اسلام دین ِ فطرت اور سنتِ الٰہی کا نام ہے جس کے معنی سلامتی، امن اور خدا کے آگے سرِ نیاز خم کرنا ہے۔ اسلام کے وسیع مفہوم میں داخلی اور خارجی امن و سلامتی حاصل کرنا ہے۔ کائنات کی تخلیق کا مقصد بھی یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی نمو اور تحفظ کا سامان مہیا کیا اور قانونِ فطرت کے موافق ڈھل جانا ہی کمالِ اخلاق ہے، جس میں اپنی خواہشات کو قطعاً دخل نہ ہو۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِطیبہ کا ہر لمحہ رضائے الٰہی کے موافق بسر ہوا۔ آپؐ کی اس عادتِ صحیحہ کا ذکر قرآن میں کئی مقامات پر آیا کہ وہ اپنے نفس کی خواہش کے موافق نہیں بولتے تھے۔ سورۃ آل عمران میں ارشاد ہوا ’’اور اے پیغمبر ان لوگوں سے کہہ دو اگر تم واقعی اللہ سے محبت کرنے والے ہو تو چاہیے کہ میری پیروی کرو، اگر تم نے ایسا کیا تو صرف یہی نہیں ہوگا کہ تم اللہ سے محبت کرنے والے ہوجائو گے بلکہ اللہ خود تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا، اور اللہ بخشنے والا، رحمت والا ہے۔‘‘
دنیا میں سیکڑوں قومیں آئیں اور گزر گئیں، بہت کم لوگوں کو بقائے دوام اور استقلال نصیب ہوا۔ اس دنیا میں کامیابی کا اصول اور قانون یہی بیان کیا گیا کہ ’’جو بندے صالح عمل کرتے ہیں وہ اس زمین کے وارث ہوتے ہیں، اور اس مطالبۂ عمل کے ساتھ انسانی زندگی پر اس کی استطاعت سے زیادہ ذمے داری نہیں ڈالی جاتی۔‘‘ سورۃ مومنون میں ارشاد ہوا ’’ہم کسی جان پر ذمے داری نہیں ڈالتے مگر اتنی ہی جتنی اس میں طاقت ہے، ہمارے پاس نوشتہ ہے جو ٹھیک ٹھیک حکم لگا دیتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ کسی جان کے ساتھ ناانصافی ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوںکے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ آپؐ کا وجود درحقیقت تمام نوعِ انسانی کے لیے رحمت کا ظہور ثابت ہوا۔ آپؐ قرآن کی مکمل تفسیر اور سراپا عمل کا نمونہ تھے، اس لیے مسلمانوں کو اسی اسوۂ حسنہ کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا۔ آپؐ نے فرمایا ’’میں اس لیے آیا ہوں تاکہ اخلاق کی تکمیل کروں‘‘۔ آپؐ کے اخلاق کو سورۃ القلم میں اس طرح سراہا گیا ’’بے شک آپؐ اخلاقِ حسنہ کے اعلیٰ ترین پیمانے پر ہیں‘‘۔ سورۃ البقرہ میں فرمایا ’’رسولؐ وہ باتیں بتاتے ہیں جن کی اس سے پہلے خبر نہ تھی۔ قرآن مجید پڑھ کر سناتے ہیں، اس کی تعلیم دیتے ہیں اور حکمت سمجھاتے ہیں۔‘‘
حضرت عائشہ صدیقہؓ نے آپؐ کے اخلاقِ فاضلہ کی گواہی اس طرح دی ’’قرآن رسول اللہ کا اخلاق ہے۔‘‘ آپؐ نے نہایت جامعیت سے تمام اصول بیان فرمائے، اس لیے کہ آپؐ جوامع الکلام ہیں۔
ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ دنیا کا تمام سامان اللہ ہی کا عطا کردہ ہے، اس لیے بندگی کا تقاضا ہے کہ اسے اُن حدود کے اندر استعمال کیا جائے جو اصل مالک نے مقرر کی ہیں۔ قرآن و سنت نے ان حدود کو مقرر کردیا ہے، ان کی تفصیلی ضابطہ بندی ہر دور کی اسلامی ریاست کا کام ہے۔ شریعتِ اسلامی قرآن و سنت کے احکامات اور قوانین کا نام ہے، اس لیے اسلامی ریاست میں قوانین اور آئین کی حد بندی انہی خطوط پر ہونی چاہیے جو اسلام نے متعین کی ہیں۔
اسلام کا نظام اخلاق مکمل طور پر انسانی نفس کی تعلیم و تربیت کی تکمیل کا نام ہے، اور انسانی نفس احساسات اور ذات و صفات سے مزین ہے۔ آپؐ نے زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہوئے نفسِ انسانی کا تزکیہ کیا۔ قرآن و حکمت کی تعلیم کے ذریعے مکارمِ اخلاق کی فضیلت پر زور دیا۔ انسانیت کی ترقی و اصلاح اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے حیاتِ انسانی کے تمام شعبوں کو ایک وحدت میں پرو دیا، اور کُل عالمِ انسانیت کو ایک جسم اور نفسِ واحد کا درجہ دیا۔ اس لیے اسلام میں زندگی کا ہر کام عبادت کا درجہ رکھتا ہے اگر وہ خدا اور رسولؐ کی اطاعت کے دائرے میں ہو۔ مسلمان کے لیے زمین کا ہر حصہ مسجد ہے۔ اسلام میں ہر ادارے اور ہر تصور کا تعلق عمل سے ہے۔ آج دنیا میں انتشار، لاقانونیت اور بے ضابطگی بے عملی کی بدولت ہے۔ مسلمانوں میں زوال کا ایک سبب یہی ہے۔ اسلام نے تمام دنیا کے مسلمانوں کو ایک جسم قرار دیا۔ اس نے اخلاق کا وہ بلند تصور پیش کیا جس میں عمل کی تحریک بنیاد بنی۔ ہر جزو اور ہر فرد اور ہر حصۂ ارض کی ترقی، اصلاح اور فلاح لازمۂ زندگی ہوگئی۔ اسلام نے خدا، کائنات اور انسان کا رشتہ مضبوط کیا۔ مکارمِ اخلاق کا یہ بلند تصور عقیدہ، عبادت اور شب و روز کے ہر فعل میں موجود ہے۔ اسلام میں عبادت اور دنیا داری کی تفصیل، معاشرے کی تنظیم، اور جامع اصول رسول اکرمؐ کی حیاتِ طیبہ سے معلوم ہوئے، اسی لیے اسوۂ حسنہ پر چلنے کو عبادت قرار دیا گیا۔
اسلام کفر کے مقابلے میں مسلمانوں میں ’’صبر‘‘ اور استقامت کی قوت پیدا کرتا ہے۔ قرآن میں بار بار مومنوں کو جلد بازی، طمع، نامناسب جوش سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ حکمِ ربانی ہے ’’اے ایمان والو! جب تمہارا کسی گروہ سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ توقع ہے تمہیں کامیابی نصیب ہوگی۔ اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں، ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو۔ یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘ (سورۂ انفال، آیت 46)۔ مسلمانوں کو ایسے مواقع پر بھی جذبات اور خواہشات کو قابو میں رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جب خطرات اور مسلمانوں کو مشکلات ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہوں۔ ایسے اشتعال انگیز مواقع پر بھی غیظ و غضب کا ہیجان پیدا کرنے سے منع کیا گیا۔ حواس پر قابو پانے اور ٹھنڈے دل سے جچی تلی قوتِ فیصلہ سے کام لینے کا حکم دیا گیا۔ خواہ مصائب کتنے ہی ہوں، اضطراب سے حواس پراگندہ نہ ہونے پائیں۔ حصولِ شوق اور حصولِ مقصد سے بے قرار ہوکر ارادوں کو شتاب کاری سے مغلوب نہ ہونے دیا جائے۔ اپنے نفس کو دنیاوی فوائد اور لذتوں سے دور ہی رکھنا بہتر ہے، انہی ترغیبات سے اپنے آپ کو روکنا ’’صبر‘‘ ہے۔
