ہم نے قیمہ پکایا

271

امی جان ہر وقت شور مچاتیں ’’بیٹی کوئی گھر داری کے کام سیکھ لو، بچیوں کو کچھ پکانا ریندھنا، کوئی سلائی کڑھائی آنی چاہیے۔‘‘
اور جناب ہمارے کانوں پر جوں نہیں رینگتی تھی۔ بھئی جوئیں ہوتیں تو رینگتیں ناں، ہم تو صاف ستھرے تھے، کوئی گندی بچی تو نہیں تھے جو سر میں ایسی چیزیں پالتے۔ ویسے بھی ہمیں ڈر لگتا تھا۔ ہماری دادی کہتی تھیں کہ جوئیں لڑکیوں کوکھینچ کر جنگل میں لے جاتی ہیں، اور آپ کو تو پتا ہی ہے کہ جنگل میںکون ہوتا ہے! اب ہمیں شیر کا لقمہ تو بننا نہیں تھا۔ ہمیں گھر کے کاموں سے زیادہ کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ کہاں کتابیں اور کہاں مرچ مسالے اور لہسن، پیاز۔ اور رہی سلائی، تو ہماری سمجھ میں کبھی کٹائی ہی نہیں آئی تو سلائی کیسے آتی! کچھ کاٹتے تو سیتے۔ امی جان کہتیں کہ ’’یہ سارے ٹکڑے جوڑ کر تھیلا بنائو اور پھر اس کو کاٹ کر شلوار بنا لو۔‘‘
’’آپ سیدھی سیدھی شلوار کاٹیں، تھیلا بنانے کی تک ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘
’’میں جیسے کہہ رہی ہوں ویسے کرو، مجھے الٹے سیدھے مشورے مت دو۔‘‘
’’اچھا ہم آٹے کا تھیلا لے آتے ہیں۔ اس پر شلوار کاٹ کر سکھائیں۔‘‘
انہوں نے کپڑا ہمارے سر پر مارا ’’تم کپڑوں کے بجائے کتابیں پہن لیا کرو۔‘‘
’’کاش ایسا ہوسکتا۔ کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا، ہم کاغذ کے کپڑے کاٹ کر گوند سے چپکا لیتے۔ سلائی کا ٹنٹا ہی نہ ہوتا۔‘‘
امی کی ڈانٹ سن سن کر آخر ہم نے کھانا بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ انہوں نے ہمیں قیمہ دیا کہ ’’گھی میں پیاز لال کرکے قیمے کو بھونو، جب بھن جائے تو میں بتائوں گی کہ مسالہ کیا ڈالنا ہے۔‘‘
ہم نے بڑی سعادت مندی سے سر جھکا دیا۔ اُس زمانے میں گیس نہیں تھی، کوئلوں کی انگیٹھی پر پتیلی چڑھائی اور بھوننا شروع کیا۔ ہاتھ میں ایک دلچسپ کتاب تھی۔ اب ہم تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک چمچہ قیمہ پرچ میں ڈالتے اور چکھتے کہ بھن گیا یا نہیں۔ تھوڑی دیر بعد جو قیمہ نکالنا چاہا تو چمچہ خالی آیا۔ اب جو پتیلی میں جھانکتے ہیں تو قیمہ نہیں تھا ’’ارے یہ قیمہ کہاں گیا؟‘‘ مارے حیرت کے ہم تو دنگ ہی رہ گئے۔ یہ معما حل ہی نہیں ہورہا تھا۔
’’امی جان! میں خود حیران ہوں آخر قیمہ گیا کہاں! کیا جن بھی قیمہ کھاتے ہیں؟‘‘ ہم نے معصومیت سے پوچھا۔
’’یہ تو پتا نہیں، مگر یہ پتا ہے کہ اسے ایک جننی کھا گئی۔‘‘ اور پھر ہمیں جو باتیں سننے کو ملیں آپ اندازہ کرسکتے ہیں۔

حصہ