’’امی، آپ گھر پرہیں؟‘‘ نادیہ فون پر پوچھ رہی تھی، لہجہ کچھ اکھڑا سا تھا۔
’’ہاں، گھر پر ہوں۔‘‘ امی الجھیں۔
’’اس لیے پوچھ رہی تھی کہ اس وقت کلاس میں گئی ہوتی ہیں۔‘‘ نادیہ نے اپنے سوال کی وضاحت کرتے ہوئے امی کی الجھن دور کی۔
’’بس ابھی دس منٹ پہلے ہی تو آئی ہوں، اب عصر پڑھنے…‘‘
’’ٹھیک ہے میں آرہی ہوں۔‘‘ اس نے ماں کی بات کاٹتے ہوئے کہا اور لائن کاٹ دی، اور امی حیران پریشان سی ہاتھ میں پکڑے موبائل کو دیکھتی رہ گئیں۔ ’’آج اس وقت کیسے؟‘‘ وہ دل ہی دل میں کچھ سوچتی وضو کرنے غسل خانے کی طرف بڑھ گئیں۔
…٭…
’’بس بہت ہوگئی، اب نہیں ہوتا مجھ سے صبر و برداشت۔ میاں کی زیادتیاں سہوں، ساس کی کڑوی کسیلی سنوں، یا نندوں کے طعنے! امی، اب تو میرے صبر کا پیمانہ چھلک چکا ہے، اُف بہت برداشت کر لیا میں نے ان سسرالیوں کو، مجھے نہیں رہنا اب ان کے ساتھ۔‘‘ نادیہ چبا چباکر کہہ رہی تھی، اور امی ہونٹ بھینچے، تیوری پر بل ڈالے اس کا شکایتی سسرال نامہ سن رہی تھیں۔
’’کہہ تو ایسے رہی ہو جیسے دو سال نہیں بلکہ بیس سال تم نے دکھ تکلیف سہتے گزار دیے ہیں!‘‘ امی نے اس کی ساری داستان سن کر کہا بھی کیا کہ وہ پیچ و تاب کھا کر رہ گئی۔
’’مجھے پتا تھا کہ آپ کبھی میری سائیڈ نہیں لیں گی، اپنے انہی ہوتوں سوتوں کی لیں گی جیسے وہ سگے ہیں اور میں سوتیلی۔‘‘ وہ دل ہی دل میں سوچ کررہ گئی۔ اور گود میں لیٹی سال بھر کی ہانیہ کو زور زور سے تھپکنے لگی۔
’’ارے اپنا غصہ اس ننھی سی جان پر کیوں اتار رہی ہو!‘‘ امی نے اس کے ہاتھوں کو پکڑا تو وہ رک گئی۔
’’امی آپ میرے دکھ کو نہیں سمجھ سکتیں، آپ نے کبھی ایسے حالات کا سامنا ہی نہیں کیا۔ دادی، پھوپھو سب ہی تو اتنے اچھے ہیں، اور ابو جی…‘‘ وہ رکی ’’وہ تو آپ کے مشورے کے بغیر چلتے نہیں، آپ خوش قسمت ہیں جو اتنا اچھا سسرال ملا۔‘‘
’’سسرال تو تمہارا بھی بہت اچھا ہے اگر تم صبر کا مظاہرہ کرو۔‘‘ امی نے رسان سے کہا۔
’’اتنا تو کرتی ہوں برداشت لیکن…‘‘
’’میں صبر کی بات کررہی ہوں۔‘‘ امی نے بات دہرائی۔
’’میں بھی تو وہی کہہ رہی ہوں۔‘‘ نادیہ کچھ جھلّائی تھی۔
’’نہیں، تم صبر نہیں کررہیں، بلکہ تم…تم برداشت کررہی ہو، وہ بھی آدھا، ادھورا…‘‘
’’اوہ! امی آپ نہ جانے کیا کہہ رہی ہیں‘‘۔ وہ کچھ حیران، کچھ اکتا کر بولی ’’صبر اور برداشت ایک ہی تو بات ہے۔‘‘
’’یہی تو میں تم کو سمجھانا چاہ رہی ہوں، یہ دونوں ایک بات نہیں۔‘‘
’’مطلب…؟‘‘ نادیہ نے پوری آنکھیں کھولیں۔
’’مطلب یہ کہ صبر تو وہ صفت ہے جس کو اللہ نے پسند کیا، یہ آسمانی پیمانہ ہے بیٹا۔ جب کہ برداشت وہ ہے جو تم کرتی ہو، مجھ سے، اپنی بہنوں سے برائیاں کرکے، رو دھو کر، اپنی بھڑاس نکال کر۔ صبر کا پیمانہ تو کچھ اور ہی ہوتا ہے۔‘‘
’’کچھ اور، کیا مطلب؟ امی آپ کیا کہہ رہی ہیں… پھر صبر کیا ہوتا ہے؟‘‘ وہ کچھ بے چین ہوئی۔
