آزاد کشمیر راولا کوٹ میں پیدا ہونے والی غزالہ حبیب کا تعلق ٹی وی‘ ریڈیو اور شاعری سے ہے۔ موصوفہ فرینڈ آف کشمیر کی چیئرپرسن ہیں جس کی بنیاد انہوں نے 1997ء میں رکھی تھی۔ آج کم سے کم آدھی دنیا میں اس تنظیم کے چیپٹرز موجود ہیں جو مسئلہ کشمیر کے لیے بھرپور خدمات انجام دے رہے ہیں۔ غزالہ حبیب نے ریڈیو پاکستان اور کراچی ٹی وی میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا یہ کب سے شاعری کر رہی ہیں اس بات سے راقم الحروف نثار احمد نثار لاعلم ہے تاہم ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’سلگتے چنار‘‘ ہے۔ اور دوسرا مجموعہ کلام لامکاں 2020 میں شائع ہوا جس کی تقریب اجرا آرٹس کونسل کراچی میں نیاز مندان کراچی کے اشتراک سے ہوئی۔ گزشتہ ہفتے مقامی ریسٹورینٹ میں غزالہ حبیب کے لیے ادبی تنظیم نیاز مندان کراچی کی جانب سے لنچ مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت راشد نور نے کی۔ طارق جمیل مہمان خصوصی تھے۔ یاسر سعید صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس موقع پر میزبانِ تقریب رونق حیات نے کہا کہ ان کی تنظیم نیاز مندان کراچی قلم کاروں کے حقوق کے لیے سرگرم عمل ہے اس سلسلے میں ہم نے حکومتی سطح پر قائم ادبی اداروں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کی ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ ان اداروں میں ’’ستائش باہمی‘‘ کی بنیاد پر کام ہو رہا ہے اور کراچی کے بہت سے جینوئن قلم کاروں کی حق تلفی ہو رہی ہے۔ قلم کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے جو گرانٹ حکومت پاکستان دیتی ہے اس کے اخراجات پر بھی ہمارے تحفظات ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ادیبوں اور شاعروں کے لیے مالی اعانت‘ علاج معالجے کی سہولت اور رو زگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ قلم کار کی تعریف متعین کی جائے پاکستان کی قومی زبان اردو سرکاری اداروذں میں نافذ کی جائے‘ ہم نے قلم کاروں کے مسائل پر اور زبان و ادب کے فروغ کے لیے ایک کانفرنس منعقد کی تھی اب ان شاء اللہ ہم دوسری ادبی کانفرنس ترتیب دے رہے ہیں جس میں زندگی کے تمام شعبوں کے مستند افراد کو شریک کریں گے۔ مہمان خصوصی طارق جمیل نے کہا کہ آج کی یہ مختصر سی نشست بہت کامیاب ہے کہ آج ہر شاعر نے بہت اچھا کلام پیش کیا۔ آج کی صاحب اعزاز غزالہ حبیب جب بھی پاکستان آتی ہیں ان کے اعزاز میں محفلیں سجائی جاتی ہیں ان کی شاعری میں کشمیر کے حوالے سے نئے نئے مضامین ہیں جس سے مسئلہ کشمیر کے مختلف زاویے اجاگر ہوتے ہیں اس کے علاوہ بھی غزالہ حبیب نے اپنی زندگی تجربات اور دنیا بھر کے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا ہے میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت عطا فرمائے۔ غزالہ حبیب نے اپنے اشعار سنانے سے پہلے نیاز مندان کراچی کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ وہ 2007ء سے امریکا میں مقیم ہیں وہاں پر انہوں نے ادب بستی ادبی تنظیم بنائی ہے جس کے پلیٹ فارم سے اردو زبان و ادب کی خدمت کی جارہی ہے اس کے علاوہ میری خواہش ہے کہ میری زندگی میں کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے۔ ہم ہر سال 5 فروری کو کشمیر ڈے مناتے ہیں‘ ہم کشمیریوں کی جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہیں۔ صاحبِ صدر نے کہا کہ غزالہ حبیب کی شاعری میں کشمیر کی آزادی کی امنگ ہے ان کے ہاں شعری محاسن نظر آتے ہیں انہوں نے جو کچھ اپنی زندگی میں پایا اس کا اظہار کیا ہے ان کے شعری مجموعے قارئین میں بہت مقبول ہیں ان کی ترقی کا سفر جاری ہے امید ہے کہ اپنی منزل حاصل کرلیں گی۔ اس مشاعرے میں راشد نور‘ رونق حیات‘ غزالہ حبیب‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ ریحانہ احسان‘ خالد رانا قیصر‘ سعد الدین سعد‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ طاہرہ سلیم سوز‘ رفیق مغل‘ تنویر سخن اور یاسر سعید صدیقی نے اپنا کلام پیش کیا۔ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ نوراللہ بوگھیو اور مبشر نعیم نے بھی غزالہ حبیب کی شخصیت اور فن پر گفتگو کی۔
پاسبانِ دبستان کراچی کا بہاریہ مشاعرہ
