جنت کا مسافر

557

ابھی ہم مرشد سید منور حسن کی رحلت کے غم سے ہی چُور تھے کہ ہردلعزیز عبدالغفار عزیز کے انتقال کی خبر نے نڈھال کردیا ہے۔ منصورہ جب بھی جانا ہوتا، منصورہ کی مسجد میں اُن کا ہنستا مسکراتا چہرہ سامنے ہوتا۔ دونوں بازوئوں کو کھول کر سینے سے لگاتے، اکثر مضبوطی سے ہاتھ پکڑ کر باتیں کرتے ہوئے اپنے دفتر تک لے جاتے تھے۔ وہ ہر شخص سے مسکراتے ہوئے ملتے۔ ان کے دل میں امت کا بڑا درد تھا۔کراچی اور اہلِ کراچی کے لیے بڑے فکرمند ہوتے تھے۔ ان کی زندگی ہم سب کے لیے ایک آئیڈیل زندگی تھی۔
قطر میں جب وہ زیر تعلیم تھے تو قاضی صاحب کی اُن پر نظر پڑی۔ مولانا خلیل حامدی کی حادثاتی موت کے بعد جماعت اسلامی میں بیرونی دنیا سے تعلقات کا ایک خلاء پیدا ہوگیا تھا۔ عبدالغفار عزیزکی جیسے ہی تعلیم مکمل ہوئی، عبدالغفار عزیز کے والد حکیم عبدالرحمان ان کا ہاتھ پکڑ کر قاضی صاحب کے پاس لے گئے اور انھیں ان کے حوالے کردیا۔ عبدالغفار عزیز نے 26 سال یکسوئی کے ساتھ زندگی کا ایک ایک لمحہ رب کی خوشنودی کے لیے تحریکِ اسلامی کے لیے وقف کیا ہوا تھا۔
عبدالغفار عزیز علامہ یوسف القرضاوی کے شاگردِ خاص تھے، اور قطر میں قائم شدہ شیخ القرضاوی کے مدرسے سے فارغ التحصیل تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے مختصر ترین عرصے میں وفاق المدارس سے درسِ نظامی مکمل کیا۔ ان کا تعلق انتہائی اعلیٰ دینی خاندان سے تھا۔ وہ عالم، ماہرِ عربی و لسانیات اور اردو ادب تھے۔ انھیں عربی پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ پاکستان سے زیادہ ان کی مقبولیت عالمِ عرب میں تھی، اور اکثر بین الاقوامی کانفرنسوں میں لوگ ان کا تعلق عالمِ عرب سے سمجھتے تھے۔ وہ اسلامی تحریکوں کا عظیم سرمایہ تھے، اور عالمِ اسلام کو جوڑنے اور متحد کرنے میں ان کی گراں قدر خدمات ہیں۔ انھوں نے اسلامی تحریکوں کے درمیان پُل کا کام کیا۔
جماعت اسلامی کے اجتماعِ عام میں بین الاقوامی سیشن میں ان کی تقریر اور کمپیئرنگ اجتماع کی جان ہوتی تھی۔ جب یہ کسی بھی اسلامی تحریک کے قائد کو ڈائس پر بلاتے یا انھیں رخصت کرتے تو ایک سماں بن جاتا، اوردل ان پر فدا ہوجاتا۔ ان کی کمپیئرنگ میں خوبصورت الفاظ کا چنائو اور دلنشین لہجہ ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ جب بولتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ ان کے منہ سے پھول جھڑرہے ہیں۔ وہ گوہرِ نایاب اور امتِ مسلمہ کا قیمتی سرمایہ تھے۔ وہ کم عمری میں اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے ہیں۔ اللہ کے فرشتے جنت میں ان کا شاندار استقبال کررہے ہوں گے۔ آج ہم سب کے دل غمگین اور دکھ سے لبریز ہیں۔ عبدالغفار عزیز ایک نفیس اور صاحبِ علم شخصیت کے مالک تھے، انھوں نے قابلِ رشک زندگی گزاری۔ زندگی کی آخری سانسوں تک اللہ اور اس کے رسول ؐسے وفاداری کا عہد نبھایا۔ اخلاص اور محبت کی عملی تصویر تھے۔ اگر وہ چاہتے تو اپنی قابلیت کی بنیاد پر دنیا کے کسی بھی کونے میں جاکر اپنا بہترین کیریئر بنا لیتے، لیکن انھوں نے اپنا کیریئر جماعت اسلامی کو بنایا۔ ان کے بعد دور دور تک ان کے پائے کی کوئی شخصیت موجود نہیں ہے۔ وہ اسلامی تحریکوں کا عظیم سرمایہ تھے اورآج ان کا کوئی نعم البدل بھی نہیں ہے۔ ان کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔
