’’پہاڑوں کے بیٹے‘‘ جہاد اور جہادیوں کے عزم و حوصلے اور ربانیوں کی داستان ہے جو ’’ام ایمان‘‘ (غزالہ عزیز) جیسی کہنہ مشق مصنفہ کے قلم سے لکھی گئی ہے۔ اس سے پہلے جہادِ افغانستان پر لکھی ہوئی ان کی کتاب ’’مسافتیں‘‘ (پہاڑوں کے بیٹے) خواتین میگزین لاہور کے صفحات کی زینت بن چکی ہے۔ وہ ’’اُمِ ایمان‘‘ کے قلمی نام سے ایمان افروز تحریریں لکھتی رہتی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ موجودہ معاشرے کی بے چینی اور افراتفری کا حل صرف اور صرف جہاد ہے، اور مسلمانوں کے تو ایمان کا حصہ ہے۔ کشمیر اور فلسطین کے مظلوم مسلمان منتظر ہیں کہ کب مسلمانوں کی غیرتِ ایمانی جوش میں آتی ہے اور کب انہیں آزادی نصیب ہوتی ہے۔
جہاد موجودہ بے چینی کا سب سے صحیح حل ہے اور اسی حل کو اُمِ ایمان نے بے انتہا خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے۔ پہاڑوں پر رہنے والوں کی مشکلات، اُن کی گھریلو زندگی، ان کے خوب صورت جذبات اور ان کی جہدِ مسلسل ’’اُمِ ایمان‘‘ کی قلمی کاوشوں اور ان کے حُسنِ بیان سے نمایاں ہوگئی ہے۔
محترمہ غزالہ عزیز صاحبہ کا قلم مسلسل حرکت میں رہتا ہے، وہ کبھی ’’صبح تمنا‘‘ کے افسانوں میں نظر آتی ہیں، کبھی ’’مسافتیں‘‘ میں جہادیوں کا کردار ادا کرتی ہیں۔ ’’پہاڑوں کے بیٹے‘‘ ایک ایسی قلم کار کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جو چالیس سال سے زیادہ عرصے سے کوچۂ تحریر و صحافت میں اپنے متحرک کردار کے ساتھ جولانیاں دکھا رہی ہے۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ راستیِ فکر کے ساتھ ایک بہترین اور ذمے دار مصنف و مؤلف جوکسی مصلحت آمیزی کا شکار ہوئے بغیر اظہارِ مدعا کرنے کا عادی ہو اُس کی بے ریا اور بے باک تحریریں خودبخود اپنے قارئین کے دل میں گھر کرتی چلی جاتی ہیں۔ محترمہ غزالہ عزیز صاحبہ کے اس نمایاں کردار کو روزنامہ ’’جسارت‘‘ کی صحبت نے دوآتشہ بنادیا ہے جس سے وہ 2001ء سے وابستہ ہیں۔ وہ نئے لکھنے والوں کو بھی اپنی خوب صورت آواز، دل نشین انداز اور مہذب گفتگو سے نہ صرف متاثر کرتی ہیں بلکہ حوصلہ افزائی بھی کرتی ہیں۔ یہ وہ اضافی خوبیاں ہیں جو ہر سننے سمجھنے والے کو ان کے دل تک پہنچا دیتی ہیں۔ ان کی کتابیں مسافتیں، غلام بنے سردار، صبح تمنا مقبولِ عام ہوچکی ہیں۔
ایک مؤقر اخبار سے وابستگی کی وجہ سے محترمہ غزالہ عزیز آج کل کے معاشرے میں پائی جانے والی افراتفری اور بے چینی کو بھی دیکھ رہی ہیں اور ملک کے سیاسی، سماجی حالات اور ان میں ہر لمحہ آتے اتار چڑھائو سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ سال بھر سے کشمیریوں کے لاک ڈائون اور کشمیریوں کی بے بسی اور بے کسی پر ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے، اور جب وہ قلم اٹھاتی ہیں تو ’’پہاڑوں کے بیٹے‘‘ جنم لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے، اس کے تحت قلم کی حرمت، عزت اور آبرو کو قائم رکھنا ایک مشکل کام ہے۔ مقامِ اطمینان یہ ہے کہ محترمہ غزالہ عزیز اس فریضے کو پوری دیانت داری سے ادا کررہی ہیں۔ اللہ کرے زورِ ِقلم اور زیادہ۔ میری تمام نیک خواہشات اور تمنائیں ان کے ساتھ ہیں۔