۔’’سود‘‘ کے موضوع پر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی نصف صدی قبل لکھی گئی کتاب جو کہ آج کے حالات سے انتہائی موزونیت رکھتی ہے ‘اپنے قارئین کے لیے جسارت سنڈے میگزین قسط وار شائع کررہا ہے۔(ادارہ)۔
تمہید
عام طور پر سود کے متعلق اسلامی قانون کے احکام کو سمجھنے میں جو غلطی واقع ہو رہی ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں وہ معاشی نظام جس کو اسلام نے قائم کیا تھا درہم برہم ہو چکا ہے‘ اس کے اصول و نظریات بھی دلوں سے محو ہو گئے ہیں اور ہمارے گرد و پیش کی دنیا پر ایک ایسا نظام پوری طرح حاوی ہو گیا ہے جس کی بنیاد پر ’’سرمایہ داری‘‘ کے اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظمِ معیشت نہ صرف عملاً ہم پر محیط ہے بلکہ ہمارے دل و دماغ پر بھی اس کے اصول و نظریات چھا گئے ہیں‘ اس لیے جب کسی معاشی مسئلے پر ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمارا نقطۂ نظر وہی ہوتا ہے جو سرمایہ داری کا نقطۂ نظر ہے‘ ہماری بحث و تحقیق کی ابتدا ہی اس طرح ہوتی ہے کہ ہم پہلے معاشیات کے سرمایہ دارانہ نظریات اور اصولوں کو مان لیتے ہیں اور اس کے بعد کسی معاشی طریقہ کے جواز و عدم جواز پر گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن اگر تھوڑی سمجھ سے کام لیا جائے تو یہ بات مخفی نہیں رہ سکتی کہ تحقیق کا یہ طریقہ اصلاً غلط ہے۔ اسلام کا نظم معیشت اپنے نظریہ اور اپنے اصول میں سرمایہ داری کے نظمِ معیشت سے بالکل مختلف ہے۔ دونوں کے مقاصد الگ الگ ہیں‘ دونوں کی روح جدا جدا ہے‘ دونوں کے مناہج علیحدہ علیحدہ ہیں۔ اب اگر کسی مسئلے کے متعلق سرمایہ داری کے اصول و نظریات کو تسلیم کر کے اسلام کے معاشی احکام میں کسی حکم پر نظر ڈالی جائے گی تو لامحالہ وہ بالکل ہی غلط نظر آئے گا یا اس میں ایسی ترمیم کر دی جائے گی جس سے وہ اسلامی قانون کے اصول سے ہٹ کر بالکل سرمایہ داری کے قالب میں ڈھل جائے گیا اور اس میں نہ اسلامی روح باقی رہے گی‘ نہ اسلامی قانون کے اغراض و مقاصد اس سے حاصل ہو سکیں گے اور نہ وہ اپنے جوہر میں حقیقتاً ایک اسلامی حکم ہوگا۔
یہی بنیادی غلطی ہے جس کی وجہ سے سود کے معاملے میں ہمارے جدید معاشی مفکرین اسلامی حکام کو سمجھنے اور ان کے اغراض و مصالح کا ادراک کرنے میں ٹھوکروں پر ٹھوکریں کھاتے چلے جارہے ہیں۔ وہ سرے سے یہی نہیں جانتے کہ اسلام کا معاشی نظام کن اصولوں پر قائم کیا گیا ہے۔ اس کے مقاصد کیا ہیں‘ اس کی روح کیا ہے‘ سود کو اس نے کیوں حرام قرار دیا ہے‘ سودی لین دین کی مختلف اشکال میں علتِ حرمت کیا شے ہے اور جن معاملات میں یہ علّت پائی جاتی ہے ان کو اسلامی نظمِ معیشت میں کھپا دینے سے کیا قباحت واقع ہوتی ہے۔ ان تمام اساسی امور سے بے گانہ ہو کر جب وہ کلیتاً سرمایہ داری کے نقطۂ نظر سے سود کے متعلق اسلامی قانون پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ان کو درحقیقت سود کی حرمت کے لیے کوئی دلیل ہی ہاتھ نہیں آتی کیوں کہ سود تو سرمایہ داری کی جان اور اس کی روحِ رواں ہے۔ اس کے بغیر سرمایہ داری کا کاروبار چل ہی نہیں سکتا اور کسی ایسے نظامِ معاشی کا سود سے خالی ہونا غیر ممکن ہے جس کی عمارت سرمایہ داری کے اصولوں پر قائم ہو۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ علمی اور عملی حیثیت سے یہ حضرات اسلام سے منحرف ہو چکنے کے باوجود اعتقادی حیثیت سے بدستورن اس کی پیرو ہیں اور قصداً اس کے دائرے سے نکلنا نہیں چاہتے‘ اسی لیے عقیدہ کی بندش تو ان کو مجبور کرتی ہے کہ سود کی حرمت سے انکار نہ کریں گے مگر ان کا علم اور عمل ان کو مجبور کرتا ہے کہ سود کے متعلق اسلامی احکام کی بندشوں کو توڑ دیں۔ دل ودماغ کی یہ کشمکش ایک مدت سے جاری ہے اور اب اس میں مصالحت کی آسان صورت یہ نکالی گئی ہے کہ اسلامی احکام کی تعبیر اس طرح کی جائے کہ سود ایک اسم بے مسمیٰ ہونے کی حیثیت سے تو بدستور حرام کا حرام رہے‘ مگر نظامِ سرمایہ داری میں اس کے جتنے مسمی پائے جاتے ہیں وہ قریب قریب سب حلال ہو جائیں۔ زیادہ سے زیادہ جس چیز کے خلاف ان کو سرمایہ داری کے اصولوں سے کوئی دلیل ہاتھ آتی ہے وہ مہاجنی سود (یوژری) ہے لیکن اس کو بھی کلیتاً مسترد کر دینے کی کوئی وجہ وہ نہیں پاتے۔ ان کے نزدیک ضرورت صرف اس کی تحدید کی ہے اور اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ سود کی فی صدی شرح ناقابلِ ادا نہ ہو اور کسی حال میں سود در سود (اضعافاً فامضاعفہً) تک نوبت نہ پہنچے۔
یہ ایک دھوکا ہے جس میں یہ حضرات بغیر سمجھے بوجھے مبتلا ہو گئے ہیں۔ بیک وقت دو مخالف سمتوں میں سفر کرنے والی کشتیوں میں سوار ہونا کسی مردِ عاقل کا کام نہیں ہو سکتا۔ اگر بے خبری کی وجہ سے اس نے ایسا کیا بھی ہو تو ہوش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ جونہی اس کو اپنی غلطی پر تنبہ ہو‘ وہ اپنے لیے دونوں کشتیوں میں سے ایک کو پسند کرکے دوسری کشتی سے فوراً پائوں کھینچ لے۔ سود کے حلال و حرام ہونے کی بحث اور اس کے حدود کی تعین تو بعد کی چیز ہے‘ سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ آپ اسلامی نظم معیشت اور سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کے اصولی اور روحی فرق کو اچھی طرح سمجھ لیں اور قرآن و حدیث کے احکام پر غور کرکے ان اصول و قواعد سے با خبر ہو جائیں جن پر اسلام نے سرمایہ داری اور اشتراکیت کے درمیان ایک متوسط نظم معیشت قائم کیا ہے۔ اس تحقیق سے آپ پر خود بخود منکشف ہو جائے گا کہ اسلام جس ڈھنگ پر انسان کے معاشی معاملات کی تنظیم کرتا ہے اس میں صرف یہی نہیں کہ سود کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے‘ بلکہ وہ سرے سے اس نظریہ اور اس ذہنیت اور ان معاشی حالات ہی کا استحصال کر دیتا ہے جن کی وجہ سے سودی معاملات کی مختلف صورتیں وجود میں آتی ہیں۔ اس کے بعد آپ کے لیے ناگزیر ہو گا کہ دو راہوں میں سے کسی ایک راہ کا انتخاب کرلیں۔ ایک راہ یہ ہے کہ آپ اسلام کے اصولِ معیشت کو رد کرکے سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کے اصولوں پر ایمان لے آئیں۔ اس صورت میں آپ کو اسلام کے اصول اور احکام میں ترمیم کرنے کی زحمت ہی نہ اٹھانی پڑے گی بلکہ آپ کے لیے سیدھا اور صاف راستہ یہ ہوگا کہ اس کے اتباع سے انکار کر دیں۔ دوسری راہ یہ ہے کہ آپ اسلام کے اصولِ معاشی کو صحیح سمجھیں اور سود کو اس کی تمام صورتوں کے ساتھ علیٰ وجہ البصیرت حرام جانیں۔ مگر سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت میں گھر جانے کے باعث اپنے آپ کو اس حرام چیز سے محفوظ رکھنے میں قاصر پائیں۔ اس صورت میں آپ کو سود کھانا اور کھلانا چاہیں تو کھائیے اور کھلایئے کیوں کہ ہر گناہ کرنے کا آپ کو اختیار حاصل ہے۔ مگر ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ جرأت آپ کبھی نہیں کر سکتے کہ سود کو حلال کرکے کھائیں یا کھلائیں اور اپنے ضمیر پر سے اکل حرام کے بار کو ہلکا کرنے کے لیے اس چیز کو پاک کرنے کی کوشش کریں جس کو خدا اور اس کے رسولؐ نے ناپاک قرر دیا ہے۔ ایک شخص حق رکھتا ہے کہ علانیہ اسلام کی قانون کو رد کرکے کسی دوسرے قانون کی پیروی اختیار کر لے اور بدرجۂ آخر یہ حق بھی اس کو حاصل ہے کہ اسلامی قانون کے اقتدار کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ماتحت ایک گناہ گار بندہ بن کر رہنا پسند کرے یا نامساعد حالات میں مجبوراً ایسا بن جائے۔ لیکن کسی حال میں یہ حق تو کسی کو بھی نہیں پہنچتا کہ اسلامی قانون کو جس غیر اسلامی قانون سے چاہے بدل دے اور پھر دعویٰ کرے کہ بدلا ہوا قانون ہی دراصل اسلام کا قانون ہے۔
اس تمہید کے بعد ہم ان مباحث کو ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔
اسلام‘ سرِمایہ داری اور اشتراکیت کا اصولی فرق
آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو مختصراً یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں جو معاشی نظام اب تک پیدا ہوئے ہیں ان کے درمیان اصولی فرق کیا ہے اور اس فرق سے مالی و معاشی معاملات کی نوعیتوں میں کیا تغیرات واقع ہوتے ہیں۔
جذوی اختلافات سے قطع نظر کرکے ہم دنیا کے معاشی نظاموں کو تین بڑی قسموں پر تقسیم کر سکتے ہیں ایک وہ جو سرمایہ داری نظام کہلاتا ہے۔ دوسرا وہ جسے اشتراکیت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور تیسرا وہ جسے اسلام نے پیش کیا۔ اس بات میں ہم ان تینوں کے اصول کا خلاصہ بیان کریں گے۔
نظامِ سرمایہ داری
نظامِ سرمایہ داری کی بنیاد جس نظریہ پر قائم ہے وہ صاف اور سادہ الفاظ میں یہ ہے کہ ہر شخص اپنے کمائے ہوئے مال کا تنہا مالک ہے‘ اس کی کمائی میں کسی کا کوئی حق نہیں‘ اس کو پورا اختیار ہے کہ اپنے مال میں جس طرح چاہے تصرف کرے‘ جس قدر وسائلِ ثروت اس کے قابو میں آئیں ان کو روک رکھے اور اپنی ذات کے لیے کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر ان کو صرف کرنے سے انکار کردے۔ یہ نظریہ اُس خود غرضی سے شروع ہوتا ہے جو ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے اور آخر کار اس انتہائی خود غرضی تک پہنچ جاتا ہے جو انسان کی تمام اُن صفات کو دبا دیتی ہے جن کا وجود انسانی جماعت کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے۔ اگر اخلاقی نقطۂ نظر کو چھوڑ کر خالص معاشی نظقۂ نظر سے بھی دیکھا جائے تو اس نظریہ کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تقسیم ثروت کا توازن بگڑ جائے‘ وسائل ثروت رفتہ رفتہ سمٹ کر ایک زیادہ خوش قسمت یا زیادہ ہوشیار طبقہ کے پاس جمع ہو جائیں اور سوسائٹی عملاً دو طبقوں میں تقسیم ہو جائے ایک مال دار دوسرا نادار۔ مال دارطبقہ تمام وسائلِ ثروت پر قابض و متصرف ہو کر ان کو محض اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرے اور اپنی دولت کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش میں سوسائٹی کے مجموعی مفاد کو جس طرح چاہے قراب کر دے۔ رہا نادار طبقہ تو اس کے لیے وسائلِ ثروت میں سے حصہ پانے کا کوئی موقع نہ ہو الاّ یہ کہ وہ سرمایہ دار کے مفاد کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرکے زندگی بسر کرنے کا کم سے کم سامان حاصل کرے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کا نظمِ معیشت ایک طرف ساہوکار‘ کارخانہ دار اور زمیندار پیدا کرے گا اور دوسری طرف مزدور‘ کسان اور قرض دار ایسے نظام کی عین فطرت اس کی متقاضی ہے کہ سوسائٹی میں ہمدردی اور امدادِ باہمی کی اسپرٹ مفقود ہو۔ ہر شخص بالکلیہ اپنے ذاتی وسائل سے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو‘ کوئی کسی کا یار و مددگار نہ ہو۔ محتاج کے لیے معیشت کا دائرہ تنگ ہو جائے۔ سوسائٹی کا ہر فرد بقائے حیات کے لیے دوسرے افراد کے مقابلے میں معاندانہ جدوجہد کرے۔ زیادہ سے زیادہ وسائل ثروت پرقابو پانے کی کوشش کرے۔ اپنے مفاد کے لیے ان کو روک رکھے اور صرف ازدیاد ثروت کے لیے انہیں استعمال کرے۔ پھر جو لوگ اس جدوجہد میں ناکام ہوں یا اس میں حصہ لینے کی قوت نہ رکھتے ہوں ان کے لیے دنیا میں کوئی سہارا نہ ہو۔ وہ بھیک بھی مانگیں تو ان کو باآسانی نہ مل سکے۔ کسی دل میں ان کے لیے رحم نہ ہو‘ کوئی ہاتھ ان کی مدد کے لیے نہ بڑھے۔ یا تو وہ خودکشی کرکے زندگی کے عذاب سے نجات حاصل کریں یا پھر جرائم اور بے حیائی کے ذلیل طریقوں سے پیٹ پالنے پر مجبور ہوں۔
سرمایہ داری کے اس نظام میں ناگزیر ہے کہ لوگوں کا میلان روپیہ جمع کرنے کی طرف ہو اور وہ اس کو صرف نفع بخش اغراض کے لیے استعمال کرنے کی سعی کریں۔ مشترک سرمایہ کی کمپنیاں قائم کی جائیں‘ بینک کھولے جائیں‘ پراویڈنٹ فنڈ قائم ہوں‘ انشورنس کمپنیاں بنائی جائیں‘ امداد باہمی کی جمعیتیں مرتب کی جائیں اور ان تمام مختلف معاشی تدبیروں میں ایک ہی روح کام کرے یعنی روپے سے مزید روپیہ پیدا کرنا‘ خواہ وہ تجارتی لین دین کے ذریعے سے ہو یا سود کے ذریعے سے۔ سرمایہ داری کے نقطۂ نظر سے سود اور تجارتی لین دین کے درمیان کوئی جوہری فرق نہیں ہے اس لیے نظام سرمایہ داری میں یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نہ صرف خلط ملط ہو جاتے ہیں‘ بلکہ کاروبار کی ساخت میں ان کی حیثیت تانے بانے کی سی ہوتی ہے۔ ان کے ہاں تجارت کے لیے سود در سود کے لیے تجارت لازم و ملزوم ہیں‘ کسی کو دوسرے کے بغیر فروغ نہیں ہو سکتا۔ سود نہ ہو تو سرمایہ داری کا تار و پود بکھر جائے۔
(جاری ہے)