دورِ حاضر کی جمہوری ریاستوں کی تاریخ شاہد ہے کہ ریفرنڈم ہمیشہ کسی قومی مسئلے کے متعلق حکومتی پالیسیوں کی عوامی حمایت جاننے کے لیے منعقد کرائے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے ریفرنڈم کا خیال تھامس جینوسن نے پیش کیا تھا جو امریکا کی آزادی کی تحریک میں صف ِاوّل کے رہنما اور بعد میں امریکا کے دوسرے صدر بھی منتخب ہوئے۔ انہوں نے اُس وقت کی برطانوی شہنشاہیت کو امریکا کو آزادی دینے کے متعلق امریکی عوام سے ریفرنڈم کرانے کا تصور پیش کیا تھا۔
برصغیر کی تقسیم کے وقت صوبہ سرحد اور مشرقی بنگال کے ضلع سلہٹ میں ریفرنڈم کروایاگیا تھا جس کا مقصد عوام کی رائے جاننا تھا۔ پاکستان کے قیام کے بعد بھی مختلف مواقع پر ریفرنڈم کروائے گئے۔ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویزمشرف نے اپنے اقتدار کی مدت بڑھانے کے لیے ریفرنڈم کروائے جس میں اپنے سرکاری اثر رسوخ کا استعمال کیا۔ ایسے ریفرنڈم عوامی رائے نہیں کہلائے جاسکتے جو یک طرفہ نتائج دکھاتے ہوں، اسی لیے پاکستانی عوام نے ان ریفرنڈمز کو مسترد کیا۔ ریفرنڈم مکمل طور پر ایک عوامی رائے عامہ کا پلیٹ فارم ہوتا ہے جس میں کسی خاص مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئے ’’ہاں‘‘ اور ’’نہیں‘‘ کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں برطانیہ میں بھی بریگزٹ کے حوالے سے عام افراد کی رائے جاننے کے لیے ریفرنڈم کروایا گیا۔
ہمارے ملک میں جس طرح انتخابات کو ہائی جیک کرلیا جاتا ہے، وہاں اگر کوئی بااثر عوامی حلقہ شفاف ریفرنڈم کروا رہا ہو تو عام پاکستانی کے لیے ایک موقع ہوسکتا ہے اپنی رائے کے اظہار اور حکومتی سطح پر اپنے مسائل کو اجاگر کرنے کا۔ ’’حکومتِ نیا پاکستان‘‘ نے اب تک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے استحصالی اداروں کی ہدایات کی روشنی ہی میں اقتصادی پالیسیاں وضع کی ہیں۔ آئے دن یوٹیلٹی بلوں میں اضافہ، سیلز اور دیگر ٹیکسوں میں اضافہ، تیل اور گیس کی قیمتوں میں بار بار اضافہ، اشیائے صرف کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ، حال ہی میں ادویہ پر ٹیکس جیسی پالیسیوں نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اجناس، سبزیاں، دالیں اور دیگر عام اشیائے صرف کا حصول عام آدمی کے لیے بے حد مشکل ہوگیا ہے۔گزشتہ دو برسوں میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں 70 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ صنعتوں میں سرمایہ کاری برائے نام رہ گئی ہے۔ بیمار صنعتوں کو حکومت نے کوئی ریلیف نہیں دیا۔ غرض ہر اعتبار سے موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسیاں نتائج دینے میں ناکام رہی ہیں۔ یہ تو ہے ملکی صورتِ حال… کراچی کی صورتِ حال تو بہت ہی خراب ہے جہاں وفاقی، صوبائی، بلدیاتی حکومتوں کی کارکردگی ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آتی۔ اگر عبدالستار افغانی کے ادوار اور نعمت اللہ خان کا ایک سنہری دور کراچی پر نہ گزرا ہوتا تو جو کراچی آج نظر آرہا ہے وہ بھی نظر نہ آتا۔ حافظ نعیم الرحمن نے حقوق کراچی ریفرنڈم کے حوالے سے اعلان کیا ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات کے چیدہ چیدہ لوگوں کو جمع کرکے حقوق کراچی الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے گا جو حقوق کراچی ریفرنڈم کے نتائج بھی مرتب کرے گا اور اعلان بھی کرے گا۔ یہ ریفرنڈم ہر طرح کے سیاسی و حکومتی اثرات سے پاک، صرف عوام کے مسائل اور ان کے بہتر حل کے لیے کروایا جارہا ہے۔ اہلِ کراچی کے لیے اپنے مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھانے کا یہ سنہری موقع ہے۔ یہ ایسا لاوارث شہر ہوکر رہ گیا ہے جس کے لیے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہے سوائے جماعت اسلامی کے۔ انتظامی معاملات میں بدترین حالات کا شکار میرا شہر کراچی۔ میری تمام رہائشی عوام سے گزارش ہے کہ حقوق کراچی ریفرنڈم میں ہر سیاسی، لسانی اور تنظیمی تعصب سے مبرا ہوکر اپنی رائے کا اظہار کریں۔ جو لوگ اخلاص کے ساتھ آپ کے مسائل کے حل کی بات کررہے ہیں اُن کو نظرانداز اور مایوس نہ کریں۔ اپنا حق مفاد پرستوں کے ہاتھوں ضائع نہ ہونے دیں۔