ماہر تعلیم، کاؤنسلر اور ٹرینر فہیم نقوی کی جسارت میگزین سے گفتگو
کہا جاتا ہے کہ اگر محنت صلاحیت کے ہمراہ ہو تو کامیابی ہم سفر بن جاتی ہے اور صلاحیت بغیر کوشش کے ایسے ہی ہے جیسے تیر بغیر کمان کے۔ ہمارے اطراف ایسی بہت سی شخصیات ہیں جنہوں نے نہایت کم عمری میں نہ صرف اپنی صلاحیتوں کا ادراک بلکہ اس کو مزید بہتر کرنے کے لیے مستقل مزاجی سے محنت کی۔ فہیم نقوی کا شمار بھی انہی میں ہوتا ہے۔ فہیم نقوی ماہر تعلیم‘ کیریئر کائونسلر اور ٹرینر کے طور پرجانے جاتے ہیں۔ معروف تعلیمی ادارے ’’ایسٹ ایجوکیشن‘‘ کے بانیوں میں شامل ہیں۔ آج کل بطور جنرل منیجر پنجاب اور ہیڈ آف ٹریننگ ڈپارٹمنٹ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ فہیم نقوی ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کی کامیابیوں کی فہرست طویل ہے مزید جاننے کے لیے ہم نے اُن کے ساتھ گفتگو کی ایک نشست رکھی جو کہ جسارت میگزین کے قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
جسارت میگزین: سب سے پہلے تو اپنا تعارف کروائیں۔
فہیم نقوی: میرا نام فہیم نقوی ہے‘ لاہور سے تعلق ہے‘ میں نے پرسٹن یونیورسٹی سے بینکنگ اینڈ فنانس میں ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ میں ایم بی اے کے علاوہ ایک سالہ سرٹیفائیڈ کورس ’’ارلی چائلڈ ایجوکیشن‘‘ (ECE) بیرون لک سے بھی کیا۔ میں بچپن سے ہی پڑھنے کا شوقین ہوں۔ تاریخ اور حساب میرے پسندیدہ مضامین ہیں۔ پھر گھر میں پڑھائی کا ماحول اور بڑی بہن کے بے انتہا تعلیمی رجحان نے اہم کردار ادا کیا۔ میرے والدین نے ہمیشہ ہماری تعلیم پر زور دیا بلکہ تعلیم کے معاملے میں میری والدہ کافی سخت تھیں‘ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا تھا۔ بچپن سے گھر میں اخبارات اور بچوں کا ماہنامہ آیا کرتا تھا جس کا نہایت شوق سے مطالعہ کرتا۔ پاکٹ منی سے ہمیشہ کوشش ہوتی کتابیں خریدوں۔ اب ناولز اور کہانیوں کی لائبریری ہے۔ تعلیم ہی نہیں بلکہ دوسرے شعبوں میں بھی مجھے سپورٹ کیا گیا۔ اسکول میں ہی تقریری مقابلوں میں بھرپور حصہ لیتا‘ کالج میں کرکٹ ٹیم کا حصہ رہا۔ ان سب نے وقتاً فوقتاً مجھ میں اعتماد بڑھایا۔
جسارت میگزین: اپنے پراجیکٹ کے متعلق ہمارے قارئین کو بتایئے۔
فہیم نقوی: EAST بنیادی طور پرEducational Assesment System and Training کا مخفف ہے۔ اس کی بنیاد ہم نے 2009ء میں رکھی۔ یہ ایک نجی ادارہ ہے جو پاکستان میں معیاری تعلیم کے لیے کوشاں ہے۔ الحمدللہ پورے پاکستان میں ہی ہمارا نیٹ ورک ہے۔ ہیڈ آفس کراچی میں ہے۔ پنجاب کے مختلف علاقے جیسے لاہور‘ سیال کوٹ‘ فیصل آباد‘ اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں میں ہمارے ریجنل دفاتر موجود ہیں۔ ہمارا ادارہ تعلیم کے دونوں فارمیٹ پر کام کررہا ہے۔ دونوں سے مراد فارمل (رسمی) اور نان فارمل (غیر رسمی) ہیں۔ فارمل ایجوکیشن سے مراد نجی اسکولوں کی ٹیچرز/پرنسپل ٹریننگ کے علاوہ نصاب تیار کرکے دیا جاتا ہے جو کہ عالمی معیار کے عین مطابق ہے۔ والدین کی کائونسلنگ کرتے ہیں‘ ورکشاپ منعقد کرتے ہیں۔ نان فارمل پراجیکٹ Literate Pakistan کے نام سے جاری ہے جس کا مقصد تعلیم بالغان پر فوکس کرنا ہے۔ یہ پاکستان کا پہلا پراجیکٹ ہے کہ جس نے صرف 90 روز یعنی محض 180 گھنٹے میں اردو سکھانے کا پروگرام شروع کیا جس کی وجہ سے تعلیم سے بے بہرا اور نابلد افراد قومی زبان لکھنے اور پڑھنے کے قابل ہوئے۔ اس حوالے سے ہم نے ’’جگنو سبق‘‘ کے عنوان سے پروگرام شروع کیا۔ ’’جگنو سبق‘‘ کا بنیادی مقصد ان افراد تک رسائی ہے جیسے فیکٹریوں اور جیلوں میں ان پڑھ افراد کی کثیر تعداد ہے۔ کوشش ہوتی ہے کہ پڑھے لکھے قیدیوں تک پہنچا جائے تاکہ انہیں اردو پڑھانے کی ٹریننگ دی جائے اس سے نہ صرف جیلوں میں موجود قیدی مؤثر سرگرمی میں مصروف ہوتے ہیں بلکہ اردو سیکھنے کے بعد وہ تعلیم سے مزید جڑنے پر آمادگی بھی ظاہر کرتے ہیں۔ Literate Pakistan اور ’’جگنو سبق‘‘ دراصل اردو کی ترویج اور تعلیمِ بالغان کے لیے پاکستان کا منفرد پروگرام ہے چھوٹے دفاتر یا فیکٹریوں کی سطح پر ہم انہی کی جانب سے بھیجے گئے نمائندوں کو رضا کارانہ ٹریننگ دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے ادارے میں یہ کام بہ خوبی سرانجام دے سکیں۔ الحمدللہ یہ منصوبہ پاکستان کے کامیاب ترین منصوبوں میں شمار ہوتا ہے۔
فارمل (رسمی) ایجوکیشن کے حوالے سے میں یہ بتاتا چلوں کہ ہم پاکستان بھر کے نجی تعلیمی اداروں میں ٹیچرز کی ٹریننگ کرتے ہیں۔ میں اب تک پاکستان کے تین ہزار سے زائد اداروں میں ٹیچرز کی تربیت اور والدین کی کائونسلنگ ورکشاپ کرا چکا ہوں۔ محض پاکستان ائر فورس کے تمام اداروں میں ٹریننگ کا اعزاز بھی رہا ہے۔ اس کے علاوہ معروف نجی تعلیمی اداروں میں بھی جانا ہوا۔ کوشش ہوتی ہے کہ روایتی اور جدید تعلیمی اداروں کا فرق واضح کیا جاسکے۔ اسی طرح پری پرائمری اور پرائمری کے لیے بہترین نصاب فراہم کرنا بھی EAST کے اہم کاموں میں سے ایک ہے۔
جسارت میگزین: آن لائن ایجوکیشن کا خیال کب اور کیسے آیا؟
فہیم نقوی: اصل میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت جدت آرہی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر تعلیم یافتہ بنائیں تو وہ مواصلاتی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ دیہی علاقوں میں رہائش پزیر ہے اس کی لیے پھر آپ کتنی تعلیمی فورس تیار کر سکتے ہیں جو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہو؟ آپ اگر بہترین تعلیم کے خواہاں ہیں جو کہ آج کل کے دور میں آن لائن ایجوکیشن کے بغیر ممکن نہیں‘ یہاں میں ڈاکٹر عطا الرحمن صاحب کو کریڈٹ دوںگا جو کہ ایچ ای سی کے سابق چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ آج پسماندہ دیہات ہو یا شہر انٹرنیٹ کی سہولت ہر جگہ میسر ہے۔ اسمارٹ فون موجود ہیں‘ آن لائن ایجوکیشن آنے والے دور کی ضرورت بھی ہے‘ میں سمجھتا ہوں کہ اسی کو لے کر ہم اپنے تعلیمی سسٹم کو تیزی سے بدل سکتے ہیں۔ ہم آئن لائن ایجوکیشن کے ذریعے رٹا سسٹم ختم کرکے بچوں میں وہ صلاحیتیں پروان چڑھا سکتے ہیں جن کی انہیں آنے والے وقت میں ضرورت ہوگی۔ میں اکثر یہ کہتا ہوں کہ ہم بچوں کو محض آج کے لیے تعلیم نہیں دے رہے بلکہ ہمارا مقصدآانے والے وقتوں کے لیے بچوں کو تیار کرنا ہے تو ہمارا تعلیمی نظام بھی پھر اگلے بیس برس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہونا چاہیے۔ اگر آج کا بچہ 15 سال بعد عملی زندگی میں ہوگا اس وقت بچے کو کس قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس کو ہم ’’فیوچرسٹک ایجوکیشن‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ ہم اسی نقطۂ نظر کے تحت کام کر رہے ہیں۔ یہاں میں آپ کو بتائوں کہ آن لائن ایجوکیشن کے اجرا کے لیے تقریباً چار‘ پانچ سال ہو چکے ہیں۔ جماعت ششم سے ہشتم تک ہم مکمل طور پر آن لائن کر چکے ہیں۔ پرائمری اور پری پرائمری کے لیے ہم نے ایسا نصاب تشکیل دیا جس سے ان میں کتاب سے محبت و انسیت قائم رہے۔ ابتدائی برسوں میں بچوں کو بنیادی تعلیم دینے کی کوشش کی گئی ہے لیکن بچوں کے جسمانی و ذہنی صحت کے پیش نظر آن لائن ایجوکیشن کا سلسلہ ہائر گریڈز تک ہی محدود رکھا گیا ہے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ کوڈ۔19 کے باعث لوگوں نے آن لائن پروگرام کو سراہا جس پر ہم گزشتہ چار‘ پانچ برسوں سے کام کر رہے ہیں۔ لاک ڈائون میں ہم نے وڈیوز بنائیں جو واٹس ایپ اور یو ٹیوب کے ذریعے بچوں تک پہنچتی رہیں۔ اس کے لیے طلبہ کو ہمارے تجربہ کار ٹیچرز کا ساتھ حاصل رہا جنہوں نے بڑی محنت اور جانفشانی سے تعلیم کے اس سلسلے کو رکنے نہ دیا۔ خوش آئند پہلو یہ ہے کہ کثیر تعداد میں بچے ان وڈیوز سے مستفید ہوئے اس کے علاوہ وہ تمام اسکول جہاں ہمارا مرتب کردہ نصاب پڑھایا جاتا ہے‘ جنہیں ہم ’’فیملی اسکولز‘‘ کہتے ہیں‘ وہاں بھی باقاعدگی سے لیکچر وڈیوز کا سلسلہ چلتا رہا۔ اسکول کھلنے کے بعد ہم نے ’’فیملی اسکولز‘‘ کو ’’اسمارٹ سلیبس‘‘ مہیا کیا۔ یہ اسمارٹ سلیبس باقاعدہ ریسرچ کے بعد تشکیل دیا گیا ہے۔ طویل مدت اسکول بند ہونے کے بعد پرنسپل اور اساتذہ کے لیے یہ چیلنج تھا کہ کس طرح محدود مدت میں نصاب مکمل کروایا جائے۔ اسی کے پیش نظر ہم نے اسمارٹ سلیبس مرتب کیا۔ اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ اسباق کو کم کر دیا جائے بلکہ جو صلاحیتیں درجہ بہ درجہ بچوں کو چاہیے یہ اسمارٹ سلیبس اسی نقطۂ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے تیار کیا۔
جسارت میگزین: ہوم اسکولنگ کے باعث بچوں میں کیا اعتماد کی کمی یا سماجی مسائل کا سامنا رہتا ہے؟
