انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنا کر بے شمار امتیازی خصوصیات سے نوازا ہے اس کے لیے زمین اور اس کے ماحول کی بے شمار چیزیں مسخر کر دی گئی ہیں اور ان پر تصرف کے وسیع اختیارات بھی اس کو بخش دیے گئے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اسے اپنی راہِ، زندگی کے انتخاب میں آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایمان و فکر‘ اطاعت و معصیت‘ نیکی اور بدی کی راہوں میں سے جس راہ پر بھی جانا چاہے جا سکتا ہے۔ حق اور باطل‘ صحیح اور غلط جس طریقے کو بھی اختیار کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ ہر راستے پر چلنے کے لیے اسے توفیق دے دی جاتی ہے اور اس پر چلنے میں وہ خدا کے فراہم کردہ ذرائع استعمال کر سکتا ہے۔ خواہ وہ خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری کا راستہ ہو یا اس کی نافرمانی کا راستہ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان میں پیدائشی طور پر اخلاق کی حس رکھی ہے جس کی بنا پر وہ اختیاری اعمال اور غیر اختیاری اعمال میں فرق کرتا ہے۔ اختیاری اعمال پر نیکی اور بدی کا حکم لگاتا ہے اور یہ رائے بھی قائم کرتا ہے کہ اچھا عمل جزا کا اور برا عمل سزا کا مستحق ہونا چاہیے۔
انسان کی یہ خصوصیات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ کوئی وقت ایسا ہونا چاہیے جب انسان سے اس کے اعمال کا اور ان تمام نعمتوں کا جو اس کو دی گئی تھیں ان کا محاسبہ کیا جائے۔ ان سب اختیارات کی پوچھ گچھ کی جائے جو اس کو دیے گئے تھے۔ اور اس احتساب کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقرر کیا ہے‘ یہ وقت لامحالہ انسان کا کارنامہ زندگی ختم ہونے اور اس کا دفتر عمل بند ہونے کے بعد ہی آسکتا ہے اور اس وقت تمام انسانوں کا وقتِ عمل ختم ہو جائے کیوں کہ ایک فرد یا ایک قوم کے مر جانے پر ان اثرات کا سلسلہ ختم نہیں ہو جاتا جو اس نے اپنے اعمال کی بدولت دنیا میں چھوڑے ہیں۔ اس کے چھوڑے ہوئے اچھے یا برے اثرات بھی تو اس کے حساب میں شمار ہونے چاہئیں۔ یہ اثرات جب تک مکمل طور پر ظاہر نہ ہوں لیں انصاف کے مطابق پورا محاسبہ کرنا اور پوری جزا یا سزا دینا کیسے ممکن ہے۔
انسان اگر اپنے وجود سے باہر نظام کائنات پر غور کرے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کائنات برحق بنائی گئی ہے۔ یہ کسی بچے کا کھیل نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے اس نے ایک بے ڈھنگا سا گھروندا بنا لیا ہو۔ جس کی تعمیر اور تخریب دونوں ہی بے معنی ہوں بلکہ یہ ایک سنجیدہ نظام ہے جس کا ایک ایک ذرہ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اسے کمالِ درجہ حکمت کے ساتھ بنایا گیا ہے جس کی ہر چیز میں ایک قانون کارفرما ہے‘ جس کی ہر شے بامقصد ہے۔ انسان کا سارا تمدن اور اس کی پوری معیشت اور اس کے تمام علوم و فنون خود اس بات پر گواہ ہیں کہ دنیا کی ہر چیز کے پیچھے کام کرنے والے قوانین کو دریافت کر کے اور ہر شے جس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے اسے تلاش کرکے ہی انسان یہاں سے یہ سب کچھ تعمیر کرسکا ہے ورنہ ایک باضابطہ اور مقصد کھلونے میں اگر ایک پتلے کی حیثیت سے اس کو رکھ دیا گیا ہوتا‘ کسی سائنس اور کسی تہذیب و تمدن کا تصور تک نہ کیا جاسکتا تھا۔