’’بیٹا، اللہ پاک کہتے ہیں نماز اور صبر کے ذریعے اللہ کی مدد مانگو، کیوں کہ میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں۔‘‘ امی نے توقف کیا ’’صبر کرکے واویلا نہیں کیا جاتا، یہ تو خاموش رہ کر اپنا معاملہ مکمل اللہ پر چھوڑ کر مطمئن ہونا ہے۔‘‘ امی کہہ رہی تھیں اور ماں کی بات سن کر نادیہ نظریں چرا گئی تھی۔
’’آں… مگر میں تو…‘‘ وہ گڑبڑا گئی تھی، اسے جواب سمجھ نہیں آرہا تھا۔ ’’اتنی بڑی بڑی زیادتیوں کے بعد صبر کرنا کوئی آسان ہے؟‘‘ چند لمحوں بعد وہ ماں سے سوال کررہی تھی۔
’’نہیں ہے آسان، جبھی تو اللہ پاک کہہ رہے ہیں ’’میں صبر کرنے والوں کا ساتھی ہوں‘‘۔ اتنی بڑی خوش خبری تو دے دی اس پروردگار نے۔‘‘ اور نادیہ ہونٹ کاٹنے لگی۔ امی نے چند لمحے اس کو دیکھا اور سوئی ہوئی ہانیہ کو اس کی گود سے لیتے ہوئے بستر پر لٹا دیا۔ ’’بیٹا! تم اپنے معاملے پر غور کرو اور موازنہ کرو کہ کیا واقعی تمہارے سسرالی تم پر زیادتی کرتے ہیں، یا پھر چھوٹی اور معمولی باتیں ہوتی ہیں جن پر تم صبر نہیںکرپاتیں! اگر برداشت سے کام لو تو بہت ممکن ہے کہ معاملہ وہیں ختم ہوجائے۔‘‘ امی نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’یاد رکھو اللہ پاک ہمارے لیے ہمارے حق میں بہترین فیصلہ کرتے ہیں۔ چھوٹی اور معمولی باتیں درگزر کردی جاتی ہیں۔ اگر تمہارے ساتھ کچھ برا ہوتا بھی ہے تو تم خود اپنا اجر، صبر نہ کرکے ضائع کردیتی ہو۔‘‘
’’شاید آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔‘‘ اس نے دل میں اقرار کیا۔
’’میں یہ بات تم کو بتانا تو نہیں چاہتی تھی لیکن شاید آج اس کی ضرورت ہے۔ تم نے ابھی اپنی دادی، پھوپھو اور باپ کی جو تعریف کی ہے ناں، اگرچہ اب واقعی ایسا ہے، لیکن بیٹا شادی کے ابتدائی برسوں میں یہ صورتِ حال نہیں تھی، بلکہ اس کی مخالف ہی تھی، لیکن چوں کہ مجھے صبر اور درگزر کرنے کی عادت تھی، لہٰذا اللہ نے اس کا پھل بھی مجھے دے دیا۔‘‘
’’ہاں… واقعی امی…!‘‘ نادیہ نے آنکھیں پھیلائیں۔
’’ہاں بیٹا! چھوٹی موٹی چپقلش تو ہر گھر میں ہوتی ہے۔‘‘ امی مسکرائیں۔ ’’اچھا اب تم ایسا کرو آرام کرو، ہم بعد میں اس پر باتیں کریں گے۔‘‘ امی اٹھ گئی تھیں اور نادیہ کو سوچ میں ڈال گئی تھیں۔
…٭…
’’امی! میں نے آپ کی ہر بات پر بہت سوچا۔ صبر اور برداشت جسے پہلے میں ایک ہی چیز سمجھتی تھی، اس کا فرق بھی سمجھا۔‘‘ اگلے دن شام کو نادیہ ماں کے گھٹنے پر لیٹ کر سنجیدگی سے کہہ رہی تھی ’’واقعی صبر تو آسمانی پیمانہ ہے، جب کہ برداشت زمینی پیمانہ جو ہم سب کرتے ہیں، ناک بھوں چڑھاکر، لوگوں کو جواب دے کر، غیبتیں کرکے… جبھی تو اللہ پاک پھر یہ معاملہ بندوں پر ہی چھوڑ دیتے ہیں، کیوں کہ ہم صبر کرتے ہی کب ہیں! ہم تو…‘‘ اتنا کہہ کر نادیہ خاموش ہوگئی۔
’’ہاں بیٹا! تم صحیح نتیجے پر پہنچیں۔ درگزر سے کام لینا بڑی اچھی صفت ہے جس کے نتائج دیرپا ہوتے ہیں۔‘‘ امی نے پیار سے کہا اور نادیہ سوچ رہی تھی کہ اب اسے درگزر سے کام لینا ہے اور ساتھ میں اس آسمانی پیمانے کو بھی استعمال کرنا ہے۔ ہاں جب ہی تو میں کامیاب ہوںگی۔ نادیہ نے سوچ کر آخر ایک فیصلہ کر ہی لیا تھا۔