کشمیر، فلسطین، افغانستان، عراق، شام، مصر ان کا خاص موضوع تھے۔ تحریک حماس اور اخوان المسلمون سے ان کے گہرے رابطے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ امت کے درد کو محسوس کیا اور امت کو جوڑنے کا کام کیا۔ ان کے چہرے پر سجی مسکراہٹ اور چمکتی آنکھوں کی روشنی انسان کو اپنا گرویدہ بنا لیتی، اور ہر شخص کو اپنی جانب متوجہ کرتی تھی۔ عبدالغفار عزیز اُن لوگوں میں شامل ہیں جن کا متبادل شاید کبھی نہیں مل سکتا۔ عبدالغفار عزیز کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا تھے، لیکن شدید تکلیف کے باوجود ان کا چہرہ ہمیشہ مسکراتا ہی رہتا تھا اور وہ ہر وقت اپنے رب کا شکر ادا کرتے رہتے تھے۔ انتقال سے کچھ دیر پہلے جب امیر جماعت ان سے ملاقات کے لیے آئے اور آنکھ کھولنے پر امیر جماعت نے ان کی خیریت دریافت کی، تو عبدالغفار عزیز کے لب سے جو الفاظ نکلے وہ ’’الحمدللہ‘‘ تھے، اور یہی ان کے آخری الفاظ تھے۔
اس سال ماہ جنوری سے اب تک جماعت اسلامی کے بڑے قیمتی اور باصلاحیت لوگ ہم سے جدا ہوگئے ہیں۔ بے شک ہر شخص کو اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے پَل پَل کا حساب دینا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ عبدالغفار عزیز، اللہ کے اُن نیک بندوں میں شامل ہیں جن کے استقبال کے لیے خود فرشتے جنت میں موجود ہوں گے، اور ہم آج گواہی دیتے ہیں کہ عبدالغفار عزیز اللہ کا وہ بندہ تھا جس نے آخری سانسوں تک آگے بڑھ کر اقامتِ دین اور امت کو جوڑنے کا کام کیا اوردنیا بھر کے مسلمانوں کے غم اور درد میں وہ ان کا برابر کا شریک رہا، اور وقت کی شیطانی قوتوں سے برسرِ پیکار رہا۔ اس نے اپنی جدوجہد کے ذریعے امت میں ایک نئی حرارت اور زندگی پیدا کی۔
آج دنیا بھر کی اسلامی تحریکیں ان کے غم میں ڈوبی ہوئی ہیں اور دور تک کوئی نعم البدل نظر نہیں آرہا ہے۔ عالم اسلام آج اپنے بہت بڑے ہمدرد اور غم خوار سے محروم ہوگیا ہے۔ اللہ کی رحمت کے سائے میں جنت میں ان شاء اللہ اُن سے ضرور ملاقات ہوگی اور اُن کا ہنستا مسکراتا چہرہ ہم سب کا استقبال کرے گا اور ان کی کھلی بانہیں ایک بار پھرہمیں پھر اپنے سینے سے لگائیںگی۔ عبدالغفار عزیز نے اپنا مقصدِ زندگی پا لیا اور وہ جنت کی جانب دوڑ گئے۔ ’’اے نفس مطمئنہ دوڑ اپنے رب کی محبتوںکی چھائوں میں، ہنسی خوشی راضی ہنستے مسکراتے شامل ہوجا میرے بندوں میں، داخل ہوجا جنتوں میں‘‘۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے اور شہیدوں کے ساتھ ان کا گھر کرے۔
nn

حصہ