اس کائنات کے نظام کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ یہاں کوئی بھی چیز ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے۔ ہر چیز کے لیے ایک عمر مقرر ہے جسے پہنچنے تک وہ ختم ہو جاتی ہے۔ یہی معاملہ کائنات کا بھی ہے‘ یہاں جتنی طاقتیں کام کر رہی ہیں وہ سب محدود ہیں۔ ایک وقت تک ہی وہ کام کر رہی ہیں اور ایک مقررہ وقت پر ان کو ختم ہوجانا ہوگا۔ قدیم زمانہ میں تو علم کی کمی کے باعث ان فلسفیوں اور سائنس دانوں کی بات پر لوگ یقین کر لیتے تھے کہ دنیا ازلی اور ابدی ہے۔ مگر اب اللہ کے رسولؐ اور اس کی کتاب نے لوگوں کو اپنا ووٹ خدا پرستوں کے حق میں ڈالنے پر مجبورکردیا ہے۔ دہریوں کے لیے عقل اور رحمت کا نام لے کر یہ دعویٰ کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی کہ دنیا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اور قیامت کبھی نہیں آئے گی۔ پرانی مادّہ پرستی کا سارا انحصار اس تخیل پر تھا کہ مادّہ فنا نہیں ہو سکتا‘ صرف صورت بدلی جا سکتی ہے۔ مگر ہر تغیر کے بعد مادّہ‘ مادّہ ہی رہتا ہے اور اس کی مقدار میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ مگر اب سائنس کی بے پناہ ترقی اور جوہری توانائی کی انکشاف نے اس پورے تخیل کی بساط الٹ کر رکھ دی ہے اور یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ قوت مادّے میں تبدیل ہوتی ہے اور مادّہ پھر قوت میں تبدیل ہو جاتا ہے حتیٰ کہ نہ صورت باقی رہتی ہے نہ ہیولا۔ یہ عالم مادّی اور ازلی ہو سکتا ہے نہ ابدی۔ اس کو ہر صورت میں فنا ہوجانا ہے۔ اس مقررہ زندگی میں انسان اختیاری زندگی گزار سکتا ہے۔ نافرمانی کی زندگی گزارنے سے جو تباہی قوموں پر آتی ہے وہ خدا کا ظلم نہیں‘ ان کا اپنا اختیاری ظلم ہوتا ہے اور وہ اپنے برے انجام کا خود ذمے دار ہے۔ خدا نے تو اپنی کتابوں میں اپنے انبیا کے ذریعے انسان کو حقیقت کا علم دینے کا انتظام بھی کیا ہے اور وہ علمی و عقلی وسائل بھی عطا کیے ہیں جن سے کام لے کر وہ ہر وقت انبیا اور کتب آسمانی کے دیے ہوئے علم کو صحت کا جانچ سکتا ہے۔ اس رہنمائی اور ان ذرائع سے اگر خدا نے انسان کو محروم رکھا ہوتا تو اس حالت میں انسان کو غلط روی کے نتائج سے دو چار ہونا پڑتا تب بلاشبہ وہ خود کو بری الذمہ قرار دینے میں حق بجانب ہوتا۔
لیکن انسان نے تمام جتھہ بندیاں قوم‘ نسل‘ وطن زبان‘ قبیلہ‘ برادری اور معاشی و سیاسی مفادات کی بنیاد پر خود بنائی ہیں۔ روزِ حساب پر یہ تمام جتھہ بندیاں ٹوٹ جائیں گی اور خالص عقیدے اور اخلاق و کردار کی بنیاد پر نئے سرے سے ایک دوسری گروہ بندی ہوگی۔ اسلام جس چیز کو اس دنیا میں تفریق اور اجتماع کی حقیقی بنیاد قرار دیتا ہے اور جسے جاہلیت کے پرستار یہاں ماننے سے یکسر انکار کرتے ہیں۔ آخرت میں اسی بنیاد پر تفریق بھی ہوگی اور اجتماع بھی۔ اسلام کی نظر میں انسان کو ملانے اور توڑنے والی اصل چیز عقیدہ اور اخلاق ہے۔ ایمان لانے والے اور خدائی ہدایت پر نظامِ زندگی کی بنیاد رکھنے والے ایک امت ہیںخواہ وہ دنیا کے کسی گوشے میں بستے ہوں اور کفر کی راہ اختیار کرنے والے ایک دوسری ہی امت ہیں خواہ ان کا تعلق کسی نسل و وطن سے ہو۔ ان دونوں کی قومیت ایک نہیں ہو سکتی۔ یہ نہ دنیا میں ایک مشترک راہِ زندگی بنا کر ایک ساتھ چل سکتے ہیں اور نہ آخرت میں ان کا انجام ایک ہو سکتا ہے۔ کافر نسل‘ وطن اور زبان کی بنیاد کے قائل ہیں جب کہ مسلمان نوع انسانی کو ایک نظریۂ حیات اور اخلاق و کردار کی بنیاد پر قائم کرنا چاہتے ہیں جو اسلام نے انہیں دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو قوائے نطقیہ یکساں عطا کیے ہیں۔ نہ دماغ کی ساخت میں کوئی فرق ہے نہ منہ اور زبان کی بناوٹ میں۔ مگر زمین کے مختلف خطوں میں مختلف زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ہر شخص کا لہجہ‘ تلفظ اور طرز گفتگو دوسرے سے مختلف ہے۔ مادّہ تخلیق ایک ہوتے ہوئے بھی باپ بیٹے کی شکل‘ رنگ و روپ میں فرق ہوتا ہے۔ کوئی فرد دوسرے سے مشابہ نہیں حتیٰ کہ ایک درخت کی دو پتوں میں بھی پوری مشابہت نہیں پائی جاتی۔
