نصرت یوسف
سورج بہت چمک دار تھا لیکن اس کا دل اداس تھا۔ کچھ لوگ پیدائشی ہی سوڈیم، پوٹاشیم، یوریا،گلوکوز اور پانی کے ساتھ کئی اور کیمیکل کی اتنی وافر مقدار رکھتے ہیں کہ آنکھیں ڈبڈبانے میں دیر نہیں لگتی۔ آنکھوں سے نکلنے والا پانی بنانے میں یہ سب ہی کام آتا ہے۔ سو اس دن بھی کچھ دل کو چبھا اور ادھر دل میں چھالا بنا اور اداسی دل پر سایہ کر گئی۔
’’انسان تکلیف نہیں دیتے، توقعات کا تکلف غلط ہوتا ہے، سو ان سے امیدیں نہ ہی لگائی جائیں تو زندگی بہتر۔‘‘ یہ کتابی بات ہے اور بس کتاب ہی میں سجی بہتر لگتی ہے، حقیقی دنیا میں انسان ایک دوسرے سے آرزوئیں اور خواہشات باندھتے ہی ہیں، پوری نہ ہوں تو تکلیف ہوتی ہے، پوری ہوں تو راحتِ جاں بھی بن جاتی ہیں۔
خیر اس دن انعم کی بھی توقع کو دھچکا لگا جب بھابھی کے پاس سیل سے خریدا ہینڈ بیگ دیکھا۔ بہت نفیس اور اس کا پسندیدہ رنگ۔ اچھے بیگ کا ساتھ اس کو اچھے جوتے کی طرح ضروری لگتا تھا۔ قیمت سن کر تو بس ملال ہی بڑھ گیا کہ کاش وہ بھی ایسا اچھا ہینڈ بیگ سیل سے لے پاتی جس کا بھابھی کی اطلاع کے مطابق گزرا کل آخری دن تھا۔
اس کا اپنا بیگ بہت عمدہ تھا لیکن عمر پوری کرچکا تھا، بڑھاپے نے اس کی ساری دل کشی اڑا دی تھی، اور اوپر تلے آن لائن آرٹ کورسز فیس کی خطیر ادائیگی نے کچھ عرصے کے لیے ہر غیر ضروری شے کی خریداری ناممکن بنا دی تھی۔ یہ کورسز بہت ضروری تھے کیوں کہ کمپنی میں مقابلہ سخت تھا۔ وہ فیبرک پرنٹس بناتی تھی اور کووڈ کے بعد کی عالمی تبدیلیاں مستقل ملک کی صنعتوں کی بقا پر یکے بعد دیگرے مشکلات ہی ڈالتی جارہی تھیں۔ نوکریاں ملنی مزید مشکل، اور ملی ہوئی کو برقرار رکھنا کٹھن ہوتا جارہا تھا۔ ایسے میں انعم، میاں کے ساتھ معاشی مشکلات سہتی جی جان سے مصروف تھی۔ دو سال ہوچکے تھے شادی کو، لیکن فیملی بڑھانے کے دونوں ہی کو حالات نظر نہ آتے تھے۔ بلوں اور کرایوں کی ادائیگی کا سلسلہ مہینے کے آغاز سے جو شروع ہوتا تو مہینے کے وسط تک جاری رہتا۔ نصف ماہ کے بعد ان کو لگتا بچہ ہوتا تو شاید زندگی اس کی قلقاریوں سے بہتر لگتی، مگر پھر وہ دل مسوس کر رہ جاتے کہ بچے کو دینے کے لیے دونوں ہی کے پاس وقت اور توانائی فی الحال نہ تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ زندگی انسانوں پر بھرپور مادی وسائل کے بنا بہت مشکل ہوچکی ہے۔ اپنے مستقبل کے بچے کو اداس نہ دیکھنے کی خواہش کرتے، اچھے دنوں کی آس اور امید پر کچھ برس اولاد کے بنا رہ کر معاشی جدوجہد کا دونوں نے ہی ارادہ کیا اور دنیا کو اپنے ان ارادوں سے علیحدہ رکھا۔