’’صبر‘‘ سے مراد ارادے کی وہ مضبوطی، عزم کی وہ پختگی اور نفس کا وہ انضباط ہے جس سے ایک شخص نفسانی ترغیبات اور بیرونی مشکلات کے مقابلے میں اپنے قلب و ضمیر کے پسند کیے ہوئے رستے پر لگاتار بڑھتا چلا جائے، اور اللہ تعالیٰ کی تائید ایسے ہی صابرین کو حاصل ہے۔ ’’صبر‘‘ کی ہدایت ہر زمانے کے لیے ہے، آج کے لیے تو اس کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ نزولِ قرآن کے وقت جو حالات تھے آج بھی حالات اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ قحبہ خانے اور فواحشات کی ریل پیل اُس وقت بھی تھی، اور آج بھی علی الاعلان نہایت دیدہ دلیری سے یہ کام جاری و ساری ہے۔ اُس وقت بھی عورت کو کھلونا بناکر پیش کیا جاتا تھا، آج بھی بازار کی کوئی چیز عورت کے بغیر نہیں بکتی۔ ان اخلاقی نجاستوں میں پاکیزگی کا راستہ اختیار کرنا اور اس راستے پر چلنے کے لیے ہر مشکل کو بردباری سے برداشت کرنا صبر ہے۔ صالح ایمان کی پوری دنیوی زندگی کو صبر کی زندگی قرار دیا گیا ہے۔ ہوش سنبھالنے یا ایمان لانے کے بعد سے مرتے دم تک کسی شخص کا اپنی ناجائز خواہشات کو دبانا، اللہ کی باندھی ہوئی حدوں کی پابندی کرنا، اللہ کے عائد کردہ فرائض کو بجا لانا، اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنا وقت، اپنا مال، اپنی محنتیں، اپنی صلاحیتیں ، حتیٰ کہ ضرورت پڑنے پر اپنی جان تک قربان کردینا، ہر اُس لالچ اور ترغیب کو ٹھکرا دینا جو اللہ کی راہ سے ہٹانے کے لیے سامنے آئے، ہر اُس خطرے اور تکلیف کو برداشت کرلینا جو راہِ راست پر چلنے میں پیش آئے، ہر اُس فائدے اور لذت سے دست بردار ہوجانا جو حرام طریقوں سے حاصل ہو، ہر اُس نقصان اور رنج و اذیت کو برداشت کرجانا جو حق پرستی کی وجہ سے پہنچے، اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے پر اعتماد کرتے ہوئے کرنا کہ اس نیک رویّے کے ثمرات اس دنیا میں نہیں بلکہ مرنے کے بعد دوسری دنیا میں ملیں گے، یہ ایک ایسا طرزعمل ہے جو مومن کی پوری زندگی کو ’’صبر‘‘ کا پیکر بنادیتا ہے۔ یہ ہر وقت کا دائمی اور ہمہ گیر صبر ہے۔ ایمان کے راستے پر قدم رکھتے ہی مومن کے لیے صبر کی آزمائش شروع ہوجاتی ہے۔ خدا کی فرض کی ہوئی ساری عبادات کے انجام دینے میں صبر درکار ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد یہ ساری عبادات صبر کی متقاضی ہیں۔ خدا کے ہر ہر حکم کی پیروی میں صبر کی ضرورت ہے۔ اخلاقی برائیوں کو چھوڑنا اور پاکیزہ اخلاق کو اپنانا صبر کے بغیر ناممکن ہے۔ مومن کے لیے قدم قدم پر گناہ کی ترغیبات سامنے آتی ہیں، بے شمار مواقع پر نقصانات، تکالیف، مصائب اور محرومیوں سے سابقہ پڑتا ہے، مگر صبر کے ہتھیار کے بغیر کوئی مومن بخیریت اس راستے سے گزر ہی نہیں سکتا۔ ایمان کی راہ اختیار کرتے ہوئے مومن کو اپنے نفس اور اُس کی خواہشات سے لے کر اپنے اہل و عیال، اپنے خاندان، اپنے معاشرے، اپنے ملک و قوم اور دنیا بھر کے شیاطین، جن و انس کی مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ راہِ خدا میں ہجرت اور جہاد کی بھی نوبت آجاتی ہے… ان سب حالات میں صبر کی صفت ہی مومن کو ثابت قدم رکھ سکتی ہے، اور ایسے میں اگر اسلامی معاشرے کا ہر مومن بندہ خود بھی صابر ہو اور دوسرے کو بھی صبر کی تلقین کرتا رہے تو کامرانیاں اس معاشرے کے قدم چومیں گی۔
اہلِ ایمان کو قرآن میں جابجا ہدایت دی گئی ہے کہ وہ فسق و فجور سے بچیں اور اُن ناپاک مقاصد کے لیے اپنی صلاحیتیں صرف نہ کریں جن میں غیر مسلم مبتلا ہیں۔ اسلام اور ایمان ایسی واضح حقیقتیں ہیں جنہوں نے غیر مسلموں کو مسلمانوں سے جدا کردیا ہے۔
مومن کی سب سے بڑی صفت صبر ہوتی ہے۔ صابر وہ شخص ہے جو زمانے کے بدلتے ہوئے حالات میں اپنے ذہنی توازن کو برقرار رکھے۔ وقت کی ہر گردش سے اثر لے کر اپنے مزاج کا رنگ بدلتا نہ چلا جائے، بلکہ ایک معقول اور صحیح رویّے پر ہر حال میں قائم رہے۔ اگر کبھی حالات سازگار ہوں اور وہ دولت مندی، اقتدار اور ناموری کے آسمانوں پر چڑھا جارہا ہو تو بڑائی کے نشے میں مست ہوکر بہکنے نہ لگے، اور کسی وقت مصائب اور مشکلات کی چکی اُس کو پیسے ڈال رہی ہو تو اپنے جوہرِ انسانیت کو اس میں ضائع نہ کردے۔ خدا کی طرف سے آزمائش خواہ نعمت کی صورت میں آئے یا مصیبت کی صورت میں، اس کی بردباری قائم رہے اور اس کا ظرف چھلک نہ اٹھے۔ سورۂ عصر میں ایمان والوں کی یہی شان بتائی گئی ہے کہ وہ حق بات کہتے ہیں اور اس حق کے راستے میں مشکلات آتی ہیں تو صبر کی تلقین کرتے ہیں۔ حق کی راہ میں جن جن مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُن مصائب میں وہ ہمت نہیں ہارتے بلکہ ایک دوسرے کی ہمت بندھاتے ہیں اور ثابت قدم رہنے کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ یہی اسلامی معاشرے کی وہ خوبی ہے جس کی بنا پر ہر مومن ایک دوسرے کا آئینہ اور پوری امتِ مسلمہ جسدِ واحد کی طرح ہے۔ اسی معاشرے کی عکاسی عہدِ رسالت اور خلفائے راشدین کے زمانے میں نظر آتی ہے۔
صبر ہی وہ ہتھیار ہے جس سے مومن غیر مسلموں کو ہمیشہ شکست دیتا آیا ہے، اور آج بھی غیر مسلم یہود و نصاریٰ حیران ہیں کہ اتنی خستہ حالی پر وہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے اور اُن کو نقصان پہنچانے میں کیوں بار بار ناکام ہوجاتے ہیں! ان کی سازشوں کا جال بار بار ٹوٹ جاتا ہے اور مسلمان ہر مشکل وقت میں پھر ایک ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مومن کے اس ہتھیار کو سلامت رکھے، آمین۔