے جنگ کی‘‘۔ اس پروگرام کے مہمانِ خصوصی محمود احمد خان نے کہا کہ وہ حنیف عابد کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے مظہر ہانی کے اسکول میں ٹاپ کرنے والے طلبہ و طالبات میں رشید خان میموریل ایوارڈز کا اعلان کرتے ہیں۔ بے شک رشید خان ایک نیک انسان تھے، ہم ان کی موت کے باعث ایک اچھے شاعر، صحافی اور ماہر تعلیم سے محروم ہوگئے ہیں۔ مہمانِ اعزازی حامد اسلام خان نے کہا کہ رشید خان رشید کے دو شعری مجموعے ہیں، اس کے علاوہ میں سمجھتا ہوں کہ رشید خان کی ادبی اور سماجی خدمات سے ہمیں استفادہ کرنا چاہیے۔ قاسم جمال نے کہا کہ رشید خان اپنی ذات میں انجمن تھے، ہم ان کے دوسرے مجموعے ’’انتظار کا موسم‘‘ کی تقریبِ اجرا کریں گے۔ انور انصاری نے کہا کہ رشید خان ایک بہترین ناظم کے طور پر بھی یاد رکھے جائیں گے، وہ مظہر ہانی ٹرسٹ کے پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اختر سعیدی اور آفتاب عالم قریشی نے رشید خان کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ محمد علی گوہر نے نظامت کے فرائض انجام دیے، جب کہ مظہر ہانی نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔ انہوں نے کہا کہ رشید خان ان کے بہترین دوستوں میں شامل تھے، انہوں نے متحرک زندگی گزاری، وہ ہمہ جہت انسان تھے، زندگی کے متعدد شعبوں میں انہوں نے اپنا نام پیدا کیا۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تاہم ان کے اشعار انہیں زندہ رکھیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ تمام لوگوں کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ جن کے آنے سے محفل میں چار چاند لگ گئے۔ تقریب میں اسامہ نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی، یامین وارثی نے نعتِ رسولؐ پیش کی۔ پروگرام کے دوسرے حصے میں پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی، اختر سعیدی، انور انصاری، یامین وارثی، محمد علی گوہر، راقم الحروف نثار احمد، مظہر ہانی، حنیف عابد، احمد خیال، گل انور، خالد رانا قیصر، محسن سلیم، عارف شیخ عارف، رمزی آثم، یوسف چشتی، آفتاب عالم قریشی، تنویر سخن، اسحاق خان اسحاق، افضل ہزاروی، علی کوثر اور عاشق شوکی نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔ اس مشاعرے میں رشید خان کے دوست احباب بھی شریک تھے، جب کہ مظہر ہانی کا پورا اسٹاف اور طلبہ و طالبات بھی شریک تھے۔ یہ الگ بات کہ انہوں نے کسی بھی شاعر کو داد نہیں دی تھی لیکن بہترین نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا جس کا کریڈٹ بھی مظہر ہانی کے سر ہے۔ محمد علی گوہر نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ رشید خان کی وفات نے ہماری کمر توڑ دی ہے، ہم ڈسٹرب ہوگئے ہیں، لیکن ہر آدمی کو موت آنی ہے، یہ اللہ کا نظام ہے، اللہ تعالیٰ ہمارے بھائی رشید کو جنت عطا فرمائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ رشید خان کی شاعری میں شعری محاسن کے ساتھ ساتھ دل آویزی اور مضامین کی رنگا رنگی ہے۔ انہیں نظامت اور اسکائوٹنگ سے بھی عشق تھا، ان کی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے، وہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
بزم ِتقدیس ِادب کا بہاریہ مشاعرہ