لیکن انعم کو کبھی سوتے میں لگتا جیسے دو ننھے ننھے ہاتھ اس کو چھوتے ہیں اور آواز بھی دیتے ہیں ’’ماما…!‘‘
اس کی آنکھ یکدم کھل جاتی، کمرے میں نیم اندھیرا ہوتا اور ریڈیم ڈائل کا دیوار گیر گھنٹہ بتاتا کہ ابھی پو پھٹنے میں وقت ہے۔ فطری خواہشات دبانا توانائی کو زخمی کردیتا ہے، وہ بھی زیادہ حساس ہوگئی تھی۔
’’کیا ہوتا اگر اتنی اچھی آفر پر بھابھی میرے لیے بھی ایک بیگ لے لیتیں! ان کو پتا ہے کہ میں کب سے یہی بیگ استعمال کررہی ہوں۔‘‘ اس نے آزردہ ہوکر ماں سے شکوہ کیا تو وہ چپ رہیں۔
کیا کہتیں، جانتی تھیں بیگ ایک جیسے دو آئے تھے، ایک یقینا کسی اور کے لیے تھا۔ ماں تھیں، اولاد کی تشنہ خواہش پر غم کیسے برداشت کرتیں! محبت بھرے لہجے میں بولیں ’’چلو چھوڑو بیٹا! اللہ سے جب بندہ جوتی کا تسمہ مانگ سکتا ہے تو تم ہینڈ بیگ اور اپنے لیے نظرانداز کرنے کی طاقت بھی مانگو۔ تم دیکھنا جلد تمہیں کیا ملتا ہے۔‘‘
’’امی دعا ہے کہ پری کی چھڑی!‘‘ وہ چڑ گئی۔ ماں نے اس بات کا جواب نہ دیا، وہ گفتگو کا رخ بدمزگی پر نہ جانے دینا چاہتی تھیں۔
’’میرے پودے نے آج تین نیبو دیے، تمہارا کیسا چل رہا ہے؟‘‘ انہوں نے اس کا پسندیدہ موضوع چھیڑ دیا۔ مگر توقع کا پورا نہ ہونا اسے مستقل پریشان کرتا ہی رہا، اس نے ماں سے بات کے بعد ڈھیلے ڈھالے انداز میں اللہ سے دعا بھی مانگ ہی لی:
’’یا اللہ! میں اپنے لیے چیز خریدتے جس کو یاد رکھتی ہوں اُس کو بھی ہمیشہ ایسی ہی توفیق دے، اور مجھے میری پسند کا بیگ جلد عطا کر۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے یقین اور بے یقینی کے بین بین دعا ختم کردی۔
پچھلے ہفتے اس کا کمپنی کے لیے بنایا گیا نیا فیبرک پرنٹ سب کو ہی بہت پسند آیا تھا، تازہ کورس نے اسے خاصا فائدہ دیا تھا۔ کمپنی ساتھی ہما نے اس کی ڈیسک پر آکر تعریف کرتے ہوئے اس کے بیگ پر نگاہ جمائی تو وہ کچھ جھینپ سی گئی۔ ’’شاید اس کو بھی میں کنجوس لگتی ہوں جو کب سے ایک ہی بیگ پر گزارا کررہی ہوں، جب کہ اس کی حالت بھی ابتر ہوگئی ہے۔‘‘ انعم کے لیے بھابھی کا بیگ دیکھنا مسئلہ بن گیا تھا۔
ہما اس کی اچھی سہیلی تھی لیکن اس وقت اسے وہ بے آرام کرتی لگ رہی تھی۔ ’’اس کو کیا پتا کہ میں نے کتنی خطیر رقم کی بی سی ڈال رکھی ہے۔‘‘ یہ سوچتے ہوئے اس نے خوامخواہ بیگ کی جگہ بدلی تو اس کے ساتھ لگے کی چین کا بھالو گر گیا۔ ہما نے جھک کر اٹھاتے انعم کو دیکھا جو کمپیوٹر اسکرین پر پرنٹ کو زوم کررہی تھی۔
’’پزا آرڈر کریں لنچ کے لیے!‘‘ ہما کی بات پر انعم نے اثبات میں سر ہلادیا۔
ہما نے موبائل اٹھاکر آن لائن فوڈ آرڈر کیا اور انگلیوں سے دھیمے دھیمے میز بجانے لگی۔ اس کے صاف ستھرے ہاتھوں کے گلابی ناخن گہرے ترشے تھے۔ ’’تم نیل کلر لگاؤ تو اچھا لگے گا ۔‘‘ انعم بے اختیار بولی تو ہما ہنس پڑی۔