فہیم نقوی: ہوم اسکولنگ بہرحال ایک چیلنجنگ کام ہے۔ اگر آپ واقعی بچے کی روٹین متعین کرکے ہوم اسکولنگ کر سکتے ہیں تو ہی اس کی جانب جانا چاہیے اس کے لیے گھر کے ایک حصے کو بطور اسکول مختص کرنا ہوگا جہاںوہ متعین کردہ وقت پر باقاعدہ آئیں اور پڑھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسکولنگ کا متبادل کچھ بھی نہیں ہو سکتا چاہے ہوم اسکولنگ ہی کیوں نہ ہو۔ بچوں کا بچوں سے میل جول‘ مسائل کا ازخود حل کرنا‘ فیصلہ سازی کرنا‘ ہوم اسکولنگ میں ممکن نہیں لیکن کچھ لوگوں کی مجبوری ہوتی ہے کہ ہوم اسکولنگ کی جائے اس کے لیے باقاعدہ ٹائم ٹیبل مرتب کرنا ہوگا۔ ان کو اپنے ساتھ باہر لے کرجائیں‘ خود مختار بنائیں اس کے بغیر پُر اعتماد شخصیت ناممکن ہے‘ بات کرنے کی آزادی دیں‘ فیصلے میں ان کی رائے کو اہمیت دیں۔ آپ کا بچہ تو ویسے بھی ٹیکنالوجی کی وجہ سے سماجی طور پر متحرک نہیں رہا‘ یہ مسئلہ تو اب عمومی طور پر ہے اور رہے گا۔
جسارت میگزین: کیریئر کا تعین کتنا اہم ہے؟ چنائو کے لیے کون سے عوامل کو مدنظر رکھنا چاہیے؟
فہیم نقوی: پیش گوئی کے مطابق آنے والا دور آئی ٹی کا ہوگا۔ تعلیم کے ساتھ اس کی مہارتیں بھی سیکھیں‘ کوڈنگ یعنی مشین لینگویج پر دھیان دیں۔ آنے والے دور میں مشینوں سے انسانوں کے متبادل کے طور پر کام کروایا جائے گا تو ہمیں اس کے مطابق اپنے کیریئر پر توجہ دینی چاہیے۔ کوشش کریں جو بھی کام کریں چاہے چھوٹا ہو مگر اپنا کریں اور نئے آئیڈیا‘ جدتوں کے ساتھ اس کو آگے بڑھائیں۔ فری لانسنگ آج کل دنیا بھر میں عام ہو رہی ہے۔ نوجوانوں کو میں یہی کہوں گا کہ کیریئر کا چنائو بہت اہم ہے‘ کیریئر میں اگر آپ اطمینان یا خوشی محسوس نہیں کر رہے تو یہ آپ کے غلط فیصلے کی نشاندہی ہے۔
جسارت میگزین: اسکول کے چنائو میں کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟
فہیم نقوی: پہلے 12 سال والدین کو بہت زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ یہ رویہ غلط ہے کہ ہم اسکول کے انتخاب میں سنجیدگی کے بجائے جب بچہ کالج یا یونیورسٹی میں پہنچتا ہے‘ اس موقع پر فکر مند دکھائی دیتے ہیں۔ مگر اس وقت بہترین تعلیمی ادارہ کسی حد تک بے فائدہ ہو جاتا ہے کیوں کہ تربیت کے اہم سال تو ابتدائی 12 سال ہی گردانے جاتے ہیں۔ والدین کو ان برسوں میں بچے کے بہترین تعلیمی ادارے سے منسلک کرنے پر توجہ دینی ہوگی۔ تعلیم کی بنیاد ہی درست نہ ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ بڑے ہو کر تعلیم کے معیارات کو سمجھ سکے گا۔ اسکول کے چنائو میں چند باتوں کو ضرور مد نظر رکھیں۔ پہلی بات ایسے اسکول کا انتخاب کریں جہاں اساتذہ ٹریننگ کلچر ہو‘ اسکول والدین کی کائونسلنگ میں کتنا سنجیدہ ہے کیوں کہ تعلیم و تربیت تو اسکول اور گھر باہم مل کر کرتے ہیں۔ نصاب بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے‘ دیکھیے آیا نصاب خاص طریقے سے مرتب کیا گیا ہے‘ تخلیقی صلاحیتیں بڑھانے پر کتنی توجہ مرکوز کی گئی ہے‘ زندگی گزارنے کی مہارتیں جو کہ پورا قرآن ہی ہے‘ اس کے مطابق نصاب تشکیل دیا گیا ہے؟ سب کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کوئی فیصلہ لیجیے۔
جسارت میگزین: وقت دینے کا بہت بہت شکریہ۔