احمد سعید خان کی رہائش گاہ پر ظہور الاسلام جاوید کی صدارت میں بزمِ تقدیس ادب کا مشاعرہ منعقد ہوا جس کے مہمانِ خصوصی اختر سعیدی، اور حنیف عابد مہمان اعزازی تھے۔ تلاوتِ کلام مجید کے بعد آصف رضا رضوی اور شہناز رضوی نے نعتیں پیش کیں۔ مشاعرہ 3 بجے دوپہر شروع ہوا لیکن پانچ بجے شام تک آنے والے شعرا نے بھی کلام پیش کیا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ راقم الحروف نثار احمد کی ادبی تنظیم بزم یارانِ سخن کراچی میں مقررہ وقت پر مشاعرہ ہوجاتا ہے، اور یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ میں تاخیر سے آنے والے شعرا کا شمار سامعین میں کرتا ہوں، میرے اس عمل پر بہت سے شعرا مجھ سے ناراض ہیں لیکن ہماری تنظیم میں شعرائے کرام وقت کی پابندی کرتے ہیں۔ مقام افسوس یہ ہے کہ ہمارے شہر کی بیشتر تقریبات میں وقت کی پابندی نہیں ہورہی، میری درخواست ہے کہ اس طرف بھی توجہ دیجیے۔ مشاعرے کے ناظم احمد سعید خان نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری بزم کراچی میں تواتر کے ساتھ ادبی پروگرام ترتیب دے رہی ہے، ہم اردو زبان و ادب کے خدمت گار ہیں کہ اردو کی محبت ہمارے لہو میں رواں دواں ہے، اردو کی ترقی میں مشاعروں کا اہم حصہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج ہماری محفل میں بہت عمدہ کلام پڑھا گیا، جس پر تمام شرکا کا ممنون ہوں۔ صاحبِ صدر نے کہا کہ انہوں نے ابوظہبی میں متعدد عالمی مشاعرے کرائے ہیں لیکن کورونا وائرس کے سبب 2020ء کا مشاعرہ نہیں ہوسکا۔کراچی میں اب ادبی سرگرمیاں بحال ہورہی ہیں تاہم ایس او پیز کا اہتمام ضروری ہے کہ کورونا ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کی محفل میں ایک کلام کی اجازت تھی لیکن کچھ شعرا نے اس پر عمل نہیں کیا، جن شعرا نے ایک کلام پیش کیا اُن کا شکریہ۔ اس موقع پر صاحبِ صدر، مہمانِ خصوصی، مہمانِ اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے اپنے اشعار سنائے ان میں فیاض علی فیاض، سلیم فوز، ڈاکٹر نثار احمد، عظمیٰ جون، سحر علی، جمیل ادیب سید، چمن زیدی، علی اوسط جعفری، شاعر علی شاعر، سخاوت علی نادر، نذر فاطمی، الحاج فاطمی، خالد میر، ضیا حیدر زیدی، کاشف علی ہاشمی، فخراللہ شاد، چاند علی، طاہرہ سلیم سوز، ناز عارف، شہناز رضوی، اقبال افسر غوری، علی کوثر، عاشق شوکی اور عارف پرویز نقیب شامل تھے۔
معاشرے کی فلاح و بہبود میں شعرا کا حصہ ہے، اکرم کنجاہی
’’جب سے یہ جہانِ فانی آباد ہوا ہے تب سے ہر زمانے میں معاشرے کے عروج و زوال میں شعرائے کرام کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، ہر ملک میں اس اہم طبقے کی وجہ سے حالات میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ شاعر تو بڑی سے بڑی بات بھی دو مصرعوں میں کہہ جاتا ہے، باَلفاظِ دیگر شعرائے کرام سمندر کو کوزے میں بند کرنا جانتے ہیں‘‘۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر، ادیب، صحافی اور محقق اکرم کنجاہی نے برطانیہ سے آئے ہوئے شاعر یشب تمنائی کے اعزاز میں سہ ماہی ادبی رسالے ’غنیمت‘ کے زیراہتمام 12 اکتوبر کو منعقدہ تقریب میں کیا۔ اکرم کنجاہی نے مزید کہا کہ ’’یشب تمنائی ہمہ جہت شخصیت ہیں، انہوں نے برطانیہ میں بھی اردو ادب کی ترقی کے لیے کام کیا ہے اور اِس وقت بھی وہ شعر و سخن کے لیے مصروفِ عمل ہیں، یہ میرے دوست ہیں، اس لیے میں نے آج ان سے درخواست کی تھی کہ وہ کراچی کے نوجوان شعرا کے ساتھ عشائیے پر تشریف لائیں۔ میں ان کا ممنون و شکر گزار ہوں کہ آج ہم ان کی شاعری سنیں گے، یہ بہت ملنسار انسان ہیں، ان کا شعری مجموعہ اور نثری کتابیں ہمارے ادب میں شامل ہیں، انہوں نے ہر صنفِ سخن میں اشعار کہے ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کی نظمیں ان کی غزلوں کے مقابلے میں بہت زیادہ معنویت، گہرائی اور گیرائی کی حامل ہیں‘‘۔ صاحبِ اعزاز یشب تمنائی نے کہا کہ ’’برطانیہ میں انگریزی قومی زبان ہے لیکن وہاں اردو کی موجودگی برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کی وجہ سے ہے، زبان ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ برطانیہ میں مختلف ادبی تنظیمیں اردو زبان و ادب کی اشاعت و ترقی کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔ برٹش کونسل میں بھی کبھی کبھی ملٹی نیشنل مشاعرے ہورہے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’دبستانِ کراچی میں نئے شعرا کی آمد جاری ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری زبان زندہ ہے، ہمارا کلچر فروغ پا رہا ہے۔ میں اس موقع پر تمام حاضرین کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے میرے لیے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکالا‘‘۔ اس مشاعرے کے صدر سعیدالظفرصدیقی نے اپنا کلام پیش کرنے سے قبل کہا کہ’’ اس قسم کی شعری نشستوں میں بہت عمدہ شاعری سامنے آتی ہے، ورنہ مشاعروں میں تو شعرائے کرام اپنا منتخب کلام سناکر داد حاصل کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وزن پورا کرنے سے شاعری نہیں ہوتی جب تک اشعار میں روح نہ ڈالی جائے، آپ کے اشعار سے کوئی مضمون نمودار ہو۔ کامیاب شاعر بھی وہی ہے جو زندگی کے نشیب و فراز کو لکھ رہا ہے۔ اس وقت کراچی میں بہت سے نوجوان شعرا بہت اچھا کہہ رہے ہیں، میں ان کی ترقی کے لیے دعاگو ہوں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ’’ اکرم کنجاہی اس شہر میں ادب کی خدمت کے حوالے سے بہت ترقی کررہے ہیں، ان کے چار شعری مجموعے ہیں، تحقیق و تنقید میں ان کی پانچ کتابیں آچکی ہیں، فنِ تقریر میں انہوں نے دو کتابیں لکھی ہیں، بینکنگ کے موضوع پر بھی دو اہم کتابیں تحریر کرچکے ہیں۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ‘‘۔ زیب اذکار نے کہا کہ ’’مشاعرہ ہماری تہذیبی روایت کا حصہ ہے، یہ ادارہ ہر زمانے میں ہوتا ہے لیکن وقت و حالات کے ساتھ شعرائے کرام کا مزاج بدلتا رہا ہے۔ فی زمانہ کورونا وائرس سے زندگی کے تمام شعبوں کے ساتھ ساتھ مشاعرے بھی متاثر ہوئے اور آن لائن مشاعروں کی روایت نے جنم لیا، خدا کا شکر ہے کہ اس وائرس کی شدت میں کمی کے باعث ادبی پروگرام ہورہے ہیں، آج کی محفل میں ہر شاعر نے اچھا پڑھا، میں اکرم کنجاہی کو اس کامیاب تقریب پر مبارک باد پیش کرتا ہوں‘‘۔ مشاعرے میں زیب اذکار، شاعر علی شاعر، کاشف حسین غائر، دلاور علی آذر، بشیر نازش، عمار یاسر، شجاع الزماں، افضل ہزاروی، یاسر سعید صدیقی، ظفر بھوپالی اور تاج علی رانا نے اپنا کلام پیش کیا۔