’’جوان بچوں کی ماں ہوں!‘‘ وہ دھیمے سے ہنسی۔
انعم نے ابرو اچکا کر اس کا جواب سنا اور اس کو سیل کی جانب متوجہ کیا جو خاموش جل بجھ رہا تھا۔ پزا ڈیلیوری کا وقت ہوگیا تھا، آفس بوائے جلد ہی پزا کا گرم ڈبہ ان کو دے گیا۔ آج اسٹاف حاضری شہر میں سیاسی ریلی کی وجہ سے خاصی متاثر تھی، سو دونوں اطمینان سے خوش گپیاں کرتے کھانے پینے سے لطف اندوز ہورہی تھیں۔
’’میرا پندرہ دن سے پزا کھانے کا دل تھا لیکن جاب کے بعد گھر جاکر گھر کے کام میں لگ کر کچھ یاد ہی نہیں رہتا، چھٹی والا دن بھی مصروفیت کا گزر جاتا ہے۔ جب سے فہیم شہر سے باہر گئے ہیں گھر سے باہر کے کام بہت بڑھ گئے ہیں۔‘‘
پزا سلائس ساس میں ڈیپ کرتے اس نے اطلاع دی تو انعم کو اچنبھا ہوا کہ اس نے اتنے دن انتظار کیا، چھٹی والے دن بھی گھر میں آن لائن آرڈر نہ کیا۔ وہ اسی خیال میں تھی کہ ہما نے بات کا سلسلہ دوبارہ جوڑ لیا:
’’کل گھر گئی تو کچن میں پزا کے دو ڈبے رکھے دیکھے، بہت ہی ایکسائیٹڈ ہوکر کھولے، پر دونوں ہی خالی تھے۔‘‘ وہ اب نسبتاً زور سے ہنسی۔
’’یہ ہے اولاد، اب جن کے لیے ماں باپ کھپے جاتے ہیں وہ تین بچے پزا کے دو ڈبے منگوا کر ایک سلائس بھی ماں کے لیے نہیں بچاتے۔‘‘ اب کے اس کی ہنسی میں لمحے کو ٹوٹے کانچ کی آوازیں ابھریں اور پھر غائب ہوگئیں۔
انعم نے اس لمحاتی کرچیوں کو پزا کے ڈبے میں پھیلتا محسوس کیا اور بے اختیار یخ ڈرنک کا گھونٹ بھرتے اپنی توقع کے دکھ کو تحلیل ہوتے دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا۔ کچن میں پزا کے دو خالی ڈبوں کی کہانی نے اس کا بہت ہی بھلا کردیا۔
’’سو سوئٹ آف یو ہما۔‘‘ اس نے بڑھ کر جپھی ماری تو دونوں اپنے اپنے خیال کے تحت ہنس پڑیں۔
گھریلو ٹوٹکے
٭پلکیں لمبی کرنے کے فلالین کے کپڑے کو نیم گرم دودھ میں بھگو کر آنکھوں پر اُس وقت تک رکھیں جب تک گرمائش ختم نہ ہو۔ کچھ عرصے تک یہ عمل کرنے سے پلکیں بڑی ہو جائیں گی۔
٭چہرے کی رنگت نکھارنے کے لیے صبح پودوں پر پڑی شبنم کے قطرے کسی برتن میں انڈیل لیں۔ چہرے پر لگانے سے چمک پیدا ہوتی ہے۔
٭جوتوں کی پالش سوکھ جائے تو اس میں تھوڑا سا پٹرول ملا لیں وہ نرم ہو جائے گی۔
٭نیند نہ آئے تو خشخاش کا تیل کنپٹی پر ملیں۔ جلد نیند آجائے گی۔
٭ گلا بیٹھ جائے تو شلجم کو پانی میں اُبال کر اس کا پانی پی لیں۔
٭ کھانسی دور کرنے کے لیے بچوں کو ایک چمچ شہد اور کلونجی پیس کر کھلا دیں۔
٭ دانتوں کو کیڑا لگنے سے محفوظ رکھنے کے لیے جب بھی کوئی چیز کھائیں تو اس کے بعد تھوڑی سی روٹی چبا لیں۔