بچوں کی تعلیم و تربیت آج کل والدین کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو استطاعت سے بڑھ کر اچھے اسکول میں پڑھا کر بلاشبہ فخر محسوس کرتے ہیں، لیکن پھر بھی وہ خوش اور مطمئن نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ بچے ان اسلوب سے ہمکنار نہیں ہوپاتے جن کے لیے والدین نے ان بہترین اسکولوں کا انتخاب کیا تھا! آج کل بچوں کی نافرمانی، بدزبانی، بے ایمانی اوربہت سے غیر ارادی افعال سے والدین پریشان رہتے ہیں۔ پریشان ہونا بھی چاہیے کیوں کہ یہی بچے تو والدین کی جنت بھی ہیں اور جہنم بھی، یہی آگ بھی ہیں اور گل و گلزار بھی، یہی پھول بھی ہیں اور خار بھی، اور یہی بچے والدین کا سکون بھی ہیں اور ان کی بے سکونی کی بڑی وجہ بھی۔
تعلیم و تربیت کا عمل جو بچے کی پیدائش سے ہی شروع ہوجاتا ہے، شاید انہی مقاصد کے تحت آج کل بعض اسکولوں میں بچے کی پیدائش سے ہی بچے کا رجسٹریشن کروا دیا جاتا ہے تاکہ بروقت سیٹ ملنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
جیساکہ ہم سب جانتے ہیں تعلیم اور تربیت بچے کی نشوونما کے دو مختلف اور بہت اہم جزو ہیں۔ تعلیم اور تربیت… ان اچھی باتوں پر بچوں کو اپنے کردار و عمل سے پہلے تجربات اور رفتہ رفتہ ان تجربات کو بچے کی روزمرہ عادات میں شامل کرنے کا نام ہے۔
آج کل بہت سے والدین تربیت کا ذمے دار بھی بچے کے اسکول ہی کوسمجھتے ہیں۔ ان کا مؤقف یہ ہوتا ہے کہ اسکول انتظامیہ نے داخلے کے وقت ہی تعلیم و تربیت دونوں کی ضمانت دی تھی۔ اس لیے ایسے والدین اسکول کی تربیت کو کُل سمجھ کر بچے کی تربیت سے بالکل الگ ہوجاتے ہیں، یا اتنی توجہ نہیں دے پاتے جس کا بچہ حق دار ہوتا ہے۔
بچوں کی تربیت کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ بہترین اور مہنگے اسکول میں ہی انہیں داخل کیا جائے۔ آپ گھر میں بھی یہ کام بحسن و خوبی انجام دے سکتے ہیں، بلکہ آپ کے بچے کی پہلی درس گاہ آپ کی گود ہی ہونی چاہیے جو اس کی آخری سانس تک اسے اچھے برے، حلال حرام، غلط اور صحیح کا فرق سمجھاتی رہے۔
اب امریکا اور یورپی ممالک نے تمام دنیا کو پری نرسری مونٹیسوری کی اصطلاحات اور معیارات دے کر خود تجربات کے ذریعے ان کے نقصانات جانچتے ہوئے اس سسٹم سے جان چھڑانے کے لیے اپنے بچوں کی ہوم اسکولنگ کو زیادہ اہمیت دینی شروع کردی ہے۔ کیوں کہ وہ ریسرچ کرتے ہیں، اور تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ گھر سے بہتر درس گاہ بچوں کو مل ہی نہیں سکتی، اور وہ گھر جہاں دادا، دادی، تایا، چچا، پھوپھیاں بچوں کی تربیت میں اپنا فرض نبھارہے ہوں۔ آج ہمارے معاشرے کا 2 سالہ بچہ، جو اسکول جانا شروع کرتا ہے، تو جوانی کی دہلیز سے ادھیڑ عمری تک اس کے معیارات، خواہشات اور ان کی تکمیل ختم ہی نہیں ہوتی۔
میں آپ کو پاکستان کے ایک مہنگے اسکول کی مثال دیتی ہوں۔ ایک اندازے کے مطابق یہ مہنگا اسکول ماہانہ 5 تا 6 ارب اور سالانہ 60 تا 70 ارب روپے پاکستانیوں سے نچوڑتا ہے۔ یہ اسکول پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور ان کی بیگم کی ملکیت ہے جس کو ان کا بیٹا چلاتا ہے۔ یہ خاندان اس تعلیمی ادارے کی بہ دولت کھرب پتی بن چکا ہے۔ یہ وہی وزیر خارجہ ہیں جنہوں نے پندرہویںآئینی ترمیم (شریعہ بل) کے خلاف احتجاجاً اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔ (شاید اسلام سے نفرت اس پورے خاندان کے خون میں شامل ہے! )
لبرل ازم کا علَم بردار یہ اسکول ہر سال پاکستانی سوسائٹی میں اپنے تربیت یافتہ کم از کم 4 لاکھ طلبہ داخل کررہا ہے۔ یہ طلبہ پاکستان کے اعلیٰ ترین طبقات سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سرکاری اداروں کے بڑے بڑے بیوروکریٹ، صحافی، سیاست دان، بزنس مین اور وڈیرے شامل ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں سرایت کرنے والے ان طلبہ کی اکثریت لادین ہے۔ وہ ان تمام نظریات اور افکار کا تمسخر اڑاتے نظرآتے ہیں جن پر نہ صرف ہمارا معاشرہ کھڑا ہے بلکہ جن کی بنیاد پر پاکستان بنایا گیا تھا۔ حد یہ ہے کہ ان طلبہ کی اکثریت کو اردو سے بھی نابلد رکھا جاتا ہے (جو اسلام کے بعد پاکستان کو جوڑے رکھنے والا دوسرا اہم ترین جزو ہے)۔
