میں منفرد

312

لمبے کھلے بال اور بڑی بڑی خوب صورت آنکھیں اس کو سب سے منفرد بناتی تھیں، اور یہ انفرادیت ہی تو اسے پسند تھی۔ ہر تقریب میں دور سے نمایاں نظر آنے والی ماہا… یہ ستائش اس کو اپنے حصار میں رکھتی۔ بہت توجہ سے اپنے نین سنوارتی اور پھر ان میں ہی ڈوب جاتی۔ اپنے حسن پر نازاں رہتی۔ یہ حسن ہی تو تھا جس نے اسے سب سے ممتاز کررکھا تھا، وہ شاید ابھی اس حصار میں ہی رہتی کہ ماریہ سے دوستی نے اس کی زندگی میں ہلچل مچا دی۔
ماریہ حال ہی میں اس کے پڑوس میں شفٹ ہوئی تھی اور اتفاق سے دونوں کی کلاس بھی ایک ہی تھی، اس لیے ساتھ یونیورسٹی بھی جاتیں۔ اس کی خوش اخلاقی اور ذہانت سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اس کے حجاب سے بھی بہت متاثر ہوئی تھی۔ وہ یونیورسٹی کی سب سے ذہین طالبات میں شامل تھی۔ ماہا کو اس کی صحبت میں رہ کر بہت کچھ سیکھنے کو ملا تھا۔ وہ اس کی پردے سے جھانکتی آنکھوں اور دھیمی آواز کی گرویدہ ہوگئی تھی۔
’’تم کیا شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی ایسے ہی حجاب میں رہتی ہو؟ کیسے انجوائے کرتی ہوگی شادی؟ بور ایک جگہ بیٹھی رہتی ہوگی، نہ سیلفی نہ گیدرنگ‘‘۔ اس نے کب سے ذہن میں آتا سوال آج ماریہ کے سامنے رکھ ہی دیا۔
ماریہ عادتاً دھیمے سے مسکرائی اور گویا ہوئی ’’تمہیں کیا لگتا ہے ماہا کہ یہ پردہ مجھے قید کردیتا ہے ہر تقریب کو انجوائے کرنے سے؟ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ میں اس پردے میں اپنے آپ کو قید نہیں بلکہ محفوظ سمجھتی ہوں ہر بری نظر سے، ہر غلط نگاہ سے… بلکہ میں نے تو بہت سی نگاہوں کو احتراماً جھکتے بھی دیکھا ہے، ایسے میں حجاب میں رہنا میں اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتی ہوں، اور سب سے زیادہ مطمئن میں اس بات پر ہوں کہ اپنے رب کے حکم کی تعمیل کررہی ہیں۔ اور جانتی ہو جو میرے رب کا حکم ہوتا ہے، اُس پر عمل کرنا فرض بن جاتا ہے۔‘‘
ماریہ کا دھیما اور شائستہ لہجہ ماہا کے دل میں اترتا جا رہا تھا۔ ’’لیکن یہ سب تمہیں مشکل نہیں لگتا ماریہ، اتنی خوب صورت ہونے کے باوجود، جہاں سب لڑکیاں بنی سنوری ہوں وہاں تم حجاب میں…‘‘
ماہا نے دانستہ اپنی بات ادھوری چھوڑ دی تو ماریہ نے اس کی خوب صورت آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ’’کیا یہ کم ہے کہ میرا پردہ مجھے سب سے منفرد بناتا ہے۔ جہاں سب ایک جیسے ہوں اور حسن کو نمایاں کرنے کی دوڑ سی لگی ہو… مخلوط محفلیں، رنگا رنگ تقریبات… ایسے میں میرا پردہ مجھے دوسروں سے ممتاز کرتا ہے اور اپنی اس انفرادیت پر مجھے ناز ہے میری پیاری دوست۔‘‘
ماریہ کی پُراعتمادی ہی اس بات کی دلیل تھی جس نے ماہا جیسی خود ستائش لڑکی کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
’’منفرد نظر آنے کا تو مجھے بھی شوق ہے، لیکن ماریہ کے منفرد نظر آنے اور میرے منفرد نظر آنے میں کتنا فرق ہے! وہ صرف رب کی رضا کے لیے، اُس کے حکم کی تعمیل کے لیے اپنے آپ کو چھپائے ہوئے ہے، اور میرے لیے یہ سب کتنا مشکل ہے۔ لیکن حجاب جب ماریہ کے لیے مشکل نہیں تو میرا اللہ بھی میرے لیے تمام راستے ان شاء اللہ ہموار کردے گا‘‘۔ اس نے دل ہی دل میں چپکے سے عہد کیا اور اپنی پیاری سی نیک سیرت دوست کی طرف دیکھ کر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے مسکرا دی۔

حصہ