حمدِ باری مدحتِ خیر الوریٰ کرتے رہے
جب تلک جیتے رہے یہ حق ادا کرتے رہے
مصحفِ رخ پر نظر آئیں جو آیاتِ جمال
ہم بھی سرشاری میں وردِ والضحی کرتے رہے
اک تبسم تھا ہماری اشکباری کا جواب
جان و دل ہم اک تبسم پر فدا کرتے رہے
اک نظر میں ان سے سودے جان و دل کے ہو گئے
اہلِ دل آتے رہے عہدِ وفا کرتے رہے
عالمِ خاکی میں رازِ قاب و قوسین کہہ گئے
بات تھی سرِ خفی کی برملا کرتے رہے
جنبشِ لب بھی ہے آدابِ محبت میں حرام
ان کے در پر التجائے بے صدا کرتے رہے
ہر خطا تھی اک بہانہ ان کی رحمت کے لیے
ہم خطا کرتے رہے اور وہ عطا کرتے رہے
ان کے در کے سنگریزے ہیں جبیں تاب جہاں
لاکھوں الماسؔ و گہر کسبِ ضیا کرتے رہے