پاکستان کے اعلیٰ ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے ان طلبہ کی اکثریت بڑی تیزی سے پاکستان میں اہم ترین پوزیشنیں سنبھال رہی ہے۔ اسی طبقے کا ایک بڑا حصہ فوج میں بھی جارہا ہے جو ظاہر ہے وہاں سپاہی بھرتی ہونے کے لیے نہیں جاتا۔
اگر یہ اسکول اسی رفتار سے کام کرتا رہا توآنے والے پانچ سے دس سال میں پاکستان ایک لبرل ریاست بن چکا ہوگا۔
مشہورِ زمانہ گرفتار شدہ ملعون ایاز نظامی کے الفاظ شاید آپ کو یاد ہوں کہ ’’ہم نے تمھارے کالجز اور یونیورسٹیز میں اپنے سلیپرز سیلز (پروفیسرز اور لیکچررز) گھسا دیے ہیں، جو تمہاری نئی نسل کے ان تمام نظریات کو تباہ و برباد کردیں گے جن پر تم لوگوں کا وجود کھڑا ہے۔ انہیں پاکستان کی نسبت پاکستان کے دشمن زیادہ سچے لگیں گے۔ وہ جرأتِ اظہار اور روشن خیالی کے زعم میں تمہاری پوری تاریخ رد کردیں گے۔ انہیں انڈیا فاتح اور تم مفتوح لگو گے۔ انہیں تمہارے دشمن ہیرو اور خود تم ولن نظرآئو گے۔ انہیں نظریۂ پاکستان خرافات لگے گا۔ اسلامی نظام ایک دقیانوسی نعرہ لگے گا اور وہ تمہارے بزرگوں کو احمق جانیں گے۔ وہ تمہارے رسول پر بھی بدگمان ہوجائیں گے، حتیٰ کہ تمہارے خدا پر بھی شک کرنے لگیں گے۔‘‘
مذکورہ اسکول نے ’’تعلیم‘‘ کے عنوان سے پاکستان کے خلاف جو جنگ چھیڑ رکھی ہے اس کو روکنے میں میڈیا اور سپریم کورٹ دونوں ناکام نظر آرہے ہیں۔ اس ’’عفریت‘‘ کو اب عوام ہی زنجیر ڈال سکتے ہیں۔ یہ کام ہم سب کو مل کر کرنا ہے۔ ایسے ہی اور بہت سے اسکولوں کی پیداوار مسلمان نسل کے معیارات، کامیابیاں، فلاح کا معیار اور پیرا میٹرز عام مسلمان پاکستانی کے اذہان سے مختلف نہ سہی تو الگ ضرور ہوتے ہیں۔
پہلے اچھی تعلیم، پھر اعلیٰ تعلیم، پھر بیرونِ ملک تعلیم، پھر ڈپلومہ کورسز، پھر مختلف زبانوں پر عبور، پھر اچھی ملازمت، پھرشادی، معیارِ زندگی میں خوب سے خوب تر کے مراحل… یہاں تک کہ وقتِ اجل ہی آجانے پر سکون آتا ہے، اور اگر پھر بھی نہ آئے تو بقول شاعر:۔
اب تو گھبرا کے یہی کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
خدارا بچوں کو ان کی مرضی سے نہ سہی لیکن اسکول کے رحم وکرم پر نہ جینے دیں۔ ان کی بہترین تربیت ماں اور باپ کی اوّلین ذمے داری ہے۔ انہیں وقت دیں، اپنی صحت، صلاحیت اور صالح سوچ دیں۔ انہیں امتِ مسلمہ کا بہترین معمار بنانے میں اپنی توانائیاں خرچ کریں تاکہ ایسے سپوت اور ہیرے امتِ مسلمہ میں زیادہ سے زیادہ تیارکیے جا سکیں کہ جن کے وجود سے ہمارا شاندار ماضی جڑا ہے۔ سیرت کے مطالعے سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بچپن سے بچوں کو محنت کا عادی بنانا چاہیے۔ جو انسان محنت کا عادی ہوتا ہے وہ کسی کا محتاج بننا پسند نہیں کرتا۔ ہنر سکھانے کا بھی حکم ہے۔
جو بچے شروع سے والدین کی دیکھ بھال میں محنت مشقت، دماغی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہیں وہ جلدی اپنے پائوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا شادی بھی وقت پر ہوجاتی ہے اور وہ اپنے خاندان کو مستحکم کرنے کے قابل بھی ہوتے ہیں۔
بچوں کی تربیت کے ضمن میں حضرت علیؓ کا یہ قول بہت معاون ثابت ہوسکتا ہے کہ ’’اپنے بچوں کو ان کی جنریشن کے لیے تیار کرو‘‘، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کے دور کے تقاضے بھی پتا ہوں اور ان کے وقت کے چیلنجز کا بھی صحیح ادراک ہو، اور مذہب کی اصل تعلیمات اور کلچر کی اس میںآمیزش کو بھی ٹھیک سے سمجھیں:۔