’’معاذ! معاذ بیٹا… ایک تو یہ لڑکا ہمیشہ خیالی پلاؤ پکاتا رہتا ہے۔ پتا نہیں کب اس کی یہ عادت ختم ہوگی۔‘‘ امی زیرلب بڑبڑائیں۔
اسی لمحے معاذ باورچی خانے کے دروازے پہ نمودار ہوا اور بولا ’’جی امی! آپ بلا رہی تھیں؟‘‘
’’جی ہاں… کب سے آواز دے رہی ہوں لیکن تمہیں فرصت ہو توجواب دو ناں۔‘‘
’’جی امی!‘‘ معاذ کی مریل سی آواز آئی۔
’’جاؤ جاکر دہی لے کرآؤ، مجھے کڑھی بنانی ہے۔‘‘ معاذ کا منہ لٹک گیا، لیکن مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق جانے میں ہی عافیت جانی۔
’’کسی کو میرا خیال ہی نہیں ہے۔ اچھا خاصا وہ بوڑھا فقیر مجھے جادوئی پیالہ دینے والا تھاکہ امی نے بلا لیا… بلال بھائی کو بھی آج ہی بیمار ہونا تھا۔‘‘ معاذ بڑبڑاتا چلا جا رہا تھا کہ اسے یاد آیا پیسے تو لیے ہی نہیں۔
’’خیر ابھی تو اپنی جیب خرچ سے لے لیتا ہوں، گھر جا کر پیسے لے لوں گا… ورنہ واپس جانے پر ڈانٹ پڑے گی۔‘‘ اس نے دل میں سوچا اور دہی لے کر گھر کی راہ لی۔
راستے میں کسی کا بٹوہ پڑا دیکھا۔ آس پاس کوئی نظر نہ آیا تو اس نے اپنے پاس سنبھال لیا۔ راہ گیروں سے بھی بٹوے کے متعلق پوچھتا رہا مگر کوئی مثبت جواب نہ ملا۔ گھر پہنچ کر امی کو دہی دیا اور سیدھا بلال اور اپنے مشترکہ کمرے کی راہ لی۔
’’بلال بھائی! ذرا یہ دیکھیں، مجھے کیا ملا ہے…‘‘
’’یہ تو کسی کا بٹوہ لگتا ہے، کہاں سے ملا؟‘‘ جواب میں معاذ نے ساری کہانی سنائی۔
’’بھائی! میں تو سوچ رہا ہوں کہ جلد از جلد پتا کرواؤں کہ یہ کس کا ہے؟ اور اس کے مالک کو واپس کردوں، کیا پتا وہ کوئی امیر آدمی ہو اور مجھے بدلے میں کوئی انعام دے اور پھر میں…‘‘
’’بس بھئی! شیخ چلّی نہ بنو زیادہ… کیا تمہاری نیکی کا مقصد صرف انعام حاصل کرنا ہے؟ یاد نہیں دادا ابو کیا سمجھاتے ہیں کہ نیکی کا ثواب انسان کی نیت پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر تم دنیاوی فائدے کی نیت رکھو گے تو آخرت میں نقصان اٹھاؤ گے۔‘‘ بلال نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
بلال بھائی سمجھا کر اس امید پر چپ ہوگئے کہ وہ سمجھ چکا ہے، لیکن اس کے دل و دماغ میں اب تک انعام سوار تھا۔
اگلے روز معاذ کھیلنے جارہا تھا کہ دیکھا ایک آدمی لوگوں کو روک کر کسی گمشدہ چیز کا پوچھ رہا ہے، معاذ کو جب پتا چلا کہ وہ اُن کا بٹوہ ہے تو فوراً ان کو گھر سے لاکر دے دیا۔ انہوں نے اس کا نام پوچھا، شکریہ ادا کیا اور دعائیں دیتے چلے گئے۔ یہ سب معاذ کی سوچ کے برخلاف تھا، اسے غصہ آیا۔ خیر کیا کرتا! گھر آیا تو بلال بھائی کو ساری بات بتائی کہ وہ آدمی کوئی انعام دیے بغیر ہی چلا گیا۔
’’یہ تو بہت اچھی بات ہوئی۔‘‘ بلال نے کہا تو وہ حیرت سے بلال بھائی کو دیکھنے لگا۔
’’بھائی میں سچ کہہ رہا ہوں۔ اگر وہ شخص تمہیں انعام دے دیتا تو تم ہمیشہ لالچ میں آکر نیکی کرتے اور تمہارے سارے نیک کام ضائع ہوجاتے۔‘‘
’’بلال ٹھیک کہہ رہا ہے معاذ بیٹا۔‘‘ امی دونوں کے لیے کمرے میں دودھ لائی تھیں۔ یہ سن کر اسے بھی خود پر تھوڑا افسوس ہوا۔ کچھ لمحے گزرنے کے بعد امی پھر بولیں ’’وہ آدمی دراصل تمہارے ابو کے دوست تھے اور وہ گھر آئے تھے، تمہارا شکریہ ادا کرنے اور تحفہ دینے، ہم نے انہیں بہت منع کیا لیکن پھر بھی وہ اپنی خوشی سے دے گئے۔‘‘
معاذ کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
’’امید ہے اب تم سمجھ گئے ہوگے اور آئندہ سے خلوصِ نیت سے لوگوں کی مدد کروگے۔‘‘
’’جی امی! میں سمجھ گیا ہوں اور آئندہ کبھی انعام کے لالچ میں اچھا کام نہیں کروں گا بلکہ ثواب کی نیت سے کروں گا۔‘‘ معاذ نے فرماں برداری سے جواب دیا۔ اس کی چمکتی آنکھیں اس کے عزم کا پتا دے رہی تھیں۔
’’شاباش! یہ ہوئی ناں بات۔‘‘بلال خوش ہوکر بولا۔
’’اچھا اب میرا انعام تو دیں۔‘‘ معاذ بولا تو سب ہنسنے لگے، اور بلال نے تکیے کے نیچے سے اسے انعام نکال کر دے دیا۔