ہر طرف گلاب کے پھول اپنی مہک سے فضا کو معطر کررہے تھے… ہرا بھرا کھیت اور گلاب کی کئی رنگ کی نسلیں۔ واقعی بہت خوب صورت باغ ہے۔ سورج بھی بادلوں میں چھپا بیٹھا تھا…ہلکی پھلکی پھوار نے گلاب کے پودوں کو تازہ کردیا تھا۔ بوند بوند بادلوں سے برس کر گلاب کی نرم پتیوں سے پھسلتی ہوئی نیچے زمین میں جذب ہوجاتی۔
بظاہر گلاب اتنے پیارے لگ رہے تھے کہ میں گلابوں کی عاشق بن گئی… ویسے مجھے کالا گلاب بہت پسند تھا، سو میں کالے گلابوں کے باغ کی طرف چل پڑی۔
وہ ننھی کالے گلاب کی کلی کتنی پیاری تھی۔ میں اُس کے قریب جا بیٹھی۔ ننھی منی پیاری سی کلی پھوار کی بوندوں سے دبی چلی جا رہی تھی… آخر وہ تھی ہی اتنی نازک۔
جیسے ہی میں نے اسے بوندوں سے بچانے کے لیے ہاتھ لگایا، جھٹک کر اس نے میرے ہاتھوں میں زخم کردیا۔ ’’آہ…‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔
اتنے میں پیچھے سے کوئی میری جانب بڑھا۔ لیکن کوئی مجھے نظر نہ آیا۔ ’’کون ہے وہاں…؟‘‘ میں نے سہمتے ہوئے کہا۔ لیکن کوئی جواب نہ ملا۔
میں پھر اس کلی کی طرف متوجہ ہوئی… لیکن دل نے محسوس کرلیا تھا کہ اب بھی کوئی میرے پاس پیچھے موجود ہے۔
’’ننھے گلاب! دیکھو تم نے اپنے کانٹوں سے میرے ہاتھوں کو چھلنی کردیا ہے۔‘‘ میں نے دوبارہ گلاب کو ہاتھ لگانے کی کوشش ہی کی تھی کہ کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
میں ایک دم سکتے کے عالم میں آگئی، مارے خوف کے میری زبان بھی کام نہیں کررہی تھی… میرا ہاتھ گلاب کو چھوتے چھوتے رہ گیا تھا۔
’’پیاری لڑکی اسے چھونا بھی مت…‘‘ کسی بوڑھی عورت کی میٹھی آواز جب میری سماعت سے ٹکرائی تو میں اپنے کھوئے حواس میں واپس آئی… اب میں بالکل بے خوف ہوگئی… سو میں بھی بولی ’’میں تو اسے بارش سے بچا رہی تھی…‘‘ میں نے پیچھے مڑتے ہوئے کہا۔ ایک ضعیف عورت ہاتھ میں لاٹھی تھامے میرے پاس کھڑی ہوئی تھی۔
پھر وہ بوڑھی عورت نیچے بیٹھتے ہوئے کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ اُس کی نظر میرے چھلنی ہاتھ پڑی۔ ’’بیٹا! تم جانتی ہو یہ تمہارا ہاتھ کیوں چھلنی ہوا؟‘‘
’’جی امّاں جی…! میں نے اسے بچانے کی کوشش کی تھی…‘‘ میں نے ابھی بات پوری بھی نہیں کی تھی کہ وہ بولنے لگیں ’’بیٹا! اسے آپ نے بچایا نہیں ہے… یہ اپنی زندگی کی مشکلات پر پورا اترتے ہیں، کاش انسان بھی سمجھ سکیں۔‘‘
’’اماں جان! میں کچھ سمجھی نہیں۔‘‘ میں نے ناگواری سے کہا۔
’’اچھا! میں تمہیں گلاب کی مثال دے کر سمجھاتی ہوں…
دیکھو گلاب کتنی پیاری خوشبو دیتا ہے، بظاہر وہ اوپر سے بہت خوب صورت نظر آتا ہے لیکن یاد رکھو انسان بھی باہر سے بہت دل لگی کرنے والا ہوتا ہے لیکن اندر سے وہ کالا سکہ ہے۔‘‘
’’ اماں جان! کالا سکہ سے آپ کی کیا مراد ہے…؟‘‘ میں نے ناسمجھی کے عالم میں پوچھا۔
’’بیٹا! کالا سکہ سے مراد کالا دل… پتھر۔ باہر سے تو انسان آپ سے بہت محبت کرے گا… لیکن اندر ہی اندر کڑھتا ہے… حسد کرتا ہے… لڑکی! جس طرح تم نے گلاب کی اوپر سے خوب صورتی دیکھ کر اسے محبت کے ساتھ ہاتھ لگانے کی کوشش کی تھی… اسی طرح انسان پر بھی اندھا اعتماد کرکے اس سے اپنی راز کی باتیں نہ کہہ دینا، کیوں کہ وہ حاسد ضرور ہوتا ہے۔‘‘
’’جی امّاں جان! میں سمجھ گئی…‘‘
’’تو پیاری لڑکی! جس طرح گلاب نے تمھیں چھلنی کردیا ہے ناں، اسی طرح ایک وقت ایسا آتا ہے کہ آپ جس سے محبت کرتے ہیں، وہ آپ کو ایسا دھوکا دیتا ہے کہ آپ کو ہر طرف سے چھلنی کردیتا ہے، اس لیے سوچ سمجھ کر ہی کسی کی طرف بہت زیادہ متوجہ ہونا چاہیے۔‘‘
پھر امّاں جان نے اوپر سے گلاب کے پھول کو توڑا اور کانٹوں کے بغیر ہی مجھے تھما دیا، پھر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولیں:
’’اسی لیے بیٹا انسان کو بڑی جانچ پڑتال کرکے کسی سے اپنا دل لگانا چاہیے… اب یہ گلاب میں نے کانٹوں سے الگ کردیا ہے… یعنی میں نے اسے صاف کردیا ہے۔ اگر کوئی انسان برا ہوتا ہے، آپ اس کی برائیوں کو اپنی پیاری اور میٹھی باتوں سے ختم کریں… جیسے میں نے ابھی آپ کو سمجھایا ہے۔‘‘
’’جی امّاں جان، آپ کا بہت شکریہ، اب میں چلتی ہوں، اللہ حافظ۔‘‘
اسی کے ساتھ ننھے قطرے گررہے تھے… اور میں گلاب کے باغ سے نکل کھڑی ہوئی تھی… کیوں کہ آج انہوں نے مجھے بہت اچھا سبق دیا تھا۔