۔3 اکتوبر کو سید اقبال حسن رضوی کی رہائش گاہ پر پاسبان دبستان کراچی کے زیر اہتمام بہاریہ مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کی۔ مہمانان خصوصی میں اختر سعیدی‘ فیاض علی فیاض شامل تھے۔ ابن عظیم فاطمی‘ احمد سعید خان ‘عارف پرویز نقیب اور سخاوت علی نادر مہمانان اعزازی تھے۔ ضیا حیدر زیدی اور واحد رازی مہمانان توقیری تھے جب کہ مہمان تعارفی ذوالفقار حیدر پرواز‘ فرح دیبا اور اقبال حسن رضوی تھے۔ الحاج نجمی نے نظامت کے فرائض کی انجام دہی کے علاوہ خطبۂ استقبالیہ بھی پیش کیا جس میں انہوں نے اپنی ادبی تنظیم کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ہم نے اب تک متعدد پروگرام کیے ہیں جو سب کے سب کامیاب ہوئے ہم محبتوں کے سفیر ہیں‘ آج جو لوگ ہمارے ساتھ بیٹھے ہیں ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ صاحب صدر نے کہا کہ الحاج انجمی بڑی جاں فشانی سے ادبی پروگرام کر رہے ہیں‘ میں ان کی خدمات کی قدر کرتا ہوں مجھے امید ہے کہ اسی طرح مصروف عمل رہیں گے‘ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت کی ضرورت یہ ہے کہ تمام قلم کار اپنے اختلافات بھلا کر متحد ہو جائیں اور پاکستانی بیانیے سے جڑ جائیں۔ جب تک ہمارا اپنا قومی بیانیہ نہیں ہوگا ہم زندگی کے کسی شعبے میں ترقی نہیں کر سکتے‘ ہم تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جائیں گے۔ پاکستان کا قیام ملی تصور پر ہوا جب کہ وطنی تصور کو بیانیے میں اس طرح جگہ نہیں دی گئی جس طرح کہ اس کا حق تھا۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی اقتدار حاصل کرنے کے لیے انگریزی بیانیے کے زیر اثر پورے ہندوستان کو قابو کرتی رہی۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم ایک آزاد ملک کے باشندے ہیں‘ ہمیں اپنی ثقافت اور روایات کو آگے بڑھانا ہے‘ اس مشاعرے میں پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی‘ اختر سعیدی‘ فیاض علی فیاض‘ ابن عظیم فاطمی‘ احمد سعید خان‘ عارف پرویز نقیب‘ سخاوت علی نادر‘ ضیا حیدر زیدی‘ واحد رازی‘ ذوالفقار حیدر پرواز‘ فرح دیبا اور الحاج نجمی نے اپنا کلام پیش کیا۔
سلام گزار ادبی فورم کی 120 ویں طرحی محفل ِ سلام
کراچی کلے ادبی منظر نامے سے طرحی مشاعروں کی روایت ختم ہوتی جارہی ہے تاہم طاہر سلطانی کی بزم حمد و نعت اور قمر وارثی کی تنظیم دبستان وارثیہ کے زیر اہتمام طرحی مشاعرے ہو رہے ہیں۔ سلام گزار ادبی فورم کے تحت طرحی محفل سلام اور کبھی کبھی غیر طرحی محفل سلام منعقد ہو رہی ہے۔ اردو زبان و ادب میں رثائی ادب کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ عرب میں مرثیہ نگاری اور نوحہ خوانی کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری تھا لیکن کربلا میں حضرت امام حسینؓ اور ان کے 72 رفقا کی شہادت سے رثائی ادب میں بہت ترقی ہوئی نیز برصغیر ہند و پاک کے شعرا نے اپنی شاعری میں کربلا کے واقعات رقم کیے اس طرح حق و باطل کی اس جنگ کے احوال مزید نمایاں ہوئے۔ دین اسلام میں ہر مسلمان اہل بیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے کیوں کہ اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ ان خیالات کا اظہار مقبول زیدی نے راقم الحروف سے ٹیلی فون پر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم سلام گزار ادبی فورم کے ذریعے سلام حسینؓ کی محفلیں منعقد کر رہے ہیں اس کا سلسلہ پاکستان کے مختلف شہروں تک جا پہنچا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے طرحی مشاعرے کی ردیف ’’شہادت‘‘ پر ہم نے 120 ویں محفل سلام ترتیب دی تھی۔ اصغر علی سید کی رہائش گاہ پر ہونے والی اس محفل کی صدارت سمیع نقوی نے کی جب کہ جمال احمد جمال مہمان خصوصی تھے۔ مقبول زیدی نے نظامت کے فرائض انجام دیے اس موقع پر صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے طرحی ردیف شہادت پر سلام حسین پیش کیا ان میں عقیل عباس جعفری‘ پروین حیدر‘ خمار زیدی‘ کاشف متھراوی‘ سخاوت علی نادر‘ محمد علی زیدی‘ شہنشاہ جعفری‘ رئیس حیدر زیدی‘ الحاج نجمی مونس رضوی‘ ہماساریہ‘ آس سلطانی‘ ذوالفقار حیدر پرواز‘ اصغر علی سید‘ الحاج یوسف اسماعیل اور دیگر شامل تھے۔ سیدہ نقوی اور طاہرہ سیمی نے بطور سامعین شرکت کی۔ صاحب صدر نے کہا کہ ذکرِ حسینؓ عین عبادت ہے کربلا سے ہم پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حق کے لیے جان کی بازی لگانا ضروری ہے۔ حسینی راستے پر چل کر ہم سرخرو ہو سکتے ہیں۔ مہمان خصوصی نے کہا کہ اسلامی تعلیمات کی تشہیر کے لیے سلام ایک صنفِ سخن کے طور پر روز بہ روز ترقی کر رہی ہے۔ جو لوگ امام حسین کے لیے محفلیں سجاتے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔
کوئٹہ عنابی ہوٹل
سلمان صدیقی