خالقِ کائنات نے تمام انسانوں کو دینِ فطرت پر پیدا کیا۔ بخاری و مسلم میں آپؐ نے فرمایا ’’ہر بچہ جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے‘ اصل انسانی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ یہ ماں باپ ہیں جو اسے بعد میں عیسائی یا یہودی یا مجوسی وغیرہ بنا ڈالتے ہیں۔‘‘ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہر جانور کے پیٹ سے پورا پورا صحیح و سالم جانور برآمد ہوتا ہے‘ کوئی بچہ بھی کٹے ہوئے کان لے کر نہیں آتا۔ بعد میں مشرکین اپنے اوہام جاہلیت کی بنا پر اس کے کان کاٹتے ہیں۔
مسند احمد اور نسائی میں ایک اور حدیث ہے کہ ایک جنگ میں مسلمانوں نے دشمنوں کے بچوں تک کو قتل کر دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا ’’لوگوں کو کیا ہوگیا کہ آج وہ حد سے گزر گئے اور بچوں تک کو قتل کر ڈالا۔‘‘ ایک شخص نے عرض کیا ’’کیا یہ مشرکین کے بچے نہ تھے؟‘‘ فرمایا ’’تمہارے بہترین لوگ مشرکین ہی کی تو اولاد ہیں۔‘‘ پھر فرمایا ’’ہر متنفس فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب اس کی زبان کھلنے پر آتی ہے تو ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا لیتے ہیں۔‘‘ ایک اور جگہ حدیث میں آپؐ نے فرمایا ’’میرا رب فرماتا ہے کہ میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف پیدا کیا تھا۔ پھر شیاطین نے آکر ان کو ان کے دین سے گمراہ کیا اور جو کچھ میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا اسے حرام کیا اور انہیں حکم دیا کہ میرے ساتھ ان چیزوں کو شریک ٹھہرائیں جن کے شریک ہونے پر میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے۔ اللہ کی صفات نہ کسی کو سونپی جا سکتی ہیں اور نہ اس کی الوہیت اور اختیارات میں شریک ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اللہ کے سوا کسی دوسرے میں یہ طاقت نہیں کہ انسان کی قسمت بنا سکے یا بگاڑ سکے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور اس کے غضب کا خوف دونوں قلب کے افعال ہیں۔ اسی قلبی کیفیت کو استحکام میں لانے کے لیے اقامت الصلوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے۔ رجوع الی اللہ اور خوفِ خدا کو مستحکم کرنے کے لیے ہر روز پانچ وقت پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل کارگر نہیں ہے کیوں کہ ایمان اسلام کا وہ پورا سبق جو قرآن نے انسان کو پڑھایا ہے‘ نماز میں اسے بار بار دہرانا پڑتا ہے۔ ایمان و اسلام سے جب کسی بندے کا تعلق کمزور ہونے لگتا ہے اس وقت ’’نماز‘‘ اور ’’صبر‘‘ سے مدد لی جاتی ہے۔
نوع انسانی کا اصل دین ’’دینِ فطرت‘‘ یعنی اسلام ہی ہے اس لیے امیدوںکے سہارے جب بھی ٹوٹنے لگتے ہیں انسان کا دل خود ہی اندر سے پکارنے لگتا ہے کہ اصل فرماں روائی کائنات کے مالک کی ہی ہے اور اس کی مدد ان کی بگڑی بنا سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کے ذریعے انسان کی اخلاقی و روحانی ارتقاء کا جو راستہ تجویز کیا ہے اس کے لیے آزاد معاشرہ اور آزاد معیشت ضروری ہے۔ جہاں افراد وسائل دولت کے مالک ہوں‘ اُن پر آزادانہ تصرف کے اختیارات رکھتے ہوں اور پھر اپنی رضا و رغبت سے خدا اور اس کے بندوں کے حقوق اخلاق کے ساتھ ادا کرتے رہیں۔ اس قسم کے فلاحی اور اسلامی معاشرے میں لوگوں میں ہمدردی‘ رحم و شفقت‘ ایثار و قربانی‘ حق شناسی اور ادائے حقوق کی اعلیٰ اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔
نبی کی آمد بھی انسان کی اخلاقی زندگی کے لیے ویسی ہی رحمت ہے جیسے بارش کی آمد اس کی مادّی زندگی کے لیے رحمت ثابت ہوتی ہے۔ آسمانی وحی کا نزول اخلاق و روحانیت کی ویران دنیا کو جلا اٹھاتا ہے اور اس میں فضائل کے گلزار لہلہانے لگتے ہیں۔