شکر کرنا نہ بھولیں

221

وہ ابھی ہسپتال کے اندر داخل ہی ہوئی تھی اور وارڈ کی طرف جارہی تھی جہاں اس کی کزن داخل تھی کہ اس کی نظر ایک جوان پر پڑی، جس کے ہاتھ میں چھوٹے بچے کا کیری کوٹ تھا۔ وہ لوگوں کے جھرمٹ کو توڑتا ایمبولینس کی جانب بڑھ رہا تھا۔ ہانی نے ذرا رک کر منظر کو سمجھنے کی کوشش کی تو کیری کوٹ میں رکھے ننھے منے سے کفن پر نظر پڑی۔
’’یااللہ رحم…‘‘اس کی جیسے سانس رک گئی ہو۔
ابھی اس کی کزن کے ہاں بیٹی ہوئی تھی، خوشی کا سماں تھا، اور وہ بھی اسی خوشی کے موقع پر یہاں آئی تھی، مگر ایسا اداس اور پُرسوز منظر دیکھ کر جیسے اس کا دل شکر سے بھر گیا۔
اللہ کی عظیم قدرت اس کے سامنے کھلی۔
کہیں ہیں شامیانے تو کہیں ہیں جنازے۔
آہ ! یہی دنیا کی تلخ حقیقت ہے۔
اور کتنے ناشکرے ہیں ہم، جو ہوتا ہے اُس پر شکر ادا نہیں کرتے، اس کو نہیں دیکھتے، بلکہ لاحاصل کے پیچھے دوڑے چلے جاتے ہیں۔
انہی باتوں پر غور کرتی وہ اپنی کزن سے بھی ملی اور تھوڑی دیر بیٹھ کر گھر جانے کو نکل کھڑی ہوئی۔ پارکنگ کی طرف جاتے ہوئے اسے بہت سے لوگ وہیل چیئر پر نظر آئے۔ کتنے تو اس کی طرح جوان تھے۔ کسی کی ٹانگ پر پٹی تھی، تو کسی کی سرے سے ٹانگ ہی نہ تھی۔ کوئی بے ہوش اسٹریچر پر پڑا تھا، تو کوئی بہت سے ماسک اور آلات کے سہارے جی رہا تھا۔
’’کتنا شکر ہے ناں تیرا یااللہ!‘‘ اس کے دل سے آواز آئی۔ ہر چیز تو ہے ہمارے پاس۔کتنی نعمتیں گنوں! بے شک اللہ تعالیٰ سورۃ ابراہیم میں سچ فرماتا ہے کہ ’’اگر تم میری نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکو گے۔‘‘
سفر لمبا تھا مگر نہ اسے کسی سائیکل پر جانا تھا، نہ رکشہ کے لیے انتظار کرنا تھا۔ اس کے پاس اپنی گاڑی تھی جسے جب چاہے، جہاں چاہے وہ لے جاسکتی تھی۔
’’بے شک چھوٹی ہے مگر گاڑی تو ہے ناں‘‘۔ اس نے آلٹو کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے سوچا۔
گاڑی چلا رہی تھی اور ان پائوں کا شکر ادا کررہی تھی جن پر زور ڈال سکتی تھی، ان ہاتھوں کا جن سے اسٹیئرنگ گھما سکتی تھی، اس دماغ کا جو اسے گائیڈ کررہا تھا، ان آنکھوں کا جن سے وہ راستہ دیکھ رہی تھی… اور ہر چیز کا ہی۔ وہ سوچتی جارہی تھی اور شکر کرنا نہ بھولیںسوچ سوچ کر اس بڑائی والے رب کے آگے جھکے جارہی تھی… اتنے کے تو ہم لائق بھی نہ تھے جتنا اُس نے عطا کردیا… شکر

سے لبالب دل و دماغ سے اس نے سوچا… اسے بس یہی آیت یاد آرہی تھی (ترجمہ) ’’اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے؟‘‘

حصہ